حکومت کے سو دنوں کے بہت سے وعدوں میں ایک وعدہ
جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کا بھی تھا۔ اس وعدے کی اہمیت یہ بھی تھی کہ
الیکشن سے چند روز قبل ’’جنوبی پنجاب صوبہ محاذ‘‘ معرضِ وجود میں آیا
تھااور اپنے ابتدائی دنوں میں ہی متوقع طور پر پاکستان تحریک انصاف میں ضم
ہو گیا تھا۔ دوسری سیاسی جماعتوں سے کئی ’’الیکٹ ایبلز‘‘ وہاں سے یہاں آئے
تھے۔ قوم اس وقت انگشت بدنداں رہ گئی جب جنوبی پنجاب کی پسماندہ تحصیل سے
ایک ایم پی اے کو پنجاب کی وزارت علیا کا تاج پہنا دیا گیا۔ یہ صاحب ’جنوبی
پنجاب صوبہ محاذ‘ کے ایک عام رکن تھے۔ پہلی مرتبہ صوبائی اسمبلی پہنچے تھے۔
وزیراعلیٰ کی کہانی تفصیلات سے بیان کرنا اِس کالم کی ضرورت نہیں، اُن پر
تنقید کے ڈونگرے برس رہے ہیں، وقت ہی فیصلہ کرے گا کہ عمران خان کا انتخاب
درست تھا یا یہ فیصلہ کسی پراسرار وجہ سے کیا گیا تھا۔ تاہم اُن کے وزیر
اعلیٰ بنائے جانے سے ایک خدشے نے سر اٹھایا تھا، کہ موصوف کو اس لئے
وزیراعلیٰ بنایا گیا ہے کہ جنوبی پنجاب والے الگ صوبے کے لئے زیادہ دباؤ نہ
ڈالیں، کہ اب ان کا اپنا وزیراعلیٰ ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ خدشہ
حقیقت کا روپ دھارتا دکھائی دیتا ہے، ایسے ایسے دلائل قوم کے کانوں میں
انڈیلے جارہے ہیں، جن پر یقین کرتے ہوئے کوئی شک بھی نہ گزرے کہ اصل کہانی
کیا ہے، اور اندر خانے کیا ہورہا ہے؟ مختلف بیانات جاری کئے جارہے ہیں، کئی
افواہیں پھیلائی جارہی ہیں۔
کسی بھی صوبہ میں الگ صوبہ بنانے کے لئے متعلقہ صوبے سے قرار داد منظور
کروانا پڑتی ہے۔ یہی کام سابقہ حکومت نے اس وقت کیا تھا، جب صوبہ میں ن لیگ
کی اور مرکز میں پی پی کی حکومت تھی۔ پنجاب اسمبلی میں قرار داد منظور کی
گئی کہ بہاول پور صوبہ کو بحال کیا جائے اور جنوبی پنجاب کے باقی علاقہ کے
لئے الگ صوبے کی تشکیل کا بندوبست کیا جائے۔ قرار داد کے بعد ایک کمیٹی
بنائی جاتی ہے، جس میں دیگر سیاسی جماعتوں کو نمائندگی دی جاتی ہے، اس
کمیٹی یا بورڈ کی سفارشات کی روشنی میں پارلیمنٹ قانون پاس کرتی ہے۔ مگر تب
یہ ہوا کہ قرار داد کی منظوری کے بعد پی پی نے ن لیگ کے بنائے ہوئے بورڈ کو
تسلیم کرنے سے انکار کردیا، یوں یہ بیل منڈھے نہ چڑھی۔ دونوں جماعتوں نے
اپنے تحفظات کا اظہار کیا، سیاست بھی چمکتی رہی، کام بھی نہ ہوا۔ حکومت کے
خاتمے کو زیادہ وقت نہیں رہتا تھا، سو معاملہ وقت کی گرد کے نیچے دب گیا۔
اگلے دور میں جب صوبہ اور مرکز دونوں میں پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت تھی
تو انہوں نے دوبارہ اس قسم کی قرار داد کی ضرورت محسوس نہ کی، ہاں البتہ
الیکشن وغیرہ کے موقع پر صوبہ کی حمایت کے نعرے ضرور لگا دیئے جاتے تھے۔
جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانا تمام سیاسی جماعتوں کے منشور کا حصہ ہے، مگر
یہاں بھی معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے، بہاول پور کے عوام کی اکثریت بہاول پور
صوبہ کی بحالی چاہتی ہے، کسی اور آپشن کو تسلیم کرنے کو وہ تیار نہیں۔ اُن
کے مطابق جنوبی پنجاب کے دیگر علاقوں کے لوگ اپنے لئے جس نام سے مرضی صوبہ
بنوائیں۔ دوسری طرف سرائیکی پارٹیوں والے سرائیکی صوبہ چاہتے ہیں، ان کے
بقول بہاول پور صوبہ والے سرائیکیوں کو تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔ حکومت اپنا
الگ نقطہ نگاہ رکھتی ہے، وہ جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کا نعرہ لگاتی ہے،
مگر اس صوبہ کے نام وغیرہ پر بھی غور نہیں کیا گیا۔ اگر صوبہ ہی الگ بنانا
ہے تو ’جنوبی پنجاب‘ کا کوئی جواز نہیں بنتا، اس کا الگ نام اور الگ پہچان
ہونی چاہیے۔
موجودہ حکومت مطلوبہ قرار داد کے سلسلہ میں بھی مشکلات کا شکار دکھائی دیتی
ہے، کیونکہ اس کے پاس گنتی پوری کرنے کے لئے ممبران نہیں، یہی وجہ ہے کہ اب
حکومت مختلف آپشنز پر غور کررہی ہے، جنوبی پنجاب کے لئے انتظامی اقدامات کا
فیصلہ کیا جارہا ہے، علاقے کا بجٹ الگ اکاؤنٹ میں رکھنے کی تجویز بھی آئی
ہے، (سابقہ ادوار میں یہاں کا بجٹ وہاں شفٹ ہوتا رہا، یہاں گرد اُڑتی رہی،
وہاں اورنج ٹرین بنتی رہی)، جنوبی پنجاب کی تینوں ڈویژن میں کابینہ کے
اجلاس کرنے پر بھی غور ہو رہا ہے، بہاول پور میں انتظامی سیکریٹریٹ قائم
کرنے کا فیصلہ ہونے جارہا ہے، چیف سیکریٹری ایک ماہ میں دو دورے اِس علاقے
کے کیا کریں گے، ایڈیشنل آئی جی اور ایڈیشنل چیف سیکریٹری بہاول پور میں
تعینات کرنے کی تجویز بھی ہے۔ ظاہر یہ یہ تمام تجاویز، فیصلے یا خیالات اسی
وقت تک ہیں جب صوبہ نہیں بنتا۔ یوں جانئے کہ صوبہ نہ بنانے کے بندوبست ہیں۔
یعنی یہاں وزیراعلیٰ دیا ہوا ہے، وزیرخزانہ اور وزیرخوراک یہاں کے ہیں،
وفاق میں بھی وزارتیں ہیں۔ دراصل یہ تمام حربے گونگلوؤں سے مٹی جھاڑنے کے
ہیں۔ بہاول پور صوبہ کے حامی جنوبی پنجاب صوبہ کی بات نہیں مانتے، سرائیکی
صوبہ والے بہاول پور میں انتظامی سیکریٹریٹ کو نہیں مانیں گے۔ یوں یہ مسئلہ
الجھ جائے گا، عوام آپس میں دست وگریباں رہیں گے اور حکمران اپنے دیگر کام
کاج کرتے رہیں گے۔
اگر حکومت سنجیدہ ہے تو یہ ڈر ذہن سے نکال دے کہ کوئی سیاسی جماعت اس کی
مخالفت کرے گی، قرار داد میں عدم تعاون ہوگا، یا کوئی رکاوٹیں ڈالی جائیں
گی۔ کیونکہ جس پارٹی نے ایسا کیا، وہ جنوبی پنجاب کے عوام کی نگاہوں سے گِر
جائے گی۔ تاہم حکومت کا کام ہے کہ وہ معاملے کو نہایت حکمت، تدبر اور
دوراندیشی سے حل کرے۔ اپنے ہاں سیاسی مخالفت کا کلچر ہے کہ اچھا کام بھی ہو
تو روڑے اٹکاتے ہیں، یہاں صوبے کے قیام کی مخالفت ناممکن ہے، اگر تمام
جماعتوں کو ساتھ نہ چلایا گیا، مناسب نمائندگی نہ ملنے یا کسی اور بہانے سے
مخالفت ہو جائے گی، اور نتیجہ یہی نکلے گا کہ معاملہ لٹک جائے گا، عوام کی
خواہشات بھی خاک ہو جائیں گی، ضرورت ہونے کے باوجود عوام کو سہولت نہ دی
جاسکے گی۔ گویا یہ صوبہ حکومت کے تدبر اور دانائی کا بھی امتحان ہے۔
|