ہر جاندار کی بنیادی ضرورت پانی ہے جس کی عدم دستیابی
زندگی کا وجود مشکل ہی نہیں نا ممکن بنا دیتی ہے۔ ہماری بے حسی و لاپرواہی
کے باعث ہم اس قدرتی نعمت سے محروم ہوتے جارہے ہیں ۔ہمارے وطنِ عزیز
پاکستان بشمول وادی کشمیر میٹھے اور صاف قدرتی پانی کے ذخائز ختم ہوتے
جارہے ہیں۔ یہ ایک تشویش ناک صورت حال ہے جس کی وجوہات ہمارا پانی کو فضول
ضائع کرنا ، نلکے ، ٹونٹیاں کھلی چھوڑ دینا اور جنگلات کی بے دریغ کٹائی
شامل ہیں۔
آج کل اے ڈی پی کی ایک رپورٹ کا چرچا ہے جس میں اس امر کا خدشہ ظاہر کیا
گیا ہے کہ دنیا میں پانی کی شدید کمی سے متاثر ہونے والے ممالک میں پاکستان
بھی سر فہرست ہے مزید برآں کے پاکستان میں ہنگامی صورت حال میں 30دن کا
پانی سٹور کرنے کی صلاحیت ہے جب کہ ایسی آب وہوا والے ممالک کے لیے ضروری
ہے کہ 1000دن کے لیے پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت موجود ہونی چاہیے۔ اب ممکنہ
کمی کے آثار بھی نمودار ہونا شروع ہوگے ہیں کسی معقول انتظام کے نہ ہونے سے
وادی کشمیر میں چند ایام بارش نہ ہونے پر شدید آبی بحران پیدا ہو جاتا ہے
اور دور دور سے چشموں سے سروں پر پانی اٹھا کر لایا جاتا ہے۔ ٗ آبی سنگین
صورت حال کا اظہار پاکستان کونسل برائے تحقیق آبی ذخائر(پی سی آر ڈبلیوآر )نے
بھی کیا ہے۔ ادارے کی رپورٹ میں متنبہ کیا گیا ہے کہ 2025تک پاکستان کو
شدید پانی کی قلت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ٗ کونسل کی طرف سے جاری کردہ
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ وطنِ عزیز 1990میں ان ممالک کی فہرست میں تھا
جہاں آبی ذخائر کم ٗ آبادی زیادہ تھی۔ 2005میں پاکستان کا شمار ان ممالک
میں ہوا جن میں پانی کے آبی ذخائر کم ہیں رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ
پاکستان ان 17ممالک میں شامل ہے جنہیں پانی کی اشد کمی کا سامنا ہے۔ بڑھتی
ہوئی آبادی اسے مزید گھمبیر کر رہی ہے جو کہ 2030تک پچیس کروڑسے بھی
تجاوزکرجائے گیٗ اس بات کا اندازہ اس رپورٹ سے بآسانی لگایا جا سکتا ہے کہ
قیامِ پاکستان کے وقت ہر شہری کے لیے 05ٗ06سو کیوبک میٹر تھا جو کہ موجودہ
وقت میں 1ہزار کیوبک میٹر رہ گیا ہے اور 2025تک 8سو کیوبک میٹر رہ جائے گا۔
اسی حوالہ سے اقومِ متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام UNEPکی جانب سے 1999میں
رپورٹ جاری ہوئی تھی جس میں خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ کرہِ ارض کے دوبڑے
خطوں میں ایک مسئلہ پانی کا بھی ہے جس پر تیسری عالمی جنگ بھی ممکن ہے۔ اس
رپورٹ کی تیاری میں دنیا کے پچاس ممالک سے 200سائنسدانوں کی شرکت کی ٗ
عالمی اداروں کے جائزوں ٗ رپورٹ کے مطابق ایک عشرے کے دوران دنیا کے شہروں
میں 114ملین افراد کا اضافہ ہوا ٗ جن کے گھروں میںیا گھروں کے نزدیک پینے
کا صاف پانی دستیاب نہیں ہے۔ ٗدنیا میں گندا پانی پینے والوں کی تعداد
80کروڑ کی لگ بھگ ہے ۔ 2017کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ پاکستان کے
پانی میں زہریلے مادے شامل ہیں ٗجب کہ 70فیصد آبادی زیر زمین پانی استعمال
کر رہی ہے جس کے باعث بیماریاں پھوٹ رہی ہیں ۔ اس صورت حال کے بارے وڈرولسن
انٹرنیشنل سنٹر فار اسکالرز واشنگٹن میں جنوبی ٗ مشرقی ایشیا پروگرام کے
تحقیق کار مائیکل کوکلمین لکھتے ہیں کہ پاکستان کی آبادی ٗ زراعت کا انحصار
صرف ایک دریا پر ہے جسکی وجہ سے آنے والے وقت میں وہ فصیلیں کاشت کرنا ممکن
نہیں ہوں گی جن میں پانی وافر مقدار میں استعمال کیا جاتا ہے۔ آبی کمی سے
متاثر ہونے والا زرعی نظام پاکستان میں خوراک کے نظام کو بھی متاثر کر رہا
ہے۔ ٗ ایک اندازے کے مطابق ترقی یافتہ ممالک میں روزانہ 350سے 1000لیٹر
پانی فی کس حساب سے استعمال کرتے ہیں جبکہ پاکستان اور غریب ممالک میں 20سے
70لیٹر پانی روزانہ استعمال کیا جاتا ہے۔ ان ممالک میں 1.1ارب افراد صاف
پانی پینے سے محروم ہیں ٗ پاکستان زرعی ملک ہے جو کہ 90فیصدآبی وسائل زرعی
مقاصد کے لیے استعمال کرتا ہے ۔ ماہرین کے مطابق ماحولیاتی و موسمیاتی
تبدیلیوں کی باعث دریاوں کے بہاو میں مسلسل کمی آرہی ہے ٗ دوسری جانب
گلیشرز کے پگھلنے کی وجہ سے دنیا کو صاف پانی کی قلت کا سامنا ہے جن میں
پاکستان ٗ بنگلہ دیش ٗ بھارت شامل ہیں جس کی بدولت افریقہ ایشاء اور دنیا
کے بعض علاقوں مین جنگیں بھی ہو سکتی ہیں۔ پاکستان کی آبی شہ رگ دریا سندھ
میں بھی پانی کی مقدار کم ہوتی جارہی ہے ۔ ایک اور حقیقت یہ بھی ہے کہ
پاکستان بھارت سندھ طاس معاہدہ کی مسلسل خلاف ورزی کر رہا جس کی وجہ سے
پاکستان کو نا قابل تلافی نقصان ہو تا ہے۔ بھارت کا دعویٰ بھی ہے کہ
پاکستان کو صحرا بنا کر رکھنا ہے اس طرح پاکستان ٗ بھارت کے درمیان پانی پر
مزید تنازعات جنم لے سکتے ہیں کیوں کہ دونوں ممالک میں پانی کی ضرورت میں
دن بدن تیزی سے اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔ اس حوالہ سے پاکستان نے ہندوستان سے
یہ مطالبہ کیا ہے کہ 1960میں ہونے والے معاہدے پر نظر ثانی کی جائے تاکہ
پاکستان متاثر نہ ہو عالمی ادارہ صحت کے معیار کے مطابق پینے کا صاف پانی
18%آبادی کو دستیاب ہے جو ایک تشویش ناک صورت حال ہے ٗ ایک سروے رپورٹ کے
مطابق وطنِ عزیز میں تینوں اہم ذخائر تربیلا ٗ منگلا ٗ چشمے میں پانی کی
گنجائش میں 83%کمی ہو چکی ٗتینوں بڑے ذخائرکی اصل گنجائش ایک کروڑ 75لاک
50ہزار ایکڑفٹ سے کم ہو کر ایک کروڑ21لاکھ 30ہزار ایکڑفٹ رہ گئی ہے ٗ سٹیٹ
بنک آف پاکستان کی 2012میں جاری کی گئی رپورٹ میں بھی متنبہ کرتے ہوئے کہا
گیا کہ ملک میں پانی کی کمی شدت اختیار کرتی جا رہی ان وجوہات کی بناء پر
نئے آبی ذخائر نا گزیر ہیں اگر یہی صورت حال رہی پانی چوری ٗجنگلات کی
مسلسل کٹائی ، اس سنگین صورت حال کی طرف توجہ نہ دی گئی تو عام آدمی کے لیے
پانی کی عدم دستیابی ایک سنگین مسئلہ بن سکتا ہے۔
|