کشمیر لہو لہو

 سعدیہ بنت خورشید احمد
انسانیت کہنے اور سننے کو چھوٹا سا لفظ ھے مگر اپنے اندر وسعت وگہراء رکھتا ھے ،کتنا ہی اچھا ھوتا کہ اس کی لغوی حیثیت کی بجائے اسکی حقیقت کو پہچانا جاتا۔اج دوسرے ممالک انسانی حقوق کا پرچار کرتے نظر اتے ھیں۔بڑے بڑے حلقوں میں اس لفظ کی مدح سرائی کی جاتی ھے لیکن یہ مدح سرائی احساس سے بالکل عاری صرف لفظ کی لغوی حیثیت تک ہی ھے اسکا حقیقت میں کوء روپ نظر نہیں اتا ھے۔ اب مسئلہ یہ ھے کہ جس حقیقی انسانیت کی میں بات کر رہی وہ گئی کہاں؟ انسانی حقوق کے علمبردار اج کشمیر کے معاملے میں خاموش کیوں ھیں؟ کشمیر کے گلشن میں ایک بار پھر اگ لگ گئی ھے۔جنت نظیر کی سڑکیں ایک بار پھر بے گناہوں کی لاشوں سے بھر گئی ھیں۔آئے روز بوڑھے باپ کندھوں پہ جوان بیٹے کا لاشہ اٹھاتے ھیں۔14 سال کے بچے سے لے کر 90 سال تک کا بوڑھا بھی جیلوں میں قید ھوتا ھے۔بچیوں کی عصمتیں محفوظ نہیں۔باپ کے سامنے بیٹی کی عزت لوٹ لی جاتی ھے۔ماں باپ دہائیاں دیتے رہ جاتے ھیں۔آئے روز کرفیو لگا کر مساجد،مدارس کو بند کیا جا رہا ھے۔پھر شہداء کے جنازے پر پابندی لگائی جاتی ھے۔ایک جنازے کو الوداع کہنے میں کئی جوانوں کے جنازے نکلتے ھیں۔آنسو گیس اور پیلٹ گنز کے استعمال نے کشمیریوں کو اپاہج کر دیا ھے۔مودی سرکار نسل کشی کی نئی تاریخ رقم کر رہی ھے۔ مقبوضہ کشمیر کے حالات بہت ہی کشید ھیں۔کشمیری رہنما مظفر وانی کی شہادت کے بعد بھارتی افواج نے مظالم کا نیا باب شروع کر رکھا ھے۔نہتے کشمیریوں پر پیلٹ گنز اور پاواشیل کا استعمال کیا جا رہا ھے۔ اس دوران وادی کشمیر میں مسلسل کرفیو نافذ رہا ھے اور تعلیمی اداروں کو بند رکھا گیا ھے۔ اتنے عرصے میں کشمیریوں پر جس قدر ظلم و ستم ھوا یہ بھی تاریخ کا ایک سیاہ باب ھے۔گویا کشمیر کا پتہ پتہ ظلم و زیادتی کی داستاں سنا رہا ھے۔ہر طرف قیامت کا سماں اور عجیب منظر ھے۔ اس معاملے میں اقوام متحدہ کا ری ایکشن نہایت ہی مایوس کن رہا ھے۔ انڈیا پر زور ڈالنے کی بجائے پاکستان میں کشمیریوں کے حق میں اٹھنے والی حافظ سعید کی اواز کو دبانے کی بھرپور کوشش کی گئی اور ان پر پابندیاں لگا کر نظر بند کر دیا گیا۔ اتنے ظلم و ستم پر انسانی حقوق کے دعویداروں اور امن کے ٹھیکداروں کی زبانیں خاموش کیوں ھیں؟
 
کشمیریوں کی تحریک آزادی کو کامل 70 برس گزر چکے ھیں۔کہنے کو تو 70 برس صرف دو الفاظ ہی لگتے ھیں لیکن یہ ستر برس اپنے اندر بھارتی مظالم کی کہانیاں بسائے کشمیریوں کو ستر ہزار سال لگتے ھیں۔ اتنے ظلم و ستم کے باوجود بھی کشمیری راہنماؤں کی جدوجہد میں کوئیکمی نہیں واقع ھوئی ھے۔حریت کو نہ تو قید خانوں کا خوف اور نہ ہی تشدد کا صدمہ اس معاملے سے پیچھے ہٹا سکا ھے۔جب پاکستان میں کشمیریوں کے حق میں اٹھنے والی حافظ محمد سعید کی سب سے مضبوط آواز ابھری اور 2017ء کو کشمیر کے نام کیا گیا تو اس سے کشمیریوں میں آزادی کا جذبہ مزید پروان چڑھا ۔تعلیمی اداروں کو جب کھولا گیا تو طلباء و طالبات نئے انداز سے میدان میں ائے اور ایسی سنگ بازی کی مثال نہیں ملتیں۔ ڈاکٹر منان وانی کی شہادت کے بعد تحریک آزادی کو مزید فروغ ملا ھے۔کشمیرمیں 5 سال کے بچے سے لے کر 95 سال کا بوڑھا بھی بھارت سے بغاوت کا اعلان کر چکا ھے۔ کشمیری "Go India Go back" ، "ہم کیا چاہتے؟ ازادی" ، "ہم پاکستانی ھیں ، پاکستان ہمارا ھے" کا نعرہ لگاتا ھوا پاکستانی پرچم ہاتھ میں تھام کر جاں کی بازی لگا دیتا ھے اوراقوامِ عالم کو یہ پیغام دیتا ھے کہ پاکستانی ھونے کے ناطے ہمیں بھارت کی غلامی کسی صورت بھی قابل قبول نہیں۔ حریت رہنماؤں اور کشمیریوں میں یہ جذبہ دیکھ کر بھارت شدید بوکھلاہٹ کا شکار ھے اور وہ طرح طرح کے ظلم ڈھا رہا ھے لیکن کشمیریوں کے دلوں میں پاکستان کی محبت ختم کرنے میں ناکام ھو رہا ھے۔ انڈین آرمی چیف نے بیان دیا کہ ہم نے کشمیر میں مجاہدین کا خاتمہ کر دیا ھے لیکن کچھ ہی عرصے بعد وہی مجاہدین ان کے لیے تباہی کا سامان بنے۔ اور اب تو انڈین اینکر پرسنز بھی یہ کہنے پر مجبور ھو گئے ھیں کہ بھارت،کشمیر کو اپنے سے الگ کر دے کیونکہ کشمیر میں لگی آگ آہستہ آہستہ دوسری ریاستوں میں بھی پھیل جائے گی اور پھر ہندوستان کا وجود خطرے میں پڑ جائے گا۔

اب کشمیر ایسا بھی مسئلہ نہیں کہ جس کو حل ہی نہیں کیا جا سکتا ۔سابقہ حکومتیں اس مسئلہ پر نہایت ہی سست روی کا شکار رہی ہیں۔جو انداز ہمارے حکمرانوں کا رہا ھے یہ کہنا بالکل بھی غلط نہ ہوگا کہ ہمارے سابق حکمران اسکا حل چاہتے ہی نہیں تھے کیونکہ اس سے مودی سے یاریاں ختم ھونے کا امکان تھا۔ اقوام متحدہ نے بھی اس معاملے میں آنکھیں بند کی ھیں۔کوء بھی اس مسئلہ پر کان دھرنے کو تیار نہیں ھے۔یہاں ہر کوء مفاد پرست نظر آتا ھے۔ ستر برس سے پاکستان کے نام پہ قربانیاں دینے والے کشمیریوں سے غداری کرنے والو! یوم محشر ،اﷲ کے حضور کس منہ سے پیش ھو گے؟ 27 اکتوبر کوکشمیری یوم سیاہ مناتے ھیں ہم پاکستانی ہونے کے ناطے کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ھوئے یوم سیاہ بھرپور انداز میں منائیں گے اور قدم سے قدم ملا کر چلیں گے۔کیونکہ ان ماؤں، بہنوں کی نظریں آج بھی پاکستان پر ھیں کہ کب کوء محمد بن قاسم آئے اور ہمیں ان ظالموں کے غاصبانہ قبضے سے چھڑا لے جائے۔وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اقوام متحدہ میں جس طرح بھارت کی دہشت گردی کا دنیا کے سامنے پردہ فاش کیا ھے اور کشمیریوں پر ہونے والے ظلم و ستم پر بات کی ھے یہ نہایت ہی خوش ائند ھے۔ وزیراعظم عمران خان نے بھی کشمیریوں پہ ہونے والے مظالم پہ بات کی ھے اس سے امید ھے کہ ان شاء اﷲ کشمیر جلد آزاد ھوگا اور پھر جلد بھارت میں لہرائے گا پاکستان کا جھنڈا۔ ان شاء اﷲ
 

Abdullah Akbar
About the Author: Abdullah Akbar Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.