کچھ ایسے اشار ے مل رہے ہیں جیسے خفیہ ہاتھ جوملک میں
حالیہ سیاسی تبدیلی کا سبب بنے دوبارہ سے متحرک ہوچکے۔اپوزیشن کے خلاف
حکومتی لوگوں کی تندو تیز بیان بازی کی جارہی ہے۔ایسی تلخ زبان استعمال کی
جارہی جو دوجے کو مشتعل کرنے کے لیے کافی ہے۔یوں لگتاہے جیسے کوئی اس کی
کمر ٹھوک رہاہو۔یہ حکومت بڑی کمزور بنیادوں پر کھڑی ہے کہ عقل نہیں مانتی
کو وہ لوگوں کو للکارے۔ اسے ایک طاقتور اپوزیشن کا سامنا ہے جو ذرا سی کوشش
سے عددی برتری کا رخ بدل سکتی ہے پھر حکومت کے اتحادی بھی کچھ زیادہ پکے
نہیں ہیں۔مناسب یہی تھاکہ حکومت مخالفین کو بہلا پھسلا کر ٹھنڈارکھتی۔جو
وقت ملتا اسے غنیمت جانتے ہوئے زیادہ سے زیادہ کارکردگی دکھائی جاتی۔ حکومت
کی طرف ایسا کرنے کی بجائے چھیڑخانیاں کی جارہی ہیں۔سوائے اس کے کچھ سمجھ
نہیں آتاکہ ایک بار پھر اس کی کمر ٹھونکی جارہی ہے۔حکومتی پریشانیاں بڑھ
رہی ہیں۔آئی جی اسلام آبادکا تبادلہ معطل ہونا حکومت کے اتحادیوں کے لیے
خطرے کی گھنٹی ہے۔وہ دو دونی پانچ کرنے کا سوچے بیٹھیں ہیں۔اگر اسی طرح
حکومتی فیصلے غیرمؤثرہوتے رہے تو کیا بنے گا؟اس معاملے میں براہ راست وزیر
اعظم عمران خاں کے حصہ بننے کے سبب عام آدمی کے لیے بھی تشویش بڑھی۔تحریک
انصا ف کی اصل طاقت اورپہچان صرف اور صرف عمران خاں تصور کیے جاتے ہیں۔جب
بھی بھولی بھالی جنتاکو یہ طعنہ دیا گیا کہ دوسری جماعتوں سے لیا گیا کچرا
لے کر تحریک انصا ف کیا انقلاب برپا کرپائے گی تو عام آدمی کا یہ کہنا
تھاکہ اصل بات قیادت ہوتی ہے۔نیک نیت قیادت کے ہوتے ہوئے نچلی سطح والے کچھ
نہیں کرپاتے۔عمران خاں خود ٹھیک ہیں۔ایماندار ہیں اس لیے لازمی انقلاب آئے
گا۔آئی جی اسلام آباد کے تبادلے کا تعلق براہ راست عمران خاں سے ہے۔انہوں
نے جنا ب اعظم سواتی کی شکایت پر زبانی حکم پر آئی جی اسلام آباد کا تبادلہ
کیا۔یہ اقدام سراسر نئے پاکستان کے فلسفے کے خلاف ہے۔نیا پاکستان تو قانون
کی عملداری پر مبنی ہونا چاہیے۔جو خرافات پرانے پاکستان میں پائی جاتی
ہیں۔نئے پاکستان میں نہیں ہونی چاہییں۔پرانے پاکستان میں طریقہ تھاکہ بجائے
قانون اور آئین کی حکمرانی کے کچھ لوگوں کی حکمرانی ہو۔اسی پرانے پاکستان
میں ہوتاتھاکہ آئین میں لکھا ہو کہ آرمی چیف کو وزیراعظم بدل سکتاہے مگر جب
آرمی چیف کو بدلا گیاتو مزاحمت کی گئی۔اسی پرانے پاکستان میں رواج تھاکہ
آئین او رقانون کی بجائے کچھ لوگوں کی خوشنودی مقدم ہوجائے۔آئین ایک چیف
جسٹس کو ہٹانے کے لیے ایک مناسب طریقہ رکھتاہے مگر اس پرانے پاکستان میں
ایک چیف جسٹس کو ایک باوردی جرنیل کہتاہے یا تو استعفی دو یا گھر بھیج دیا
جائے گا۔ قانون اور آئین کی بجائے شخصیات کی بالادستی پرانے پاکستان کی
پہچان تھی۔عمران خان اس پرانے پاکستان کی خرافات کے خلاف آواز بلندکیا کرتے
تھے۔آج جب وہ اقتدار تک پہنچ چکے اب ان کی طر ف سے اپنے کہے کی نفی کی
جارہی ہے۔یہ ناقابل برداشت ہے۔اگر ان کی جماعت کے دوسرے لوگ ایسا رویہ
اختیار کرتے تو شاید گلہ نہ ہوتا۔عمران خاں کے سو ا تحریک انصا ف کے
انقلابی سپورٹر کسی پر یقین نہیں کرتے۔کھلے عام انہیں الیکٹ ایبلز کے نام
پر ملی ہوئی عفریتیں کہتے ہیں۔عمراں خان سے متعلق یہ سپورٹر بالکل کمٹڈ
ہے۔اسے ہر گز ہرگز یقین نہیں کہ عمران خان پرانے پاکستان کی خرافات کو
اپنائیں گے مگر بد قسمتی سے ایسا ہورہاہے۔ اب تک حکومت کے گلے میں دو بڑے
قانون شکنی کے واقعات آئے ہیں۔ایک ڈی پی او پاک پتن کو غیر قانونی طور پر
ہٹائے جانا اور دوسرا آئی جی اسلام آباد کا تبادلہ ۔دونوں میں عمران خان کا
نام آرہا ہے۔ڈی پی او پاک پتن کا تبادلہ عمران خاں کی اہلیہ کے سابق شوہر
کی سفارش پر ہوا۔اور آئی جی اسلام آباد کا تبادلہ عمران خان نے اپنے ایک
پارٹی رہنما کی شکایت پر کیا۔یہ ٹھیک نہیں ہورہا۔عام آدمی کا اعتما د اگر
عمران خاں گنوا بیٹھے تو تحریک انصاف میں کچھ نہ بچے گا۔حکومت مشکلات کا
شکارہے۔ کچھ اناڑی پن سے اور کچھ بد تدبیر ی سے ۔کہاجاتاہے کہ بے وقوف اور
نکمے لوگ اگر چپ رہیں تو ان کا بھرم بنا رہتاہے۔جب وہ بے صبر ہوتے ہیں تو
کام بگاڑلیتے ہیں۔حکومت کے کچھ لوگ بے صبری کے سبب مشکلات کھڑی کررہے
ہیں۔اسے سب سے زیادہ مشکل مالی معاملات میں پیش آرہی ہے۔سعودی عرب سے ملے
پیکج کے سبب دو چار مہینے گزرسکتے ہیں۔مگر سوال یہ ہے کہ اس کے بعد کیا
ہوگا؟حکومت کو جلد کچھ حکمت عملی تیارکرنا ہوگا۔اس کی اب تک ساری توجہ
چوروں ڈاکوؤں سے پیسہ وصولنے میں رہی ہے۔ اس میں کامیابی نہیں مل پائی۔ قرض
کے لیے مارے مارے پھرنا اور ٹیکس لگاکر مہنگائی کر نا اس ناکامی کی دلیل
ہے۔یہ طریقہ عوام کو سڑکوں پر لاسکتاہے۔ جس کو حکومت ایفورڈ نہیں کرسکتی
شاید اسی لیے ہ خفیہ ہاتھ ایک بار پھر متحرک ہوچکے۔ انہوں نے بھانپ لیا ہے
کہ توقع کے مطابق یہ نہلے کچھ نہیں کرپارہے۔انہیں دھکا لگائے بغیر بات نہ
بنے گی۔کچھ دنوں تک یہ خفیہ ہاتھ غیر متحرک تھے۔ خیال یہ تھاکہ کچھ لوگوں
کو ہیروسے زیرو اور کچھ زیرو کو ہیرو بنانے کا فریضہ نبھا چکے ۔اب باقی
معاملات نئے ہیرو خود سنبھالیں۔حکومتی بے بسیاں انہیں پھر سے متحرک کرنے کا
سبب بن رہی ہیں۔لیکن ان کا متحرک ہوجانا نیک شگون نہیں۔ قوم امید کررہی تھی
کہ شاید اب معاملات وہیں سے شروع ہوجائیں گے۔جہاں سے رکے گے۔مگر دوبارہ
متحرک ہوجانا اس با ت کا ثبوت ہے کہ کچھ دنوں کا یہ و قفہ عاضی تھا۔مکمل
تیاگ کا ابھی بالکل فیصلہ نہیں ہوا۔ |