پاکستان تحریک انصاف کی حکومت معاشی بحران سے نکالنے
کیلئے سعودی عرب سے امدادی پیکج لینے میں کامیاب رہی ہے جس سے وقتی طور پر
زر مبادلہ کے ذخائر اور استحکام ہوگا اس کے علاوہ چین ، ملائشیا اور دیگر
ممالک سے قرضہ یا امداد ملنے کی امید ہے جس کا فیصلہ وزیر اعظم عمران خان
کے ان ممالک کے دوروں کے دوران ہو جائے گا اس کے بعد اگر پاکستان قرضہ
کیلئے آئی ایم ایف سے رجوع کرتا ہے تو سخت شرائط میں نرمی ہو سکتی ہے سعودی
عرب نے تیل کی ادائیگی کیلئے بھی تین سال کی رعایت دی ہے دوست ممالک کی طرف
سے مالی معاونت حاصل کرنے پر کچھ حلقوں کی طرف سے اعتراض ہے جن کے بقول
سعودی عرب کی مالی امداد مشروط ہے سعودی عرب بہت جلد ہمیں علاقائی محاذ
آرائی میں ملوث کر دے گا جس کا واضح اشارہ ایران کی طرف ہے جس کی وجہ سے
پاکستان میں سابق ادوار کی طرح فرقہ ورانہ پراکسی وار شروع ہو سکتی ہے اور
امن و امان کی صورتحال بگڑنے کا خطرہ ہے ان حلقوں کا مطالبہ ہے سعودی قرضوں
کی شرائط سے آگاہ کیا جائے یاد رہے کہ سعودی عرب کے ساتھ امریکہ کی محاذ
آرائی سے پاکستان اتنی آسان صورتحال میں نہیں ہے کہ وہ نرم شرائط کیلئے آئی
ایم ایف سے مذاکرات کر سکے دوسرے پاکستان علاقے میں نئی صف بندی بنانے پر
غور کر رہا ہے سی پیک کے حوالہ سے معاہدوں پر پہلے ہی امریکہ تحفظات کا
اظہار کر چکا ہے امریکی وزیر دفتر خارجہ کے ترجمان نے چین سے لیے گئے قرضہ
جات کو پاکستان کی مالی مشکلات کی وجہ بتایا ہے آئی ایم ایف اقتصادی
اصلاھات کے نام پر پاکستان کو امریکی ایجنڈے پر کام کرنے پر مجبور کر سکتی
ہے جہاں تک سعودی عرب کی شرائط کا تعلق ہے وہ پہلے جیسے نہیں ہے کیونکہ
حالات بدل چکے ہیں فوری طور پر یمن جنگ سے نکلنا سعودی عرب کیلئے آسان کام
نہیں ہے وزیر اعظم عمران خان نے اس ضمن میں جو ثالثی کی بات کی ہے وہ یقینی
طور پر سوچ سمجھ کر کی ہوگی کرنٹ اکاؤنٹ اور تجارتی خساروں کے بوجھ کو کم
کرنے کیلئے دوست ممالک سے رجوع کرنا بہتر کام ہے ماضی کی حکومت نے فرینڈز
آف پاکستان کے نام پر امداد یا قرضے حاصل کرنے کی کوشش کی تھی مگر کامیابی
نہیں ملی موجودہ کامیابیوں میں عمران خان کی ذاتی شخصیت بے داغ اور بے لوث
کردار خاصی اہمیت کا حامل ہے ۔
ملک کے تقریبا70%سیاستدانوں پر اختیارات کے ناجائز استعمال اور بد عنوانی
کے الزامات ہیں جس کی وجہ سے نیب ایف بی آر اور سپریم کورٹ آف پاکستان خاصے
متحرک ہیں حکومتی وزراء کی طرف سے مزید گرفتاریوں کے بارے میں بتایا جا رہا
ہے یہ درست ہے کرپشن نے ملک میں سیاسی معاشی اور سماجی بگاڑ پیدا کیا ہے جس
کے تمام حکمران طبقات کے ساتھ ریاستی مشینری بھی ذمہ دار ہے بیڈ گورنس،
تونائی کے بحران ، کراچی میں امن عامہ کی مخدوش صورتحال بھتہ خوری دہشت
گردی اور فرقہ وارانہ نفرتوں کے ابھار کی وجہ سے پاکستانی سرمایہ کار اپنے
کاروبار بیرون ممالک منتقل کرنے پر مجبور ہوئے اس صورتحال میں جہاں پر
عالمی سرمایہ کار اعتماد کے بحران سے دو چار ہیں وہاں پر غیر ملکی سرمایہ
کاری لانے کا کیا تصور کیا جا سکتا ہے
ماضی بعید میں کراچی اور بلوچستان میں جرمن ، فرانسیسی اور چینی انجینئروں
پر دہشت گردانہ حملے ہوئے تھے جس سے پراجیکٹس پر کام روک دیا گیا تھا، کچھ
تو انتہا پسندوں کے خوف اور دھمکیوں کی وجہ سے پاکستان چھوڑ کر چلے گئے تھے
کیونکہ انہیں یہاں پر آزادنہ طور پر اپنے کلچر اور روایات کے تحت زندگیاں
بسر کرنے کی اجازت نہیں تھی صورتحال ابھی کچھ تبدیل نہیں ہوئی ہے آج بھی
کرپشن اور بد عنوانی کے خلاف کارروائیوں کی وجہ سے ہماری بزنس کمیونٹی
خوفزدہ دیکھائی دیتی ہے بلکہ بعض صوبوں میں بیوروکریٹس فیصلے کرنے سے ہچکچا
رہے ہیں سندھ میں عوامی مفاد عامہ کے منصوبوں کی طرف کوئی پیش رفت نہیں ہو
رہی ہے وقت کا تقاضہ ہے بزنس مینوں اور صنعت کاروں کے اعتماد کو بحال کرنا
ہے ان کیلئے ساز گار فضا مہیا کرنا ہے کیونکہ نجی شعبے کا کام اپنی صنعتیں
چلا کر منافع کمانا ہے جس میں روز گار کے مواقع اور ایکسپورٹ میں اضافہ
ہوتا ہے حکومتی موصولات کی شرح وصولی بڑھتی ہے جائز منافع کاری کوئی جرم
نہیں ہے بزنس کے ذریعے ترقی کر کے امیر ہونا کامیابی کی علامت ہے ہمیں
مائنڈ سیٹ کو تبدیل کرنا ہوگا تا کہ مقامی سرمایہ کار آزادانہ طور پر صنعتی
اور تجارتی سر گرمیاں بڑھا سکیں اس ضمن میں بزنس کمیونٹی کی بھی ذمہ داری
ہے وہ موصولات یوٹیلٹی بلز کی ادائیگی اپنے کاروبار کے تناسب سے کرے اپنے
اثاثوں کو ڈکلیئر کرنا چاہیے تا کہ معیشت کا اصل حجم سامنے آ سکے ۔
ماضی میں لک میں صنعتوں اور بینکوں کو قومی تحویل میں لینے سے صنعت کاری کے
عمل کو نقصان پہنچا تھا اداروں کو تحویل میں لینے کا مقصد تمام اسٹیک ہولڈر
اور ریاست کو منافعوں میں شریک کرنا تھا مگر غیر تربیت یافتہ سیاسی کیڈر
ہونے کی وجہ سے تمام ادارے بیورو کریسی کے کنٹرول میں چلے گئے جنہوں نے
سیاسی دباؤ بیڈ گورننس اور سیاسی ترجیحات اوور سٹافنگ کی وجہ سے اداروں کو
نقصان کرنے والے یونٹس سے تبدیل ہو گئے اور آج حکومت کو سینکڑوں ارب روپے
کی سالانہ گرانٹ ان اداروں کو چالو رکھنے کیلئے دی جا رہی ہے قومی تحویل
میں سیاسی بنیادوں پر قرضے حاصل کیے گئے پھر انہیں معاف کروا لیا گیا
بینکوں کی نجکاری کے بعد سیاسی قرضے ختم ہو چکے ہیں اور تمام بینکوں کو
حکومتی قرضوں کی وجہ سے منافع مل رہا ہے جبکہ صنعتی اور تجارتی قرضوں میں
کمی ہوئی ہے ماضی میں ہمیں بتایا جاتا تھا حکومت نے غیر ملکی اداروں سے
زیادہ قرضے حاصل نہیں کیے ہیں جس کی وجہ افغان جنگ اور 9/11کے بعد امریکی
فوجی اتحاد میں شمولیت تھی جس دوران اربوں ڈالر کی امداد ملی اس لیے خساروں
میں کوئی اضافہ نہ ہوا مگر نیو ورلڈ آرڈر میں امدادوں کو قرضوں میں تبدیل
کر دیا گیا اس مال غنیمت کے بند ہونے کی وجہ سے حکومتی وسائل میں کمی آئی
اور اس نے اندرونی طور پر موصولات اور زر مبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کیلئے
ویلیو ایڈیٹ برآمدی پالیسیاں نہیں بنائی ہیں اب جبکہ مشرف دور کے موخر کئے
ہوئے قرضوں کی ادائیگی واجب الداہو چکی ہے ان پر سود بھی ادا کرنے ہیں چین
سے درآمد کردا مشینری پر زر مبادلہ سے ادائیگی کرنی پڑ رہی ہے دوسرے نواز
شریف کے عہد میں قرضوں کی منافع بخش منصوبوں یا معیشت کی بہتری کیلئے خرچ
نہیں کیا گیا تھا لہذا قرضہ جات میں اضافہ ہوتا رہا 1998میں نواز شریف
حکومت نے ایٹمی دھماکوں کے بعد غیر ملکی اکاؤنٹس کو منجمند کرنے کا فیصلہ
کیا تھا جس سے زر مبادلہ کی آمد میں کمی ہوئی تھی جبکہ سرمایہ کی غیر ملکی
منتقلی میں اضافہ دیکھنے میں آیا یاد رہے کہ اسٹیٹ بینک کے قوانین کے مطابق
بیرون ملک سرمایہ کی منتقلی کیلئے اجازت لینا ضروری تھا مگر نواز شریف
حکومت نے 18اگست 1992کو پروٹیکشن ایکٹ کے تحت بیرون ملک سرمایہ کی منتقلی
پر پابندیاں ختم کر دیں لوگوں کے ایکسچینج کمپنی سے ڈالر خرید کر باہر
منتقل کر دیئے لیکن ایف اے ٹی ایم کے اعتراض پر رواں سال مالی بجٹ میں یہ
سہولت ختم کر دی گئی ہے ان وجوہات کی بنا پر پاکستانی سرمایہ اور کاروبار
باہر منتقل ہوا جس سے پراپرٹی خریدی گئی کچھ لوگوں نے ان جائیدادوں اکاؤنٹس
اور اثاثوں کو ایمنسٹی سکیم کے تحت ظاہر کر کے ریگو لر کروا لیا ہے اس سکیم
کے تحت حاصل کی رعایت کی وجہ سے کوئی ادارہ ان کیخلاف کارروائی نہیں کر
سکتا ہے اب جبکہ اداروں کی طرف سے نوٹسز جاری ہو رہے ہیں جس سے بزنس
کمیونٹی میں خوف وہراس پھیل رہا ہے
سابقہ ماضی کی حکومتوں کی ترجیحات کا جائزہ لیا جائے ان کی پالیسیوں کا
محور روایتی طور پر ریاستی معاملات چلانے کیلئے قرضوں کا حصول ہے ہماری غیر
پید ا واری معیشت کا گزارا قرضوں پر ہے یا اعداد کی جادو گری سے ہے جس میں
کہیں پر ترقیاتی عیشاروں کی اونچی اوڑان ہوتی ہے کہیں پر ڈالر کے مقابلے
میں روپیہ کمزور ہوتا ہے سٹاک مارکیٹ میں چھوٹے سرمایہ کاروں کے اربوں روپے
ڈوب جاتے ہیں دوسری طرف کالا دھن منڈیوں میں پھیلتا اور منافع کماتا
دیکھائی دیتا ہے پلازوں عالی بنگلوں اور گاڑیوں کی بھرمار ہے مگر یہ سب کچھ
دستاویز میں شامل نہیں ہے ، ہماری غیر رسمی معیشت سے دستاویزی معیشت دباؤ
میں ہے ٹیکس ادا کرنے والوں پر مزید ٹیکس لگائے جا رہے ہیں لاکھوں آدمی
ٹیکس نیٹ ورک سے باہر ہیں مزید قرضوں کا حصول محض عوام پر بوجھ ڈالنے کے
علاوہ اور کچھ نہیں ہے اور نہ ہی اس سے غریب طبقات کیلئے فلاح و بہبود کی
راہیں نکالی جا سکتی ہیں اس سال 30ارب ڈالر کے مزید بوجھ سے قرضے 120ارب
ڈالر ہو جائیں گے حکمران طبقات عوام کو اس خوش فہمی میں مبتلا کر رہے ہیں
کہ اب ان کی زندگیوں میں بہتری آنے لگی ہے اور آئی ایم ایف کے قرضوں گیس
اور بجلی کے بلوں میں اضافے سے غریب آدمی کو کچھ فرق نہیں پڑے گا حالانکہ
وہ مسلسل مہنگائی اور بے روز گاری کے جھٹکے محسوس کر رہے ہیں ہم بیرونی
ادائیگیوں کیلئے معیشت کی پیدا وار صلاحیت کو بڑھانے کیلئے کچھ نہیں کر رہے
اگر ہم قرضوں پر انحصار کرنے والی معیشت ، ریاستی جدید نو آبادیاتی ڈھانچے
اور حکمرانی کے انداز میں تبدیلی نہیں لائی جاتی ہے مزید قرضوں میں جکڑے
جائیں گے دنیا معیشت کی بنیاد پر چل رہی ہے سفارت کاری سیاست نہیں بین
الاقوامی تعلقات سب مارکیٹ طے کرتی ہے جس کیلئے علاقائی ممالک کے درمیان
تعلقات اور تجارت بڑھانے کی ضرورت ہے دنیا کے اپنے ہمسائیوں کے ساتھ 80فیصد
تجارت کر رہیہ یں جبکہ ہمارے ہاں ایسا کچھ دیکھائی نہیں دیتا ہے ہمیں اپنے
مائنڈ سیٹ کو تبدیل کرنا ہوگا۔ |