بی جے پی صدر امیت شاہ کی عمر نہ تو ۱۰ سال سے کم ہے اور
نہ ۵۰ سال سے زیادہ نیز وہ عورت بھی نہیں ہے اس لیے سبری مالا مندر میں
جانے سے انہیں کس نے روکا ہے؟ لیکن اس کے باوجود سبری مالا جانے کا خیال ان
کے دل میں کبھی نہیں آیا کیونکہ اس کا کوئی سیاسی فائدہ نںی تھا۔ وہ دن
دور نہیں جب امیت شاہ کے علاوہ راہل گاندھی بھی سبری مالا پہنچ جائیں گے ۔
ان کی عمر ۵۰ سے کم ہے لیکن ان پر پابندی نہیں تھی اور یہ لوگ نہیں جانتے
کہ سپریم کورٹ نے پابندی لگائی نہیں بلکہ اس کو اٹھایا ہے۔ اس کے باوجود
امیت شاہ نے سپریم کورٹ کو مشورہ دیا کہ عدالت کو غیر عملی ہدایات اور ایسے
احکامات نہیں صادر کرنے سے گریز کرےجو ناقابلِ نفاذ ہوں۔ اس کا مطلب تو یہ
ہے کہ ہر فیصلے سے قبل عدالت حکومت اور انتظامیہ سے دریافت کرے کہ حضور ہم
یہ حکم دینے جارہے ہیں برائے کرم ہمیں بتائیں کہ کیا یہ قابلِ عمل ہے ؟اگر
ہے تو سنائیں ورنہ رہنے دیں ۔ عدالت سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ مبنی بر
انصاف فیصلے کرے اور انتظامیہ کا فرض منصبی ہے کہ انہیں نافذ کرےمگرشاہ جی
چاہتے کہ عدالت ایسا ہی فیصلے کرے جو ان کے لیےقابلِ عمل ہوں۔ ان کو عدالت
کے فیصلوں پر کاربند صوبائی حکومت کھٹکتی ہےاس لیے اینٹ سے اینٹ بجا دینے
کی دھمکی دینے سے باز نہیں آتے۔
امیت شاہ جی کا بیان ایک ایسے وقت میں آیا جب سپریم کورٹ میں بابری مسجد
کا تنازع زیر بحث آنے والا تھا ۔ اس لیے کیرالا کے وزیراعلیٰ پی وجین
نےاپنے خطاب میں کہا’’آپ کسے ڈرا دھمکا رہے ہیں، سپریم کورٹ کو ؟عدالت
عظمیٰ دھمکانے کے پیچھے آپ کی نیت واضح ہے۔سپریم کو رٹ بابری مسجد کے قضیہ
کی سماعت کرنے جارہی ہے۔ آپ چاہتے ہیں عدالت عظمیٰ آپ کی ہدایات کے مطابق
فیصلہ سنائے‘‘۔ وجین نے یہ سوالات بھی کیے کہ ’’کیا یہ الفاظ برسرِ اقتدار
جماعت کے سربراہ کی جانب سے ادا ہونے چاہئیں؟ کیا حکمراں پارٹی کا رہنما
ایسا غیر جمہوری موقف اختیار کرسکتا ہے؟‘‘امیت شاہ سے وجین سمیت حزب اختلاف
کے سارے رہنماوں نے اختلاف کیا بلکہ شاہ جی پرسیتامڑھی بہار کے سماجی کارکن
ٹھاکرچندن سنگھ نے بغاوت کامقدمہ بھی دائر کردیا۔
بابری مسجد۔رام جنم بھومی تنازعہ پر سپریم کورٹ نے سماعت جنوری تک ملتوی کر
دی ۔ منصفِ اعظم رنجن گوگوئی نے کہا کہ کون سی بنچ اس معاملہ کی سنوائی کرے
گی اس کا تعین بھی جنوری ماہ میں ہی کیا جائے گا۔ سپریم کورٹ کے رخ سےیہ
بات تو واضح ہو گئی ہے کہ فسطائیوں کی طرح اس کو کوئی جلدی نہیں ہے اور وہ
حکومت کو انتخاب کے اندر اس فائدہ نہیں اٹھانے دینا چاہتا۔بی جے پی کے
سینئر لیڈر سبرامنیم سوامی نے سماعت سے پہلے کہہ دیا تھاکہ اگر رام مندر
تعمیر معاملے میں جلد فیصلہ نہیں ہوا تو وہ لوگ اس تعلق سے کچھ اور سوچیں
گے۔ جن لوگوں کی عقل پر قفل لگا ہوا ہے وہ سوچیں بھی تو کیا سوچیں گے؟
مرکزی وزیر گری راج سنگھ بھی خودکو نہیں روک پائے انہوں نےبھی پہلے ہی کہہ
دیا کہ رام مندر ضرور بنے گا، اب ہندوؤں کے صبر کا باندھ ٹوٹ رہا ہےاور اگر
یہ ٹوٹ گیا تو مجھے خوف ہے کہ ملک کا کیا ہوگا ‘‘۔ عدالت نے اس اندیشے کی
پرواہ کیے بغیر مقدمہ ملتوی کردیا اس لیے کہ قحط زدہ ندی پر لگے باندھ کے
ٹوٹنے سے کیا فرق پڑتا ہے؟
اتر پردیش کے نائب وزیر اعلیٰ کیشو پرساد موریہ کا کہنا تھا کہ ’’یہ معاملہ
سپریم کورٹ میں ہے لہٰذا میں کچھ نہیں کہوں گا۔ حالانکہ سماعت ٹلنے سے سماج
میں اچھا پیغام نہیں جاتا ہے۔‘‘ یعنی باوجود کوشش کو وہ اپنے آپ پر قابو
نہیں رکھ سکے۔ بی جے پی سے ناراض شیوسینا نے موقع غنیمت جان کر عدلیہ کو
تنقید کا نشانہ بنایا۔ شیو سینارکن پارلیمان سنجے راؤت نے کہا کہ ’’ہم اس
بات پر دھیان نہیں دے رہے کہ سپریم کورٹ کیا فیصلہ دیتا ہے اور کیا تاریخ
دیتا ہے۔ ہم دھیان دینا بھی نہیں چاہتے۔ رام مندر معاملے میں عدالت کچھ
نہیں کرے گی۔‘‘ سنجے راؤت نے اپنے اشتعال انگیز بیان میں کہا کہ ’’ہم نے
۲۵ سال پہلے بابری مسجد کے ڈھانچہ کو گرانے سے پہلے عدالت سے نہیں پوچھا
تھا۔ ہمارے سینکڑوں ہزاروں کارسیوک عدالت سے اجازت لے کر شہید نہیں ہوئے
تھے۔ ہم نے عدالت کی منظوری لے کر ایودھیا کی تحریک کا آغاز نہیں کیا
تھا۔‘‘
آ ر ایس ایس نے ۳۰اکتوبرتا ۲ نومبر کے درمیان ممبئی میں منعقدہ انتظامیہ
کےاجلاس میں میں رام مندر پر غور کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔آر ایس ایس کے
سرکردہ رہنما ارون کمار نےمطالبہ کیا کہ شری رام جنم بھومی پر جلد از جلد
عظیم الشان رام مندر کی تعمیر ہونی چاہیے اور اگر اس میں کوئی مسئلہ ہے تو
حکومت آرڈیننس لائے۔ آرڈیننس کی ضرورت عدالت کے فیصلے سے عدم اطمینان کی
چغلی ہے۔ ارون کمار نے بھی امیت شاہ ہی کی مانند عدالت کو بن مانگے کا
مشورہ دیتے ہوئے کہا ’’ سپریم کورٹ اس بات کو مدنظر رکھ کر جلد فیصلہ سنائے
کہ مندر کے بننے سے ملک میں خیر سگالی اور اتحاد کا ماحول قائم ہوگا‘‘۔۔یہ
تو و ہی جانتے ہیں کہ یہ چمتکار کیسے ہوگا۔آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین
کے سربراہ اسدالدین اویسی نے بی جے پی کو آرڈیننس کے مطالبے پر تبصرہ کرتے
ہوئے کہا کہ ’’رام مندر کو لے کر وہ آرڈیننس کیوں نہیں لاتے؟ وہ لا کر
دکھائیں؟ بس، ہر بار دھمکی دے دیتے ہیں کہ وہ آرڈیننس لائیں گے۔آپ اقتدار
میں ہیں۔ آپ کو ایسا کرنے کے لیے میں چیلنج دیتا ہوں۔‘‘
عدالتِ عظمیٰ کے حالیہ فیصلے نے سَنت سماج کو سب سے زیادہ بے چین کیا ہےجس
کے مطابق عقیدت سے منسلک رام مندر کے معاملے میں بلاوجہ تاخیر ہو رہی
ہے۔سخت برہم نظر آنے والے سادھو سنتوں نے ۳ اور ۴ نومبر کو دہلی کے
تالکٹورا اسٹیڈیم میں ایک اجلاس عام طلب کیا ہے ، جس میں ہندو مذہب کی ۱۲۵
تنظیمیں شرکت کریں گی اور رام مندرکی تعمیر سے متعلق حکمت عملی پر غور کیا
جائے گا۔ مرن برت بیٹھےج والے مہنت پرم ہنس نے اس فیصلہ کے بعد کہا کہ ’’ہم
جنوری تک انتظار نہیں کر سکتے بی جے پی فوراً رام مندر تعمیر کا کام شرع
کرائے ۔ رام مندر تعمیر کا وعدہ کر کے مودی اور یوگی بر سر اقتدار آئے تھے
اور اگر اب بھی مندر تعمیر نہیں ہوتا تو آر ایس ایس ، وی ایچ پی اور بی جے
پی حکومت کو نتائج بھگتنے کے لئے تیار رہنا چاہیے ‘‘۔ آل انڈیا سنت سمیتی
کے صدر سوامی جتیندر سرسوتی نےکہا کہ ’’اب حکومت پارلیمنٹ کے سرمائی اجلاس
میں رام مندر کی تعمیر کے لئے قانون بنائے‘‘۔وہیں نرموہی اکھاڑے نے حکومت
پر عدم اعتماد کا اظہار کیسے کیا؟
فسطائی تنظیموں کی جانب پیدا کیے جانے والے اسی ماحول نے سابق منصفِ اعظم
دیپک مشرا کو گزشتہ سال ہندو اور مسلم رہنماؤں کو پیشکش کی تھی کہ اگر وہ
اس تنازعے کو عدالت سے باہر مصالحت سے حل کرنا چاہتے ہیں تو وہ ثالثی کے
لیے تیار ہیں لیکن ان کی پیشکش کو مسلمانوں نے قبول نہیں کیا۔کانگریس کے
سابق مرکزی وزیر پی چدمبرم نے کہا کہ بی جے پی کو ہر پانچ سال میں انتخابات
کے وقت رام مندر کی یاد آ جاتی ہے۔ اس وقت بھی عام انتخابات کے پیش نظر اس
کے رہنماؤں نے یہ راگ الاپنا شروع کردیا ہے۔ بی جے پی مندر کے نام پرہر
پانچ سال میں لوگوں کو بانٹنے کا کام کرتی ہے اور اس بار بھی صورتحال مختلف
نہیں ہے۔کانگریس کا موقف ہے کہ ’’معاملہ سپریم کورٹ میں زیر غور ہے اور
وہاں مندر تعمیر ہو یا نہیں، اس بارے میں عدالت کو ہی فیصلہ کرنا ہے۔ سب کو
سپریم کورٹ کے فیصلے کا انتظار کرنا چاہیے‘‘۔
عدالتِ عظمیٰ کے بابری مسجد۔ رام جنم بھومی معاملہ کو سماعتکے التواء کا
سارے انصاف پسندوں نےخیر مقدم کیا ہے ۔ اس دو سطری فیصلہ میں چیف جسٹس
سپریم کورٹرنجن گگوئی ، جسٹس سنجے کشن کول اور جسٹس کے ایم جوزف نے ایک نئی
بنیچ تشکیل دینے کا ارادہ ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ وہ جنوری ، فروری یا مارچ
میں کبھی بھی ہوسکتا ہے۔ اس اقدام کا ایک پیغام تو یہ ہے کہ ہندوتوادیوں کو
کی مانند عدالت کو انتخاب نہیں لڑنا ہے اس لیے وہ کسی عجلت کا شکار نہیں
ہے۔ رام مندر پرانتخاب کی روٹیاں سینکنے والوں کو اس حکم سے مایوسی ہوئی
لیکن امیت شاہ صاحب کو جج حضرات کا شکریہ ادا کرنے چاہیے ۔ ان کا مشورہ تھا
کہ عدالتی کوایسے فیصلےسنانے سے گریز کرنا چاہیے جن پر عملدرآمد مشکل ہو۔
عدالتِ عظمیٰ نے حکومتِ وقت کو ایک بڑی مشکل سے بچالیا ہے۔ اس فیصلے سے
ظاہر ہے کہ عدلیہ کا جھکاو کس طرف ہے؟ |