سابق انسپکٹر جنرل آف پولیس خیبرپختونخواہ ، سابق ہو
سیکرٹری خیبرپختونخواہ اور سابق صوبائی وزیر داخلہ فیاض احمد خان طورو کا
تعلق طورو مردان کے ایک اعلیٰ زمیندار گھرانے سے ہے ۔ اُن کے خاندانی پس
منظر سے ہٹ کر وہ اکثر اِنتہائی اہم عہدوں پر تعینات رہے اور چونکہ سیاسی
طور پر مضبوط تھے اس لیئے جب بھی کوئی من پسند پوسٹ نہ ہوتی تو باوجود
ٹرانسفر کے وہاں جانے سے اِنکار کر دیتے جیسا کہ ایک مرتبہ بلوچستان تبادلے
کی صورت میں وہاں جانے سے اِنکار کیا۔ سیاسی اَثر و رسوخ سے اسلام آباد کے
آئی جی پی بھی رہے جن دنوں پشاور میں افغان مہاجرین کے اسمگلنگ کا عروج تھا
اُن دنوں وہ پشاور رینج کے ڈی آئی جی بھی رہے اگر چہ اُس وقت کے آئی جی پی
میاں مسعود شاہ سے بنا کر رکھی تھی کیونکہ وہ بھی ایک بڑے زمیندار تھے۔
فیاض طورو کے بارے میں اعلیٰ پولیس اَفسران کا کہنا ہے کہ وہ باتوں باتوں
میں غریب اَفسران کے خاندانی پس منظر کا مذاق بھی اُڑاتے تھے اور اِسی وجہ
سے کسی غریب یا درمیانی طبقے کاذہین یا مشہور اَفسر اَکثر اُن کی آنکھوں
میں کھٹکتاتا رہتا تھا۔ فیاض طورو کی ہر وقت اعلیٰ عہدوں پر تعیناتی کی وجہ
اُن کی قابلیت نہیں بلکہ اُن کا کاروباری اور سیاسی اَثر و رسوخ تھااور ہر
قسم کی سفارش سے وہ دَریغ نہیں کرتے تھے۔ اے این پی کے دور میں اعظم ہوتی
کے پاؤں پکڑنے میں عَار محسوس نہیں کی ۔ پی ٹی آئی کے دور میں اپنی بھابھی
نیلم طورو( چیئرپرسن وومن کمیشن خیبرپختونخواہ) جو اُن کے بھائی نیاز
طوروکی اہلیہ ہیں اور وزیراعظم عمران خان کی گڈُ بک میں ہے کے بل بوتے پر
سابق وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کے قریب رہے بلکہ پرویز خٹک کے کاروباری شریک
بھی رہے اور اپنے اکلوتے بیٹے حارث طورو کے لیئے صوبائی حلقے سے پی ٹی آئی
کا ٹکٹ لینے میں مردان کے عاطف خان کی وجہ سے ناکام ہوااور حارث طورونے
آزاد حیثیت سے الیکشن لڑا مگر ناکام رہے۔ اس تمام روئیداد سے مطلب فیاض
طورو کی شخصیت کا بیان ہے جو آج کل شیخ ملتون کے علاقے میں اپنی بیکار ترین
زمین کو سرکاری وسائل سے آباد کرکے ایک اَرب روپے کے پلاٹ بیچ چکا ہے ۔
تاہم ہمیں اِن کی کاروباری دولت سے غرض نہیں ہمیں اِس بات کی فکر ہے کہ آخر
وہ طالبان کے مختلف گروہوں کے نشانے پر کیوں ہیں؟ اِن کو مختلف طالبان جس
میں باجوڑ، خیبر اور مہمند ایجنسی کی تنظیمیں شامل ہیں کی طرف سے بار بار
دھمکیاں کیوں ملتی ہیں ؟ یہ راز دراصل بہت کم لوگوں کو معلوم ہے۔ سوات میں
انتہا پسندی کے دوران میں فیاض طورو ایڈیشنل آئی جی پی انویسٹی گیشن
خیبرپختونخواہ تعینات تھے ۔ یہ متحدہ مجلس عمل کی حکومت تھی۔ سوات آپریشن
کرانے میں اور بعد میں طالبان پر پولیس تحویل میں اُن کے کہنے پر کافی
مظالم ہوئے۔ اے این پی نے پہلے پہل اِن کو آئی جی پی تعینات نہیں کیا اور
میدان ملک نوید نے مار لیا۔ بطور ہوم سیکرٹری اِس نے اپنے دوست اُس دور کے
چیف سیکرٹری جاوید اقبال کے ساتھ مل کر طالبان کے بارے میں تمام خفیہ اور
اہم دستاویزات امریکی سی آئی اے کی" کافی " نامی بین الاقوامی این جی او کے
ذریعے پہنچائیں ۔ اس مقصد کے لیئے چیف سیکرٹری ہاؤ س میں ایک ڈیٹا سیل بھی
بنایا گیا تھا۔ اُس وقت سوات میں غریب اور مذہبی گھرانے سے تعلق رکھنے والے
جماعت اسلامی کے حمایت یافتہ کمشنر سید محمد جاویدتھے جن کو طالبان کے
حلقوں میں اس لیئے قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا کہ وہ ایک مشہور عالم شمعون
مولانا صاحب کے بیٹے بھی تھے۔ فیاض طورو نے کمشنر جاوید کی طالبان سے صلح
کو برداشت نہیں کیا اور چیف سیکرٹری سے کہا کہ اگر جاوید نے اس کا قومی
کارنامہ سراَنجام دیا تو کل کو چیف سیکرٹری یا میری جگہ ہوم سیکرٹری لگ
جائے گا۔اس لیئے کمشنر سید محمد جاوید کے خلاف ایک گہری سازش کی اور اُن کو
طالبان کا ایجنٹ قرار دے کر ملٹری آپریشن کو اور تیز کر دیا۔ کمشنر جاوید
معطل ہوئے اور مردان سے تعلق رکھنے والی دوسری اہم شخصیت ڈاکٹر محمد فاروق
(وائس چانسلر ملاکنڈ یونیورسٹی) جو حکومت اور طالبان میں صلح کے لیئے
کوششیں کر رہے تھے کو راستے سے ہٹا دیا گیا ۔ بعد میں سید محمد جاوید کو
قید و بند کی مصیبتیں بھی برداشت کرنا پڑیں اور اٹک قلعے میں اُن پر تشدد
بھی کیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ سب کچھ فیاض طورو کی ایماء پر ہوا۔ اِن
دنوں فیاض طورو کی جگہ مردان ہی کے اکبر خان ہوتی ایڈیشنل آئی جی پی
انویسٹی گیشن تعینات تھے اور ان کو پولیس تحویل میں قید چار سو طالبان یا
اُن کے حمایتی افراد کی اِنٹاروگیشن حوالہ تھی۔ اکبر ہوتی فیاض طورو کی
چالوں سے واقف تھے اس لیئے قیدی طالبان کے خلاف کوئی بڑی کاروائی نہیں کی ۔
فیاض طور و نے گیارویں کورکمانڈر اور ہوم ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے اِظہارو جوہ
اور اِظہارِ ناراضگی کے نوٹس بھی اکبر ہوتی کو جاری کرائے جس پر دونوں کے
تعلقات خراب ہو گئے ۔ فیاض طورو نے امریکی سی آئی اے کے ساتھ برطانوی خفیہ
اِیجنسی ایم آئی سیکس کے ذریعے رابطے اِستوار کیئے اوراُن کو یقین دِلایا
کہ اگر اُن کو اے این پی کے بعد بننے والی نگران حکومت میں وزیر داخلہ
لگوایا جائے تو وہ فاٹا سے متعلق تمام تر اہم ریکارڈ برطانوی این جی
اوز(ڈیفیڈ) اور ایم آئی سیکس کے ذریعے امریکی اِداروں کو دیں گے۔ فیاض طورو
کو اُن دنوں پشاور میں سرگرم عمل بلیک واٹر سے متعلق بھی پوری طرح معلوم
تھااور یونیورسٹی ٹاؤن پشاور اور اسلام آباد میں بلیک واٹر کے دَفاتر میں
فیاض طورو کا آنا جانا پاکستانی ایجنسیوں کے نوٹس میں تھا۔ اُس دوران میں
طالبان کے خلاف شدید حملے کیئے گئے اور پورے فاٹا میں آگ لگا دی گئی اور
خیبرپختونخواہ کے شہروں سے طالبان کے اہم کمانڈر اور اُن کے حمایتی گرفتار
کیئے گئے ۔ امریکی اور برطانوی اِداروں نے فیاض طورو کی اِن خدمات کے عوض
اُن کو وزیر داخلہ کے بعد پولیس اِصلاحات کے پراجیکٹ کے لیئے مشیر مقرر
کروایا اور روزانہ تین سو پاؤنڈ لینے لگے۔ گزشتہ کچھ عرصے سے اُن کو طالبان
کے مختلف گروہوں کی جانب سے دھمکیاں مل رہی ہیں اس لیئے وہ اسلام آباد، مری
اور نتھیا گلی میں اکثر روپوش رہتے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ یہ سب کچھ فیاض
طورو نے کس لیئے کیا تھا؟اگر اِس میں ذاتی مقاصد اور دولت کی ہوس تھی تو
اُس کا نتیجہ اچھانہیں نکلا اور اگر ملک و قوم کے لیئے تھا تو فیاض طورو کو
ہر ممکن سیکورٹی فراہم کرنی چاہیئے ۔ یہ حکومت کا فرض ہے ۔ واضح رہے کہ
فیاض طورو کے ساتھ اکثر گاڑیوں میں مردان اور سخاکوٹ کے بعض نامی گرامی
بدمعاش بھی حفاظت کے لیئے ہوتے ہیں اور علاقے کی عوام کو معلوم ہے کہ فیاض
طورو کے ایسے لوگوں سے رابطے ہوتے ہیں مثلاً ملاکنڈ کے مشہور بدمعاش اکرام
کو بھی فیاض طورو نے ہر ممکن بچانے کی کوشش کی مگر وہ فوج کے نرغے میں آ
گیا تھا اور بالآخر مارا گیا۔ سخاکوٹ کا سید کریم گروپ بھی فیاض طورو کے
اِشارے پر چلتا ہے ۔ تاہم طالبان کی دھمکیاں کوئی نیک شگون نہیں ہیں اور
خیبرپختونخواہ حکومت کو اپنے ایک سابق آئی جی پولیس کو ہر ممکن سیکورٹی
فراہم کرنی چاہیئے۔
|