ہندوستان کا مسلمان مختصراً چار انتظامی اکائیوں میں بٹا
ہوا تھا تقسیم ہندوستان سے پہلے،اول ۔ہندو اکثریتی صوبے جن میں بہار،دوئم
۔یوپی وغیرہ شامل ہیں، مسلم اکثریتی صوبے جن میں بنگال، پنجاب، سندھ اور
شمال مغربی صوبے شامل تھے سوئم۔ ہندو ریاستیں چہارم۔ مسلم ریاستیں، ان
ریاستوں میں بھی مسلم اکثریتی ریاستیں جیسا کہ خیرپور اور قلات جن کے
فرماںروا بھی مسلمان، مسلم اکثریتی ریاستیں جن کے راجا ہندو جیساکہ کشمیر
جبکہ ایسی ریاستیں کہ جو ہندو اکثریتی مگر ان کے شاہ مسلمان جیسا کہ
حیدرآباد ، اودھ اور گجرات۔معزز قائرین۔۔!! متروکہ املاک صرف اور صرف
انڈیا سے آنے والے مہاجروں کا حق قرار پائیں تھیں لحاظہ ایک سازش کے تحت
جھوٹے کلیم اور پودینے کے باغ جیسی غلیظ اصطلاحات بھی ان خبیث نفرت کے
پُجاری قوم پرستوں نے مقامی سندھی مسلمانوں میں مہاجروں کے خلاف پھیلانا
شروع کردیں، سچ یہ ہے کہ کلیم کچھ جھوٹے بھی ہوں گے مگر جن کی حق تلفی ہوئی
ہوگی وہ بھی مہاجر ہی ہوسکتے تھے نا کہ مقامی، کلیم کے خلاف یہ ذلیل و
زہریلا پروپیگینڈا صرف انڈیا سے آنے والے مہاجروں کو بدنام کرنے کے لئے
کیا گیا، ساتھ ہی نئے نئے بننے والے قوم پرستوں نے بجائے مہاجر کے لفظ
پناہگیر کا استعمال آج تک جاری رکھا ہوا ہے حالآنکہ پناہ زیادہ تر سرکاری
طور پہ دی گئی اور یہ کہ مہاجروں نے سندھی کی جو خدمت کی کراچی کو ایک
چھوٹے سے شہر سے دنیا کا سب سے بڑا اور پورے پاکستان کو چلانے والا شہر
بنایا، سندھ کے چھبیس بڑے شہر جن میں کراچی، حیدرآباد ، سکھر ، لاڑکانہ
اور ٹنڈو آدم شامل ہیں نوے سے پچانوے فیصد ہندووں کی ملکیت میں تھے تو
ظاہر ہے املاک و زمین کے تبادلہ کے نتیجہ میں ان شہروں کی پہ قبضہ بھی آنے
والے مہاجروں کا ہی حق تھا،ویسے بھی یہ آنے والے مہاجر انڈیا کے شہروں کو
چھوڑ کر آرہے تھے اور انکے شہر جیسا کہ ذکر ہوا کہ اب مکمل طور پر پاکستان
سے جانے والے ہندوؤں اور سکھوں کے قبضہ میں تھے، ایوب کھوڑو نے مہاجروں سے
یہ حق چھیننے کے لئے انکو ہندوؤں کی چھوڑی ہوئی املاک و زمینوں پہ قبضہ
کرنے کے الزام میں جیلوں میں بھرنا شروع کیا، جس پہ فاطمہ جناح اور لیاقت
علی خان کے بیانات آج بھی ماضی کے اخبارات کے ریکارڈ میں مل جائیں گے۔ستم
بالائے ستم کہ یہ سلسلہ اگلے بیس سے تیس سالوں میں مزید بڑھ گیا،سندھی
وڈیرے نے مہاجروں سے زور ذبردستی کر کے بھٹو کے پہلے دور میں بیشتر شہر قتل
و غارتگری لوٹ مار، دھونس دھمکی دے کر خالی کرالئے، عام سندھیوں کے دلوں
میں جھوٹ و نفرت کی بنیاد پہ قوم پرستی کی ایسی آگ بھڑکائی کہ وہ آج تک
جل رہی ہے،اب سندھی قوم پرست نہایت چالاکی سے بے زمین ہونے کا الزام لگاتا
ہے جبکہ مہاجر متروکہ سندھ کی حقیقت سے ناواقف خود کو بھی یتیم و بے زمین
سمجھتا ہے، مہاجر کو یہ احساس نہیں کہ وہ بھی اپنے باپ کے متروکہ سندھ کا
فرزند ہے، مُہاجر کو بے زمینی پہ ڈال کر سندھی قوم پرست نے زبردست نفسیاتی
کھیل کھیلا، چالیس سال سے مُہاجر سیاست اور اس سیاست کی قیادت کرنے والے
لاکھوں مُہاجروں کےرہنماؤں ایم کیو ایم کو بھی کبھی توفیق نہ ہوئی کہ وہ
متروکہ سندھ کے فلسفہ پہ ایک تقریر ہی کردیتے۔ افسوس کہ مُہاجر قیادت نے
مُہاجروں کے حق کے لئے متروکہ سندھ کی سچائی سامنے لانے کی بجائے کئی بار
خود اپنے منہ سے مہاجروں پہ ہونے والے ستم کا جواز فرزندِ زمین نہ ہونا
گردانا، متروکہ سندھ ہمارا حق ہے اور اس حق سے دستبرداری گناہ عظیم ہے،
متروکہ سندھ ہمارے آنے والی نسلوں کی بقا و سلامتی کی ضمانت ہے۔معزز
قائرین ۔۔!!کراچی کی متروکہ جائیداد میں پاکستان کوارٹرز کی حقیقت اس مسئلے
کی حقیقت کی جانب نہ سپریم کورٹ دھیان دے رہی اور نہ ہی عوام کو اس حقیقت
سے آگاہی مل رہی ہے،اصل معاملہ کچھ اسطرح کاہے کہ یہ زمین قیام پاکستان سے
بہت پہلے متمول ہندوؤں کی ملکیت تھی جسے انیس سو پندرہ میں اسی سال کی لیز
پر مالکانہ حقوق کے ساتھ انہیں دیا گیا تھا،انیس سو سینتالیس میں تقسیم کے
بعد ہندو یہاں سے چلے گئے اور اس طرح انیس سو اڑتالیس میں قائد اعظم اور
لیاقت علی خان کی مرضی سےدس سال کی عارضی شیلٹر بستی یہاں بسائی گئی اور
سرکاری ملازمین کے خدمات کے اعتراف میں یہ جگہ رہائش کے لئے انکے حوالے کی
گئی اور سرکاری کوارٹرز آباد کئے گئے۔ ایف سی ایریا پینتالیس ایکڑ،
پاکستان کوارٹرز، جہانگیر کوارٹرز اور کلیٹن کوارٹرز کا رقبہ کل ملا
کرچھتیس ایکڑ اور پٹیل پاڑہ میں بارہ ایکڑ اراضی وغیرہ ملا کر کل دو سو
ایکڑ زمین سرکاری کوارٹرز قرار دئیے گئے،یہ زمینیں چونکہ متروکہ املاک تھیں
لہٰذا کسی ڈپارٹمنٹ یا ادارے کا اس پر کلیم نہیں تھا، قانونی ماہرین کے
مطابق ایسی زمین جس پر کوئی بھی حق ملکیت نہ ہو وہ اسی کی ملکیت قرار پاتی
ہے جو اس پر رہتا ہو، چناچہ ان پر ملکیت کا حق ان میں آباد لوگوں کا ہی
بنتا ہےانیس سو پچانوے میں لیز کی مدت ختم ہوگئی اور اس کی تجدید کے نوٹس
جاری کردئیے گئے مگر کوئی بھی ہندو تجدید کروانے نہیں آیا یہاں کے رہنے
والوں عدالت کو درخواست داخل کرائی کہ ہمیں اس کی ملکیت دی جائے اس سے پہلے
ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے دور حکومت میں نوٹیفیکشن کے ذریعے گزٹ جاری کیا
تھا کہ یہ زمین یہاں کے رہنے والوں کو مالکانہ حقوق کے ساتھ دی جائے گی اور
اسطرح اس بارے میں فیصلہ ہوا کہ اس کو کچی آبادیوں کی وزارت کے حوالے کرکے
دس روپے فی گز کے حساب سے زمین وہاں کے رہائشیوں کو الاٹ کردی جائےمگر اس
وقت سے آج تک اس حقیقت کو چھپایا جا رہا ہے تاکہ اس زمین کو اربوں روپے
حاصل کر کے انٹرنیشنل مافیہ کے حوالے کر دیا جائے،ہماری اطلاعات کے مطابق
انیل مسرت نامی انٹرنیشل بلڈر اور آغا خان گروپ ان قیمتی زمینوں کو خریدنے
کے خواہشمند ہیں ، ذرائع سے ہمیں معلوم ہوا کہ لیاری کی قدیم بستی اور
لائنز ایریا کے مکانات بھی انٹرنیشنل بلڈرز مافیہ کی نظروں میں ہیں،اس
مسئلے کو عام کچی بستی یا قبضہ شدہ زمین کے معاملے سے ہٹ کر دیکھنا چاہئے
جسکی وجہ یہ ہے کہ اس میں رہنے والے سرکاری زمین یا کسی اور کی ملکیت کی
زمین پر نہیں بیٹھے یہ جگہ متروکہ املاک ہے جس پر بانیء پاکستان قائداعظم
محمد علی جناح نے اس وقت کے سرکاری ملازمین کو جو ہجرت کر کے پاکستان آئے
تھے سرکاری خدمات کے اعتراف میں یہ جگہ رہائش کے لئے دی تھی لہٰذا یہ قبضہ
نہیں اور متروکہ املاک پر حکومت سندھ یا پاکستان کا دعویٰ بھی نہیں لہٰذا
اصول تو یہ کہتا ہے کہ ان رہائشیوں کو معقول رقم کے عوض مستقل طور پر لیز
کر کے اس مسئلے کو انصاف کیساتھ حل کیا جائے۔اللہ ہمیں انصاف کرنے، حق بات
کہنے اور حق و سچ سننے، ماننے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثما آمین۔۔
پاکستان زندہ باد، پاکستان پائندہ باد۔۔۔۔!! |