بسم اﷲ الرحمن الرحیم
پاکستان اور روس کے درمیان تیسری مشترکہ فوجی مشقوں کا آغاز ہو چکا ہے
۔’’فرینڈشپ 2018‘‘کے نام سے ہونے والی یہ مشقیں 4نومبر تک جاری رہیں گی جن
میں دونوں ممالک کے دو سو فوجی شریک ہوں گے ۔پنجاب کے شہر کھاریاں میں
واقعہ انسداد دہشت گردی کے مرکز اور چراٹ میں اسپیشل فورسز کے مرکز میں
ہونے والی ان مشقوں میں دہشت گر دگروہوں کے خلاف کی جانے والی کارروائیوں
اور پہاڑی علاقوں میں جنگی استعداد کو بڑھانے کے لیے ایک دوسرے کے تجربات
سے فائدہ اٹھائیں گے ۔اس سے قبل دونوں ممالک کے درمیان 2016اور 2017میں
مشترکہ جنگی مشقیں ہو چکی ہیں ۔پاک روس تعلقات میں گزشتہ چند سالوں سے غیر
معمولی اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے ۔سابق آرمی چیف جنرل پرویز اشفاق کے دور
میں افغان جنگ کی تلخیاں کم کرنے کے لیے کافی کوششیں کی گئیں جس کے نتیجہ
میں دونوں ممالک کے درمیان تجارتی شعبوں کے ساتھ ساتھ دفاعی میدان میں بھی
تعلقات بڑھتے نظر آئے ۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی روایتی حریف بھارت کی جانب
سے سخت احتجاج کے باوجود روس نے مشترکہ فوجی مشقیں اور دفاعی منصوبوں میں
تعاون ختم کرنے سے انکار کر دیا ۔ان چند سالوں میں دفاعی میدان میں بالخصوص
دونوں ممالک کے درمیان نمایاں اضافہ ہوا۔ رواں سال اگست میں ہی دونوں ممالک
نے ایک معاہدے پر دستخط کیے جس کے تحت پاکستان کے فوجی روس کے عسکری اداروں
میں تربیت حاصل کر سکیں گے ۔جبکہ ماضی پاکستان کے فوجیوں کی ذیادہ تر تربیت
امریکہ اداروں میں ہوتی تھی ۔اس سے قبل ایک دوسرے سے دفاعی شعبوں میں باہمی
شراکت داری کے لیے مشترکہ مشاورتی کمیٹی کا فورم قائم کیا گیا تھا ۔
پاکستان چونکہ اس سے قبل جنگی سازوسامان امریکہ سے خریدتا رہا ہے جس کی وجہ
سے اس سامان کو استعمال کرنے کے لیے فوجیوں کی تربیت بھی امریکی اداروں میں
ہی ہوتی رہی ہے ۔دفاع شعبوں میں روس کے ساتھ بڑھتے ہوئے تعاون کے بعد یہ
ضروری ہو گیا تھا کہ اگر پاکستان روس سے جنگی سازوسامان خریدتا ہے تو اس کے
استعمال کی تربیت بھی روسی اداروں میں ہو ۔روسی فوجوں کے افغانستان میں
داخلہ کے بعد سے لے کر 2014تک روس کی جانب سے پاکستان کو جنگی سازوسامان کی
فراہمی پر پابندی تھی جس کی بڑی وجہ افغان جنگ کی تلخیاں ، سرد جنگ کے
دوران امریکہ سے بڑھتے ہوئے تعلقات کے علاوہ بھارتی دباؤ بھی تھا جو روسی
اسلحہ کا سب سے بڑا خریدار ہے۔تاہم 2014میں روس نے یہ پابندی ختم کر دی تھی
اور دونوں ممالک کے درمیان ایک تاریخی دفاعی معاہدہ طے پایا تھا ۔جس کے بعد
روس کی جانب سے پاکستان کو جدید لڑاکا ہیلی کاپٹرMI35کی فراہمی کے ایک
معاہدے پر بھی دستخط کیے گئے۔ سابق آرمی چیف راحیل شریف کی کوششوں کے بعد
ان ہیلی کاپٹرز کی پہلی کھیپ پاکستان کو فراہم کر دی گئی اور مزید ہیلی
کاپٹرز ابھی باقی ہیں ۔ان ہیلی کاپٹرز کے ذریعے پہاڑی علاقوں میں دہشت گردی
کے خلاف کارروائیوں میں مدد مل سکے گی ۔
پاک روس میں بڑھتی ہوئی قربت میں کئی وجوہات بیان کی جا سکتی ہیں لیکن اس
میں کوئی دوسری رائے نہیں ہو سکتی کہ دونوں ممالک کی قربت سے علاقائی تعاون
کو فروغ ملے گا۔ پاکستان ایک عرصہ سے امریکی کیمپ کا حصہ بنا رہا جس کی وجہ
سے دونوں ممالک کے تعلقات کشیدہ رہے جس کا سب سے ذیادہ فائدہ پاکستان کے
روایتی حریف بھارت کو ہوا۔امریکی کیمپ میں ہونے کے باوجود پاکستان امریکہ
کے تعلقات میں اتار چڑھاؤ موجود رہا اورامریکی مفادات اس منظر نامے پر
چھائے رہے ۔تعلقات کے اس دور میں بار بار امریکی پابندیوں کے باعث پاکستان
دفاعی میدان میں ایک خلا پیدا ہو چکا تھا۔روس کے ساتھ دفاعی معاہدے کسی حد
تک اس خلا کو پورا کرنے میں معاون ثابت ہوں گے ۔افغانستان میں جاری جنگ
اوروہا ں امریکی فوجوں کی موجودگی بھی دونوں ممالک کو قریب لا رہی ہے ۔پرامن
افغانستان روس ، پاکستان اور چین کی مشترکہ ضرورت ہے لیکن وہاں امریکی
افواج کی موجودگی میں شاید یہ ممکن نظر نہیں آتا ۔یہی وجہ ہے کہ روس چین
اور پاکستان افغانستان میں امن کے قیام کے لیے مشترکہ کوششوں میں مصروف ہیں
۔افغانستان میں داعش کی موجودگی بھی دونوں ممالک کے لیے تشویش کا باعث بن
رہی ہے ۔رواں برس پاکستان میں داعش کے حوالہ سے ایک منفرد نوعیت کا اجلاس
ہوا جس میں پاکستان کے علاوہ چین ایران اور روس کی خفیہ ایجنسیوں کے اعلیٰ
عہدایداروں نے شرکت کی تھی ۔اس اجلاس کا مقصد مشرقی افغانستان میں داعش کی
پھیلتی ہوئی سرگرمیوں کو روکنے کے لیے مشترکہ اقدامات کرنا تھا ۔یہاں یہ
نکتہ بھی قابل غور ہے کہ روس امریکہ پر یہ الزام عاید کرتا رہا ہے کہ
افغانستان میں داعش کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کے پیچھے امریکی ادارے ملوث ہیں
جو نہ صرف افغانستان میں خانہ جنگی کا خاتمہ نہیں چاہتا بلکہ وسط ایشیائی
ریاستوں میں بھی داعش کے ذریعے خانہ جنگی کا ماحول پیدا کرنا چاہتا ہے۔ چار
ممالک کی انٹیلی جینس عہدیداروں کا یہ اجلاس ایسے وقت میں ہوا تھا جب صرف
ایک مہینہ پہلے اقوام متحدہ کے لیے روس کے سفارت کار واسیلی نیبینزیا نے
سیکورٹی کونسل کے اجلاس میں کہا تھا کہ افغانستان میں داعش کے دس ہزار کے
قریب جنگجو موجود ہیں جو نو صوبوں میں فعال ہیں ۔شمالی حصوں میں ان کی
فعالیت کے باعث وسط ایشیائی ریاستوں کو ان سے خطرہ ہے ۔داعش کی افغانستان
میں موجودگی اور فعالیت کے باعث افغانستان کے ہمسایہ ممالک جن میں چین ،
روس ، ایران اور پاکستان شامل ہیں تشویش میں مبتلا ہیں ۔داعش کی سرگرمیوں
سے پاکستان او روسط ایشیائی ریاستیں براہ راست متاثر ہیں تاہم اس کے باوجود
افغان حکومت اور امریکہ داعش کے اثرورسوخ کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نظر
نہیں آتے ۔تاہم امریکی ذرائع اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ موجودہ افغان
حکومت کا کنٹرول کابل سے باہر بہت کم ہے ۔
امریکہ کی طرف سے ان کوششوں کو اگرچہ شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا رہا ہے لیکن
یہ سب مفادات کے کھیل ہیں ۔امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے جنوبی ایشیا اور
بالخصوص پاک افغانستان کے متعلق پالیسی آنے کے بعد روس کے ساتھ تعلقات میں
اضافہ ہونا فطری بات تھی ۔اگرچہ بعض امریکی ادارے اور تجزیہ نگار تعلقات کی
بہتری پر مختلف رائے رکھتے ہیں تاہم یہ حقیقت ہے کہ سرد دور میں تناؤ رکھنے
والے یہ ممالک ایک دوسرے کے قریب آرہے ہیں ۔داعش ایک بڑے خطرے کے طور پر
دونوں ممالک میں سامنے آرہا ہے ۔امریکہ ایک طرف طالبان سے ربطے جوڑنے کی
کوششوں میں مصروف ہے تو دوسری طرف داعش کے خلاف دونوں ممالک کے تعاون پر
اعتراضات اٹھا رہا ہے جو امریکہ کے مفادات کو ظاہر کر رہا ہے ۔
پاک روس مشترکہ فوجی مشقوں سے جہاں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں روس کے فوجی
پاکستان کے تجربہ سے فائدہ اٹھا سکیں گے وہاں علاقائی استحکام کے لیے بھی
دونوں ممالک کی قربت اہم کردار ادا کرے گی ۔جنوبی ایشیا میں تنازعات کے
باعث ترقی کا عمل کافی سست ہے ۔ روس کا جھکاؤ ہمیشہ بھارت کی طرف جھکنے سے
علاقائی توازن میں بگاڑ پیداہوا ۔روس ماضی میں بھارت کے ذیادہ قریب رہا ہے
یہ قربت یقینا ختم تو نہیں ہو سکتی تاہم ایسے معاہدوں سے ایک تواز ن ضرور
پیدا ہو سکتا ہے جس کے باعث کسی ایک ملک کی بالادستی کی دوڑ کا خاتمہ ہو
سکتا ہے ۔
|