میجر ڈاکٹر عاطف رسول ( تمغہ بسالت)

ابھی جام عمر بھرا ہی نہ تھا کہ کف دست ساقی سے چھلک پڑا
رہی دل کی دل میں وہ حسرتیں کہ وہ نام قضا نے مٹا دیا

جرأ ت و بہادری کی عظیم مثال ، اﷲ کریم نے بے شمار ایسے غیر معمولی صلاحیتوں والے لوگوں کو پیدا فرمایاجنہوں نے اپنی سوچ اور فکر سے وطن کی خدمت کی ، کچھ لوگوں نے یہ اعلیٰ مقام انتہائی محنت لگن سے حاصل کیے تو کچھ لوگوں کی قسمت میں اﷲ کریم نے عظیم مرتبہ لکھ دیا اور کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو وطن عزیز کی خاطر اپنی جان کا نذرانہ پیش کر کے قوم کے دلوں پر کبھی نہ مٹنے والے نقوش چھوڑ جاتے ہیں۔وہ لوگ جنہوں نے اپنا مقدس لہودے کر گلشن کی آبیاری کی ،چند ایک سے واقف سب ہیں لیکن گوہر پنہاں سے واقف کوئی کوئی ہے۔ شہید عظیم المرتبہ ہوتا ہے ۔ لیکن جوان بیٹے کا جدا ہونا ایک ماں ہی بتا سکتی ہے کہ ایک لاڈلے کی جوانی میں جدائی ، لوریوں کی آواز بھی مدھم نہ پڑی ہو صرف وہی محسوس کر سکتا ہے کہ بوڑھے باپ نے بیٹے کو آخری سفر پر کیسے روانہ کیا ہوگا۔صرف 32 سال کی عمر میں جام شہادت حاصل کرنے والے اس نوجوان نے کم عمری میں ہی تمغہ بسالت اور گریٹ پاکستان ایوارڈ اپنے نام کر کے نہ صرف اپنے خاندان کا بلکہ پور ے ملک کا سر فخر سے بلند کر دیا۔

ماں کی آنکھوں کا تارہ باپ کا لخت جگرمیجر ڈاکٹرعاطف رسول بچپن سے ہی بہت بہادر اور بہترین مقرر تھا ۔ شہید کی والدہ بھی ٹیچر تھیں اس لیے گھر کا سار ا ماحول ہی پڑھا لکھا اور ادب سے تعلق رکھنے والا تھاشہید والدین کا انتہائی عزت و احترام کرنے والا با ادب بیٹا تھا ۔ابتدائی تعلیم آرمی پبلک سکو ل لاہور کینٹ سے حاصل کی اس کے بعد میٹرک گیریژن بوائز ہائی سکول کینٹ سے مکمل کرنے کے بعد 2003ء میں ایف ایس سی گورنمنٹ کالج لاہور سے مکمل کی۔والدہ کی خواہش تھی کہ بیٹا ڈاکٹر بنے جبکہ والد چاہتے تھے کہ بیٹا پا ک فوج میں اپنی خدما ت سر انجام دے ۔۔۔زمانہ طالبعلمی میں بہت ہونہار اور اپنے سکول کا بہترین مقرر تھا۔ میجر ڈاکٹر عاطف رسول کو اردو اور انگریزی دونوں زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ وہ سکول و کالج سے بڑے بڑے انعام لے کر آتا تھا۔ منو بھائی اور فاطمہ ثریا بجیا سے کئی بار انہوں نے تقریری مقابلوں میں انعام حاصل کیے ۔ والدین فریضہ حج ادا کرنے گئے جہاں دونوں نے اپنے بیٹے کے مستقبل کے لیے دعا مانگی اﷲ کی کرنی دیکھیں والد اور والدہ دونوں کی دعا قبول ہوئی اور بیٹا پاک فوج میں ڈاکٹر بننے کے لیے سلیکٹ ہو گیا۔میجر ڈاکٹر عاطف رسول شہید نے MBBS) )، 28 کورس آرمی میڈیکل کالج (اے ایم سی ) سے مکمل کیا۔ ڈاکٹر عاطف رسول کی پوسٹنگ ملتان سی ایم ایچ میں ہوئی لیکن ابھی رالپنڈی سے ریلیونگ نہیں ہوئی تھی۔ایف ایس سی کرنے کے بعد اگر وہ دولت شہرت کمانا چاہتا تو میڈیکل کالج میں داخلے کے لیے موزوں امیدوار تھا،میجر ڈاکٹر عاطف رسول نے اپنے والدین کے حکم کو من و عن مانتے ہوئے پاک فوج میڈیکل کو ر میں جانے کا فیصلہ کیا ، والدین کی خواہش تھی کہ بیٹا وطن عزیز کے لیے عملی طور پر خدمات سر انجام دے ۔ چھوٹے چھوٹے بچے جو باپ کی شفقت سے محروم ہوگئے شہادت کی وقت اُن کی ایک بیٹی ماہم عاطف جس کی عمر صرف اڑھائی سال تھی اور بیٹا صارم عاطف جس کی عمر صرف ڈیڑھ سال تھی ، انہوں نے وطن عظیم پر اپنے باپ اور اہلیہ نے اپنے سر کے تاج کو قربان کر کے جرأت و بہادری کی ایک عظیم مثال قائم کی جس کو قوم کبھی فراموش نہیں کر سکتی ۔وہ بیوی جس کی مہندی کے رنگ بھی ابھی ماند نہ پڑے تھے اور سہاگ لمبی جدائی د ے کر چلا گیا، سلام عقیدت پیش کرتے ہیں اس بیوی کو جو شوہر کووطن کی عزت ، حرمت اور تقدس پر قربان کر کے بھی بہادری کی علامت بنی بیٹھی ہے ۔ دو بچوں کوماں اور باپ دونوں کا پیار دے رہی ہے۔سلام عقیدت ایسے بہادر باپ کو جسے کوئی دکھ ، کوئی ملال نہیں جس کا بیٹا ابدی نیند سو گیا۔بہن بھائیوں میں سب سے بڑا بھائی، ماں کی آنکھوں کا تارا بڑا ہونے کی وجہ سے ماں سے لوریاں بھی زیادہ لیں اور پیار بھی زیادہ لیا۔2003 ء میں پاک فوج میں کمیشن ملا۔ میجر ڈاکٹر عاطف رسول کا تعلق آرمی میڈیکل یونٹ سے تھا۔
وطن کی عظمت میں تیری ہستی کو چین دوں گا قرار دوں گا
کروں گا اپنا لہو نچھاور میں تیرا گلشن نکھاروں گا

وادی دیر کے علاقے میں ایک چوٹی پر دہشتگردوں کا قبضہ ہو چکا تھا ، جس کو کلیئر کرانے کا ٹاسک ملا، اسی یونٹ میں میجر ڈاکٹر عاطف رسول بطور میڈیکل آفیسر بھی شامل تھے۔ آپریشن پر جانے لگے توماں کافی پریشان تھی کہ اﷲ کریم خیر کرے ۔ اﷲ کے فضل سے آپریشن کامیابی سے مکمل ہوا تو میجر ڈاکٹر عاطف رسول واپس گھر آئے اور ماں کے ساتھ لپٹ گئے اور کہا’’ امی جان آپ ایسے پریشان ہو رہی تھیں ، دیکھیں میں آپ کے سامنے آگیا ہوں‘‘ وہ کمال کا بہادر انسان تھا گھر والوں کے ساتھ انتہائی عقیدت اور مخلص تھا، بیوی کے ساتھ بے پنا ہ محبت کرنے والا شفیق انسان۔وہ اپنی شریک حیات سے اکثر کہا کرتا تھا کہ بچوں کو مجھ سے دور رکھاکرو، فوجی کی زندگی کا کیا پتا کب مو ت آجائے اور جام شہادت نوش کر جائے کچھ معلوم نہیں۔

6 اگست 2015ء کو ایک جہاز حادثہ میں وہ عظیم المرتبہ انسانوں کی صف میں کھڑے ہو گئے۔ میجر ڈاکٹر عاطف رسول 6 اگست 2015ء کو سانحہ مانسہرہ کے علاقہ لسان کے قریب ہونے والے 12 شہداء میں شامل تھے ۔ایم آئی 17 میڈیکل کور ٹیم لے کر گلگت جا رہے تھے کہ خراب موسم کی وجہ سے طیارہ پہاڑ کے ساتھ ٹکرا گیا اور حادثہ پیش آگیا اور یوں یہ خوبصورت نوجوان درجہ شہادت پر فائض ہو گیا۔ ہیلی کاپٹر آرمی کے کچھ مریض لینے جا رہا تھا جس میں شہیدعاطف رسول بھی جا رہے تھے تا کہ مریضوں کو ابتدائی میڈیکل ٹریٹمنٹ دیا جا سکے کہ اچانک حادثہ پیش ا ٓگیا۔ا س حادثہ میں میجر ڈاکٹر عاطف سمیت تمام شہداء کی نما ز جنازہ چکلالہ گیریژن راولپنڈی میں ادا کرنے کے بعد جسد خاکی اُن کے ورثاء کے حوالے کر دیے گئے۔وہ ماں باپ جو بیٹے کے مستقبل کی دعائیں خانہ کعبہ میں مانگ کر آئے تھے اُن کو معلوم ہی نہیں تھا کہ اُن کا لخت جگر اﷲ کی قربت رکھنے والے عظیم لوگوں کی صف میں شامل ہو چکاہے ۔ والد یہ سمجھتا رہا کہ شائد اُن کا بیٹا پیرا شوٹ کے ذریعے چھلانگ لگا چکا ہو۔ شائد وہ بچ گیا ہو۔ لیکن ٹی وی پر خبروں نے اُن کی اس آس کو بھی ختم کر دیا۔ رنج و عالم کی ایسی فضا کہ والد اور والدہ کی آنکھوں سے نہ تھمنے والی جھڑی شروع ہوگئی، چھوٹے بھائی کے ساتھ بہت پیار کرتا تھا ، چھوٹا بھائی سکتے میں کھو گیا، بیوی کی آنکھوں سے رم جھم آنسوجاری ہوگئے ۔شہید کے والد سے جب بات ہوئی تو وہ بہت صابر اور شاکر پائے اور اطمینان کی کیفیت میں تھے کہتے میرے بیٹے نے جام شہادت نوش کر کے ہمار ا سر فخر سے بلند کر دیا ہے ہمیں اپنے بیٹے پر ناز ہے ۔

میجر ڈاکٹر عاطف رسول وہ خوش قسمت انسان ہیں جن کا نما ز جنازہ تین بار ادا کیا گیا ۔پہلے آرمی جی ایچ کیومیں اس کے بعد آبائی گاؤں وزیر آباد کے قریب بھروکی چیمہ میں پھر اس کے بعدکیولری گراونڈ لاہور میں ادا کیا گیا جس میں عزیز و اقارب ، فوج سے عقیدت رکھنے والے سول سوسائٹی کے لوگوں اور عسکری قیادت نے بھی شرکت کی۔شہید کی تدفین کیولری گراؤنڈ لاہور میں مکمل فوجی اعزاز کے ساتھ کی گئی ۔ شہید میجر ڈاکٹر عاطف رسول کی نماز جنازہ عالم دین پروفیسر محمد آصف ہزاروی کی امامت میں ادا کی گئی۔شہیدمیجر ڈاکٹر عاطف رسول کو 2016ء میں تمغہ بسالت سے نوازا گیا اس کے بعد 2018ء میں انہیں گریٹ پاکستان ایوارڈ بھی دیا گیا۔اﷲ سے دعا ہے کہ اﷲ کریم شہید کے درجات بلند فرمائے اورگھر والوں کو صبر جمیل عطا فرمائے اور ہم سب کو پاک فو ج اور پاکستان کے ساتھ عقیدت اور احترام کرنے والا بنا دے۔۔۔پاک فوج زندہ باد۔ پاکستان پائندہ باد۔شہید کے والد محترم میاں غلام رسول صاحب نے بہت خوبصورت الفاظ میں اپنے بیٹے کی جدائی کو بیا ن کیا۔ وہ کہتے ہیں۔
پُتر موئے نئی بھُلدے ، بھاویں ہو کے مرن فقیر

 

M Tahir Tabassum Durrani
About the Author: M Tahir Tabassum Durrani Read More Articles by M Tahir Tabassum Durrani: 53 Articles with 54894 views Freelance Column Writer
Columnist, Author of وعدوں سے تکمیل تک
Spokes Person .All Pakistan Writer Welfare Association (APWWA)
Editor @ http://paigh
.. View More