پاکستان کے قومی ‘ ملی ‘ سیاسی ‘ معاشی ‘ ثقافتی احوال
اور دُکھ سکھ کے اثرات چاروں صوبوں ‘ گلگت بلتستان کی طرح آزادکشمیر میں
بھی ایک جیسے ہوتے ہیں جب کہ مقبوضہ کشمیر کے عوام کی توقعات رشتے ناطے
روحانی اور لہو کے مقدس اعلیٰ ارفع بلندیوں پر ہمکنار ہیں جس کے سامنے
سیاسی ‘ معاشی تغیر و تبدل کوئی معنی نہیں رکھتے ہیں تاہم آزاد کشمیر میں
صف بندیوں اور رائے عامہ کو پیش نظر رکھتے ہوئے سوچ و فکر ہموار ہوتی ہے
خصوصاً سرکار اور اس کے سارے نظام سے جڑے اکاؤنٹ 101 کے بلاواسطہ اور بل
واسطہ مستقل اور غیر مستقل منصب اختیار اور روزگار سمیت اہمیت افادیت رکھنے
والوں کا دارو مدار ملکی نظام کے ساتھ ہے ‘ جہاں کپتان عمران خان کی بطور
وزیراعظم حکومت آ جانے کے بعد احتسابی عمل کی تیز ہوتی شمشیر اور جن کے
بارے میں کوئی تصور نہیں کر سکتا تھا ان قبضہ مافیا کے تسلط سے زمینوں کو
واگزار کرانے کے دوران بڑی بڑی عمارتوں کو زمین بوس ہوتا دیکھ کر یہاں کے
عوام بھی سوال کرتے ہیں کیا آزادکشمیر میں بھی احتساب ہو گا ‘ سیاست سے
لیکر سرکار اس کے محکموں سمیت مقدس تصور شہرت والے ‘ ناجائز استفادہ کار
مافیاز سے نجات ملے گی یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب خود ان کے سوال کے لہجہ
راز درانہ انداز انجانے خوف مصلحت مجبوری تعلق داری معمولی معمولی دلچسپیوں
ضرورتوں کے خانوں جیسے جال میں پھنسی مچھلیوں کی بلبلاہٹ ‘ بے چینی ‘ جان
چھڑانے کی کیفیت ہوتا ہے ہم اپنی زبان سے ایک لفظ بھی نہ بولیں اس کے لیے
کچھ بھی نہ کریں بس وزیراعظم جج احتساب بیورو والے خود سب کچھ کریں جس کا
جواز ماضی کے نعرے دعوے منشور مقاصد کا ہوائی ہونا بتاتے ہیں جس کے دوران
پکڑے جانے والے سب کچھ کر کے بھی چند ایام کے بعد ضمانت پر باہر آ کر پہلے
سے زیادہ طاقت اختیار اثر و رسوخ کے شیک ہولڈرز بڑے آدمی کہلاتے ہیں کیوں
کہ ترازو کے نشان والے چہرہ پڑھتے ہیں اور قوانین کی کتب کا تقدس کا تقاضا
رام رام کرنا ہے عملاً بغیر لکھے پڑھے رائج العمل زور آور قانون کی فرماں
برداری میں سکھ چین ہے پورے ملک میں ڈھائی سو دِن پہلے تک سارے عرصے اقتدار
میں رہنے والوں نے ایسے قوانین بنائے ہوئے تھے جن کے گورگھ دھندے میں
چھچھوندر کی طرح ان کا کاٹ کر باہر آ جانا گارنٹی ہے تاہم چور چور ضرور
مشہور ہو جاتے ہیں یہاں تو پکڑنے بل کہ اپنی اپنی تنخواہ مراعات کا عذر
قائم رکھنے کو چھوٹے چھوٹے کوے گیڈر ‘ بلیاں ‘ بلے خام مال ہیں ہاتھی ‘
چیتے ‘ بارہ سنگھے ‘ ہانڈو ‘ لومڑیوں پر ہاتھ بڑھانے کا اختیار بھی نہیں ہے
نیب بھی لبریشن سیل کا صوابدیدی ونگ ہے جس کا کوئی کام نہ ہو اسے دریا کا
پانی چھاننے کا وظیفہ خوار بنا دیا جائے جس کی کیپ (ٹوپی) بطور سمبل آف نیک
نامی حاضریاں لگاتی رہے جس کا حق بنتاہے گینز بک آف ورلڈ میں نام شامل ہو
جائے کم از کم پورے ملک کی طرح ایک دوسرے کو چور چور کے شور میں ووٹ لے کر
باریاں لگانے اور پھر قوانین کے احتسابی گنگا جمنا میں ڈبکی انتقام انتقام
کے کلام کے جادو منتر کے ساتھ اسمبلی میں براجمان تحفظ کا غلاف اوڑھتے ہیں
اور عمرانی نعرے احتساب پر عمل شروع ہوتا ہے تو کرپشن ‘ لوٹ مار کی باریوں
کے پائلٹ اور ان کی اتحادی سواریوں کے مریدین لینٹ مافیا کا سرمایہ تعاون
کپتان کے کھلاڑیوں کو بھی ھرادیتا ہے وہاں عمران خان ثاقب نثار سرپھرے ہیں
یہاں تو ایسے عزائم رکھنے والوں کا مقدر خراب ہے ‘ حرمت تحریک کشمیر بھارت
کی سازشیں اصل مسئلہ ہے ایسا کام کیوں کریں جس سے دشمن کے عزائم پورے ہوں ‘
معدنیات ‘ جنگلات ‘ اراضی ‘ منصب ‘ عہدے ‘ ملازمتیں ‘ اثاثے سب عارضی
چیئزیں ہیں جو ختم ہو جائیں گی ‘ ایک دِن قیامت آئے گی تو حساب ہو جائے گا
بسوں ‘ ٹرکوں کے پیچھے لکھا ہوتا ہے اپنا اپنا مقدر اپنا اپنا نصیب جس کا
مطلب سمجھنا چاہیے ‘ اسلام آباد کے پلاٹ کا بہت اچھی کونسل سے تعمیراتی
منصوبوں کو لینے والے محکمہ شاہرات کا رُخ اپنی طرف کر لینے والے مقدر کے
سکندر کا کرشمہ ہے وہ جیسے چاہے لے باہر سے کوئی زیادہ بڑی قیمت لگاتا ہے
تو بغیر جان پہچان اعتبار جاہلیت ہے ‘ بنک سکوائر کی سرخ عمارات بھی
پرائیویٹ پارٹیوں کو دینے سے بہتر گھر کی بات گھر میں رکھنے میں ہے جس کے
باقی اثاثے بھی نیک ‘ پرہیز گار ‘ پُرنور و روشن ‘ ذات پاک کا حق ہے ان کی
راہ کے روڑے ہٹائے جائیں یہ سب باتیں بطور اعتراض کرنے والے رام کہانیاں
کرتے ہیں اور بلیک منی کو وائٹ کرنے کے واشنگ مشین فارمولے پوچھنے والوں کا
بھی محض فسانہ ہے اگر پہلے حقیقتاً ایسے حادثے ہوئے ہیں جن کے آفٹر شاکس آج
بھی جاری ہیں تو ہندو ماتاؤں کی طرح چالیس چالیس ہاتھ کہاں سے لائیں جو یہ
وارداتیں روک سکیں ‘ قدرت پر سب کچھ چھوڑ دو اور اس کا قصہ ریٹائرآفیسر
حبیب کی زبانی سنو اس کے گاؤں میں ایک الف خان تھا جو تین سال پہلے دنیا
چھوڑ گیا جس سے پہلے اپنے خاص عزیز سے کہامیرے کانوں میں کلمہ پڑھ دینا
کیوں کہ ساری عمر غیر اعلانیہ اپنی پہلی محبت ہندی سرتال سے وفا نبھائی جس
کی بظاہر مسلم شناخت نماز جنازہ کا وقت تھا تو ایک نے کہا بھٹو کو پھانسی
کی سزا دینے والے جج مولوی مشتاق کا جنازہ پڑھنے کو آنے والوں کو شہد کی
مکھیوں نے حملہ کر کے بھگا دیا تھا یہاں کوئی دھماکا نہ ہو جائے ایسا نہیں
ہوا مگر صاف ستھرا موسم میں اچانک کالی آندھی چلی ‘ موسلادھار بارش ہوئی
اور قبر پانی مٹی سے پہلے ہی بھر گئی جس کے بعد راو ی خاموش ہو گیا لہٰذا
خلق کو ٹرک کی لال بتی کے پیچھے لگاے رکھنے اور تماشادیکھنے والے قدرت کا
انتظار کریں ؟؟؟؟؟ |