اسلام آباد: سپریم کورٹ نے مسیحی خاتون آسیہ بی بی کی
سزائے موت کالعدم قرار دیتے ہوئے انہیں بری کر دیا۔ چیف جسٹس میاں ثاقب
نثار کا کہنا تھا کہ آسیہ بی بی کسی اور مقدمے میں گرفتار نہیں ہیں تو
انہیں رہا کردیا جائے۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے توہین رسالت و قرآن کے جرم میں قید آسیہ
بی بی کے کیس پر محفوظ کیا گیا فیصلہ سنا دیا۔
اے آر وائی نیوز کے مطابق چیف جسٹس آف سپریم کورٹ جسٹس میاں ثاقب نثار نے
مختصر فیصلہ پڑھ کر سنایا جس میں آسیہ بی بی کی سزائے موت کو کالعدم قرار
دیتے ہوئے انہیں بری کرنے کا حکم دیا گیا۔
آسیہ بی بی کی سزائے موت کا حکم لاہور ہائیکورٹ نے دیا تھا۔ چیف جسٹس نے
کہا کہ آسیہ بی بی پر الزام ثابت نہیں ہوا، اگر وہ کسی اور مقدمے میں
گرفتار نہیں تو انہیں رہا کیا جائے۔
اس سے قبل آسیہ بی بی کیس کا فیصلہ 8 اکتوبر کو محفوظ کیا گیا تھا۔
آخری سماعت کے دوران آسیہ بی بی کے وکیل سیف الملوک نے عدالت کو بتایا
تھا کہ واقعہ 14 جون 2009 کا ہے، ننکانہ صاحب کے گاؤں کٹاں والا کے امام
مسجد نے واقعہ درج کروایا، جبکہ ایف آئی آر کے مطابق آسیہ نے توہین مذہب
کا اقرار کیا۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ وکیل کی گفتگو سے معلوم ہوتا ہے کہ امام
مسجد براہ راست گواہ نہیں کیونکہ ان کے سامنے توہین آمیز الفاظ استعمال
نہیں کیے گئے۔
چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ امام مسجد کے بیان کے مطابق 5 مرلے کے مکان
میں پنچایت ہوئی، کہا گیا کہ پنچایت میں ہزار لوگ جمع تھے۔
وکیل نے بتایا کہ عاصمہ اور اسما نامی گواہان کے بیانات میں تضاد ہے۔ انہوں
نے کہا کہ واقعے کی تفتیش ناقص اور بدنیتی پر مبنی تھی۔
یاد رہے کہ آسیہ بی بی کو سنہ 2010 میں توہین رسالت ﷺ کے الزام میں سزائے
موت سنائی گئی تھی جبکہ ان کے وکلا کا دعویٰ تھا کہ آسیہ بی بی پر جھوٹا
الزام عائد کیا گیا۔
آسیہ بی بی پر توہین رسالت ﷺ کا الزام جون 2009 میں لگایا گیا تھا جب ایک
مقام پر مزدوری کے دوران ساتھ کام کرنے والی مسلم خواتین سے ان کا جھگڑا
ہوگیا تھا۔
آسیہ سے پانی لانے کے لیے کہا گیا تھا تاہم وہاں موجود مسلم خواتین نے
اعتراض کیا کہ چونکہ آسیہ غیر مسلم ہے لہٰذا اسے پانی کو نہیں چھونا
چاہیئے۔
بعد ازاں خواتین مقامی مولوی کے پاس گئیں اور الزام لگایا کہ آسیہ نے
پیغمبر اسلام ﷺ کی شان میں گستاخی کی ہے۔
آسیہ بی بی سنہ 2010 سے جیل میں قید تھیں۔ |