میں ، میری منزل اور سوالیہ نشان ؟

کہاوت ہے کہ گِدھ اور شاہین بُلند پرواز ہوئے، بلندی پر دونوں ایک جیسے نظر آرہے تھے، زمین سے بے نیاز، آسمان سے بے خبر بس مصروف پرواز، دیکھنے والے حیران ہوئے کہ یہ دونوں ہم فطرت نہیں ہم پرواز کیسے…؟ گِدھ نے کہا، میں بھی بلند پروازی کو پسند کرتا ہوں، میں بھی ہواؤں کی تیز رفتاری کے سنگ اُڑنے کا شوق رکھتا ہوں، میرے پَروں میں بھی اونچی اُڑان کی طاقت ہے۔ خیر گِدھ نے بھی شاہین کی چال اپنائی تھی، اس کی طرح کرنے کی کوشش کررہا تھا کہ گِدھ کی نظر زمین پر پڑے مُردار جانور پر پڑی تو اچانک اپنا رخ آسمان کی بلندی سے زمین کی پستی کی طرف موڑتے ہوئے کہنے لگا، آپ کی بُلند خیالی، بھاڑ میں جائے، مجھے تو اپنا توشہ مل گیا اب میرا تمہارا راستہ الگ۔ اور یوں بُلندیوں تک لے جانے والے شاہین کو گِدھ نے اپنی فطرت سے مجبور ہوکر آدھے راستے میں مُردار کی خاطر چھوڑا۔۔۔

کبھی کبھار میں اپنے احساسات کو لے کر گمبھیر ہوجاتا ہوں کہ اس کو کیا نام دوں۔ انہیں کس طرح پیش کروں۔ شاید اتنا کمزور ہوگیا ہوں کہ اپنے احساسات کو دفن کرنے کا ہنر بھی نہیں آتا۔ پھر غصہ بھی آتا ہے کہ اپنے فضول، احمقانہ اور سست عمل و بیان کا گلا گھونٹ دوں۔ افغانستان میں انتخابات سے قبل قندھار گورنر ہاؤس میں کیے جانے والے ایک حملے میں افغان این ڈی ایس کا صوبائی پولیس چیف جنرل عبدالرزاق، خفیہ ایجنسی کا سربراہ اور گورنر ہلاک ہوئے۔ امریکی کمانڈر اس حملے میں بچ گیا۔ ہلاک ہونے والا جنرل عبدالرزاق، پاکستان اور افغان طالبان کا شدید ترین مخالف تھا اور اس بات کا اظہار برملا کرتا رہا تھا کہ وہ پاکستان کا دشمن ہے، تاہم اس کے شخصی (کابل پالیسی) نظریات کے برعکس حکومت پاکستان نے افغانستان کے پارلیمانی انتخابات سے قبل حملے کی شدید مذمت کی۔ یہ ریاستی رویہ تھا جو عالمی رائے عامہ کو مدنظر رکھتے ہوئے ہر مملکت کو اختیار کرنا پڑتا ہے۔

تاہم یہاں جب پاکستان کے شدید مخالف اور دشمن کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی گئی تو نام نہاد قوم پرست کا چہرہ مزید بے نقاب ہوا کہ پاکستان کے دشمن سے انہیں کتنی محبت ہے کہ انہوں نے نہتے کشمیریوں، افغان سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں شہید ہونے والے افسران و اہلکاروں کے لیے تو کبھی غائبانہ نماز جنازہ نہیں پڑھی لیکن میرے وطن کی بقا و سلامتی کے کھلے دشمن کے لیے غائبانہ نماز جنازہ پڑھ کر اس ملک دشمن کو اپنا ’’ہیرو‘‘ قرار دیا۔ کسی مسلمان کی نماز جنازہ پڑھنے میں کوئی قباحت نہیں، کوئی امر مانع نہیں، لیکن غائبانہ نماز جنازہ ایک طرح کا ’’استعارہ‘‘ بھی ہے کہ مرنے والے فرد سے عقیدت کا اظہار کیا جائے۔ قوم پرستوں کی حب الوطنی پر سوالیہ نشان اٹھانے کی جرا?ت ہرگز نہیں کرسکتا، کیونکہ میں نے اسی جماعت سے تعلق رکھنے والے کئی رہنماؤں اور کارکنان سے بات کی تو انہیں اس کا افسوس تھا کہ ان کی جماعت کو یہ عمل نہیں کرنا چاہیے تھا۔ انہوں نے تنقید کی کہ ’’ہمارے ان سیاسی رہنماؤں نے تو کراچی میں ہلاک ہونے والے اپنے کارکنان کی نماز جنازہ میں کبھی شرکت کی اور نہ غائبانہ نماز جنازہ پڑھی، لیکن نہ جانے کیوں انہیں ملک دشمن جنرل عبدالرزاق کا غم اس قدر ستا رہا ہے، شاید امریکا کی ہمدردی حاصل کرنے کی کوشش ہے۔‘‘

کون بے خبر ہے کہ نام نہاد قوم پرست جماعتوں کے کئی رہنما امریکی صدارتی انتخابی مہم میں حصہ لینے کے لیے خصوصی طور پر امریکا جاتے ہیں۔ انہیں فوراً پانچ برس کا ویزا دیا جاتا ہے۔ تمام تر اخراجات امریکی سیاسی جماعت برداشت کرتی ہے (یہ دید و شنید بھی ہے)۔ امریکا کی مخالفت کرنے والوں کا دوہرا معیار عرصے سے چلا آرہا ہے، کیونکہ کسی سیاسی جماعت کا کوئی رہنما سمجھتا ہے کہ اُس کے اس عمل سے اُس کو بھی ذاتی فائدہ پہنچے گا، لیکن ذاتی طور پر اپنے کارکنان کو دھوکے میں رکھنے کا عمل درست نہیں سمجھتا، کیونکہ کارکنان اپنے جذبات میں اپنے رہنما کو منزل بناتے ہیں۔ لیکن اس منزل تک جانے کا راستہ اگر غلط ہو تو پھر اس بارے میں یقیناً سوچنے کی ضرورت دوچند ہوجاتی ہے۔

سوشل میڈیا میں خرابی بسیار کا چلن بہت عام ہوگیا ہے کہ اپنے مخالفیں کی نازیبا تصویر لگاکر تمسخر اڑاتے ہیں۔ انتہائی پست حرکت، بدتہذیبی، اخلاقیات سے گری گھٹیا ذہنیت کے مظاہر متواتر دِکھائی دیتے ہیں۔ ایسے ہی ایک صاحب نے گزشتہ دنوں ایک نازیبا تصویر پوسٹ کی۔ راقم نے ان ’’صاحب‘‘ کو اپنا رویہ درست کرنے کا کہا۔ موصوف ذاتیات اور غلیظ زبان درازی پر اتر آئے۔ انتہائی گندی زبان استعمال کی اور حدود سے بھی تجاوز کرگئے۔ اس پر میں نے دوبارہ عرض کی کہ دوسروں کو اذیت اور تکلیف دینے کی ایک صورت بُرے لقب سے پکارنا، اﷲ تعالیٰ کو ناپسند ہے۔ ارشاد باری ہے: ’’اور نہ ایک دوسرے کو برے لقب سے یاد کرو۔‘‘ ایک دوسرے کو بُرے القاب دینے اور یاد کرنے کی ممانعت فرمائی گئی ہے۔ مثلاً کسی مسلمان کو فاسق، یا کافر یا منافق کہنا یا اورکسی ایسے لفظ سے یاد کرنا جس سے برائی ظاہر ہوتی ہو، اس سے منع فرمایا۔ کسی کو کتا، گدھا، خنزیر کہنا، کسی نومسلم کو یہودی، یا نصرانی کہنا یہ سب تنابزبالالقاب میں آتا ہے، یہ بھی حرام ہے۔ (الجامع لا?حکام القرآن للقرطبی، سورۃ الحجرات:11، 211/8، دار احیاء التراث العربی)۔ کیونکہ اُس واٹس ایپ گروپ کے ایڈمن کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے ایسے افراد گروپ میں ایڈ کیے ہیں جو معزز اور باعث احترام ہیں، اس لیے خاموشی کو افضل جانا، کیونکہ اس پڑھے لکھے شخص کی بات کا ترکی بہ ترکی جواب دینا کوئی مشکل کام نہ تھا۔

غلیظ اور نفرت انگیز پوسٹیں سوشل میڈیا کا وتیرہ بن گئی ہیں۔ میرے کئی احباب نے سوشل میڈیا میں ترکی بہ ترکی جواب دینے کے لیے منفی و غلیظ ردّعمل اختیار کیا ہوا ہے، جنہیں میں وقتاً فوقتاً منع کرتا ہوں کہ یہ نامناسب عمل ہے، تاہم جو باز نہیں آتے ان کے صفحے سے الگ ہوجاتا ہوں۔ ملک دشمن افغان جنرل عبدالرزاق کی غائبانہ نماز جنازہ کی تصویر شیئر کرنے کے بعد جس قسم کے لب و لہجے کا سامنا کیا، مجھے اُن نادان دوستوں پر افسوس نہیں ہوا کیونکہ ان کے رہنماؤں کے قول و فعل کے تضاد کو بہت قریب سے جانتا ہوں۔ افغان بھائیوں نے بھی دل کھول کر نازیبا زبان استعمال کی۔ یہ بہرحال ان کا نظریہ تھا، اس لیے یہ بھی مجھے بُرا نہیں لگا (تاہم افسوس ضرور ہوا)۔ متعدد واٹس ایپ گروپس میں بھی منفی عمل مسلسل جاری و ساری ہے۔

میری تحاریر کو پڑھنے والے شاہد ہیں کہ میں تنقید برائے اصلاح پر یقین رکھتا ہوں۔ حسن ظن سے کام لیتا ہوں۔ لیکن جس قسم کا منفی رویہ عمومی طور پر ہمارے درمیان رائج ہوگیا ہے بحیثیت مسلمان اور پاکستانی بڑی شرمندگی محسوس ہوتی ہے۔ ایک جانب جب کچھ نام نہاد قوم پرست میرے ملک کی سلامتی و بقا کے دشمن کو ’’ہیرو‘‘ بناتے ہیں تو پوری قوم کے سر شرم سے جھک جاتے ہیں۔ اسی طرح جب کسی پڑھے لکھے جاہل مخبوط الحواس فرد کو احساس نہیں ہوتا کہ وہ کیا پوسٹ کررہا ہے اور پھر شرمندگی کے بجائے وہ اپنے منفی رویے پر ڈٹ جاتا ہے تو شاہین اور گِدھ کی ہم پروازی کی مثال یاد آجاتی ہے۔

Qadir Khan Yousuf Zai
About the Author: Qadir Khan Yousuf Zai Read More Articles by Qadir Khan Yousuf Zai: 399 Articles with 261247 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.