آخر کار غریب ختم ہوگئے

پرانے وقتوں کی بات ہے کہ جب پیسے کی قدر انسانوں کی قدر سے زیادہ ہوا کرتی تھی.اس وقت اخلاص ،پیار،محبت ،بھائی چارہ جیسی وہ تمام چیزیں جنہیں آج کے دور میں نایاب سمجھا جاتا ہے ہر ایک کو ہر جگہ میسر تھیں.حالیہ ہوئے انتخابات میں ایک ایسی فضاء بنی کہ غریب عوام نے اس تبدیلی کی خاطر اپنا حق رائے دہی خوب استعمال کیا تا کہ انکے دل کی مراد پوری ہو اور پاکستان کو اچھے دن دیکھنا نصیب ہوں.بالآخر لوگوں کی امیدیں پوری ہونے لگیں اور انہوں نے ایک ایسے شخص کو چنا کہ جس سے وابستہ کئی امیدیں بھی ابھرنے لگیں ہر طرف تبدیلی کا شور ،ہر جانب بہار کی لہر دوڑ گئی.پھر یوں ہوا کہ فضا کالی گھٹا بن گئی ،امیدیں ٹوٹنے لگیں،بہار پت جھڑ میں تبدیل ہونے لگا.

پہلے تو دعویٰ یہ تھا کہ قرض اتارا جائے گا،نیا قرض نہیں لیا جائے گا ملک خداداد کی تمام تر نعمتوں کو بروئے کار لاکر اپنی اکانومی کو اپنے قدموں پر کھڑا کیا جائے گا.لیکن اقتدار ملتے ہی شاید ترجیحات بدل گئیں .اولاٌقرض کو خود کشی سے تعبیر کرنے والے آج نیا قرض لینے کے خواہاں ہیں.دو دن میں قرض اتارنے کے دعوے دار اس نہج پر پہنچ گئے کہ روپے کی قیمت کو مزید گرا کر مہنگائی کو خوب پروان چڑھارہے ہیں.اپنے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لئے خوب کوشاں ہیں کہ جب غریب ہی نہ رہا تو غربت کہاں رہے گی.جی ہاں ہر شئے کی قیمت کو اس قدر بڑھا دو کہ غریب کی پہنچ اور سوچ دونوں سے بالا تر ہو جائے. وہ اس بات کا صدمہ لے اور خود ہی یہ ملک کیا دنیا چھوڑ جائے تا کہ نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری.

کہا یہ جاتا ہے کہ غربت اور کفر میں بہت کم فاصلہ ہوتا ہے. یعنی کہنے کا مطلب ہے کہ غربت اس نہج تک انسان کو لے آتی ہے کہ جس کے باعث ایمان فروشی بہت آسان لگتی ہے اور بندہ ایسی راہ اپناتا ہے کہ جو اسے اور نہیں تو غربت اور فاقے سے نجات دلاتی ہے. چاہے وہ ڈکیتی،قتل یا پھر بم دھماکہ ہی کیوں نہ ہو.ابھی حال میں ہوئے واقعات پر نظر ڈالیں تو ایک رکشے والے نے غربت کے باعث خود کو ہی جلا ڈالا .دوسری جانب ایک رکشے والے نے ہی اپنے رکشے کو سی این جی کی قیمتیں بڑھنے پر آگ لگا دی. اس طرح کی بے شمار مثالیں ایسی موجود ہیں کہ جن سے آئندہ آنے وقتوں میں کیا کہرام مچے گا واضح ہو رہا ہے .اس کے ساتھ ساتھ کریم آباد ،ملیر اور دیگر ایسے چھوٹے علاقوں میں تجاوزات کے خلاف کاروائیاں چہ معنی دارد کیونکہ اس میں بھی تو غریب کی املاک کا نقصان ہوا،اس میں بھی پسا تو غریب،نقصان اٹھایا تو غریب نے،بے گھر ہوا تو غریب .کیا کسی نے بحریہ ٹاؤن کی جانب نظر ڈالی،کیا کسی نے چودہ معصوم لوگوں کی لاشیں گرانے والے،قوم کا پیسا لوٹ کر کھا جانے والے اس درندہ صفت شریف کو پکڑا،کیا گلشن میں بنے ہوئے امتیاز سپر اسٹور کی کوئی ایک اینٹ بھی ہلی،بورڈ آفس کے پاس صائمہ بلڈرز کی تعمیر کردہ ٹاور نما بلڈنگ کا کوئی چھوٹا سا کانچ بھی ٹوٹا.نہیں اور کیوں ہو کہ جناب وہاں سے تو نئے نوٹوں کی گڈیاں بھیجی جاتی ہیں ،اس لینڈ مافیہ پر تومعذرت کے ساتھ ہمارے سو کالڈ چیف جسٹس صاحب بھی ہاتھ نہیں ڈالتے کہ وہاں سے دست و گریباں ہونے کا شاید زیادہ خطرہ لاحق ہے.الغرض جس طرف بھی دیکھیں تو ایک داستان اور طویل داستان دکھائی اور سنائی دیتی ہے .ہر سمت مہرہ ایک ہی ہے وہ ہے غریب.پھر غریب صرف ایک ہی صدا کرتا ہے بقولِ شاعر.....!
صحنِ غربت میں قضاء دیر سے مت آیا کر
خرچ تدفین کا لگ جاتا ہے بیماری پر

Muhammad Tayyab
About the Author: Muhammad Tayyab Read More Articles by Muhammad Tayyab: 6 Articles with 7121 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.