امریکہ کیا چاہتا ہے؟

 تحریر: عامر ظہور
روزمرہ کی طرح آج بھی اپنے ایک دوست کے ہمراہ پاکستانی نیوز چینل کی ہیڈ لائن سن رہا تھا کہ اچانک سے نیوز کاسٹر کے لہجے میں کپکاہٹ اور خوف کی جھر جھری ہوئی۔ ترش اور خوف زدہ لہجے میں کہتے سنا کہ پاکستان کی حالیہ معاشی ابتری پر سعودی دلچسپی اور امداد کے بعد دنیا اور انسانیت کے مامے خان میرا مطلب ریاست ہائے امریکہ نے پاکستان کو پھر ڈو مور کی اور پابندیوں کی دھمکی دے ڈالی۔ میرے دوست کے لہجے کا رنگ اتر گیا جو غور طلب تھا۔ وہ مجھے کہنے لگا کہ یہ کیا بات ہوئی۔ اس چیز کی ان کو کیا تکلیف ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ پاکستان اور امریکی تعلقات میں جو موجودہ حکومت کی پیش رفت ہوئی تھی وہ محض ایک ڈھونگ تھی یا ایک ڈرامہ؟ آخر یہ امریکہ کیا چاہتا ہے؟ میں ان کے خود ساختہ سوال و جواب پر مسکرا دیا۔ اس کی اضطرابی کیفیت پر مجھ سے رہا نہ گیا میں نے بے اختیار کہ دیا کہ اس کا مطلب ہے علی خمینی نے درست کہا تھا۔ وہ حیرت سے کہنے لگا اس نے کیا کہا تھا؟ میں چائے کا سپ لے کر کرسی پر سیدھا ہوگیا ۔ اس نے کہا تھا سعودی عرب ایک بھینس ہے ایک ڈنگر اور امریکہ اس کو دوہنے پہ لگا ہوا ہے۔ تو آپ کا کیا خیال ہے آپ اپنی بھینس کو کسی اور کو دوہنے دو گے؟ ایک خفیف سی مسکراہٹ سے ان کے چہرے کے رنگ بکھرے اور کہنے لگے کہ پھر اندر کی کیا بات ہے؟

میں نے کہا یہ وہی کچھ ہے جو مئی 2017 میں ریاض سمٹ میں ایک مسخرے امریکی صدر کے ساتھ تعلق استوار کرنے کے غم میں امتِ مسلمہ کی متبرک ریاست نے ایک سو دس بلین ڈالر کے فوری ہتھیار خریدنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ یہ معاہدہ کافی دن تک بین الاقوامی سطح پر توجہ کا مرکز رہا۔مزید یہ کہ آئندہ دس سالوں میں لگ بھگ تین سو پچاس بلین ڈالر کے ہتھیار اور دفاعی سازوسامان خریدا جائے گا۔ جو کل مالیت تقریباً چار سو ساٹھ بلین ڈالر بنتے ہیں۔اس کے ساتھ ہی سعودی عرب بیس بلن ڈالر ڈائریکٹ امریکی معیشت اور انفراسٹرکچر میں انوسٹمنٹ کرے گا۔ کہانی یہیں ختم نہیں ہوتی سعودیہ عرب بلیک سٹون گروپ کا بھی حصہ بننے کو مرا جارہا جس میں چالیس بلین ڈالر کے امریکی انفراسٹرکچر کے پروجیکٹ شامل تھے۔ غریب اور متوسط اسلامی ریاستوں سے 2000 ریال صرف عمرہ فیس کی مد میں وصولنے والی اسلامی ریاست اس اسلحے کے ذخیرہ کو کیا کرے گی۔؟ ایران کو دبانے کے لیے؟ یمن میں خانہ جنگی یا پھر دیگر اسلامی ریاستوں میں دخل اندازی؟ کیا امریکہ یہ یہی چاہتا ہے؟ جی ہاں وہ بھی یہی چاہتا ہے۔

اس سرمایہ کاری سے صرف ایک کروڑ امریکیوں کو نوکریاں اور روز گار میسر آئے گا بے چارے غریب لوگ! تو ایسے حالات میں جب آپ دس بلین ڈالر سی پیک کی مد میں دوہ لیں گے اور تین بلین ڈالر اپنے سٹیٹ بینک میں رکھوائیں گے اور امریکی کرنسی کو نیچا دکھائیں گے تو ایسا تو ہوگا پھر۔ ادھر آپ نے اگلے تین سال کے لیے نو بلین ڈالر کے تیل کا خیراتی قرض بھی لے لیا۔ اور سب سے اہم بات اسلامی اتحاد و یگانگت کی بات کرتے ہیں۔یمن مسئلہ مذاکرات سے حل کروانا چاہتے ہیں۔ ایران ،سعودی عرب ،قطر سمیت ترکی کے آپسی انتشار کو تلف کرنے کا اعادہ کریں گے۔ تو اس کا مطلب ہے کہ آپ امریکہ کے پیٹ پہ لات ماریں گے۔ وہ ایسا کیوں ہونے دے گا اور شاید کبھی نہیں ہونے دے گا۔ جب مسئلہ ہی سیٹل ہو جائے گا تو سعودیہ اتنے بھاری اسلحہ کو لے کر کیا کرے گا۔ دوسرا آپ سی پیک میں شامل کرکے امریکی بلاک سے توڑ کر چائنہ کے بلاک میں شامل کرنے جارہے ہیں تو پھر آپ پر بہت جلد بہت سی بے جواز پابندیاں بھی لگ سکتی ہیں۔ یا پھر آپ کے ساتھ ذوالفقارعلی بھٹو اور شاہ فیصل جیسا سلوک بھی کوئی دور نہیں۔

قطر کو چھوڑ کر پورے گلف سے امریکی بحری اور ہوائی جہاز آپریٹ کرتے ہیں جس وجہ سے اسے سخت اعتاب کا نشانہ بنایا گیا۔ تو آپ اگر امریکیوں کو قطر کی طرح نکالیں یا نظر انداز کریں گے تو کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ اور ملک کی معشیت مضبوط یا ریاستی استحکام آگیا تو آپ تو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لیے بہت بڑا مسئلہ بن جائیں گے۔ وہ ایسا کسی قیمت پر نہیں ہونے دیں گے۔ اور بنیے امریکہ کی آئی ایم ایف کی دکانداری ٹھپ ہو جائے گی۔ آپ کے پاس پیسہ وافر مقدار میں آئے گا تو ڈیفینس کے نام پر آپ ایٹمی اور روایتی ہتھیاروں کی پیدا وار بھی بڑھا دیں گے اور کسی سطح پر اسلامی ممالک کو سستے داموں بیچنے کے اہل ہوگئے تو امریکہ کہاں سے کھائے گا؟یہی وجہ ہے کہ سعودیہ اکتوبر 2018 تک ریاض معاہدے کے مطابق ساڑھے چودہ ارب ڈالر کے امریکی ہتھیار خرید چکا۔ اس سے امریکی اور اسرائیلی کمپنیز کا جن میں بوئنگ،لاک ہیڈ، ریتھون، جنرل ڈائنامکس،نارتھ راپ گرومن ،نیشنل آئل ویل وارکو سمیت لا تعداد کمپنیاں شامل ہیں براہ راست فائدہ منسوب ہے۔

تو وہ امریکی حکومت اور صدر کے ساتھ ساتھ امریکی محکمہ دفاع پر بھی پریشر گروپ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ دوسری طرف مرحوم سینیٹر جان مکین سمیت نصف درجن بھر سے زائد ریپبلکن اور ڈیمو کریٹک سینیٹرز اس معاہدے اور ڈیل سے اختلاف رائے بھی رکھتے تھے۔ تو ایسے حالات میں یہ سب تو ہوتا رہے گا۔ دنیا میں برطانوی اور روسی اجارہ داری کے بعد اب امریکی اجارہ داری کا اختتام ہونے والا ہے۔ جمال خشوگی کے قتل میں امریکی انٹیلی جینس ایجنسیوں کا بھی پورا پورا ہاتھ ہے لیکن سارا ملبہ سعودی حکومت پر ڈال کر ذاتی مفادات کی تکمیل کے لیے بلیک میل کیا جارہا ہے اور ٹرمپ یونیورسلی ایک ڈیل میکر کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ ترکی سیاسی اور سفارتی محاذ پر سعودیہ سے اختلافات رکھتاہے اس لیے وہ بھی اس موقع کو بھرپور کیش کرنا چاہ رہا ہے اس کا نتیجہ بھی ایک ڈیل ہی ہوگا۔ یہی اصل ماجرہ ہے۔ بھینس ہتھیانے کے دکھ میں امریکہ کو پاکستان ایک آنکھ نہیں بھا رہا۔
 

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1025468 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.