آسیہ مسیح کیس:اصل حقائق۔۔؟

 تحریر:عبدالاحد سالار
14 جون 2009ء کے دن عیسائیت سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون آسیہ مسیح دو مسلمان عورتوں کے ہمراہ کھیتوں میں کام کر رہی تھی۔ کسی معاملے پر ان کے مابین تلخ کلامی ہوئی ہے اور بات بڑھ گئی اس پر آسیہ مسیح نے مسلمان عورتوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے لیے سرکار دو عالم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی شان اقدس میں نازیبا الفاظ کہہ دیے۔ اور یہ مسئلہ پورے گاؤں میں پھیل گیا۔ ہنگامی کاوائیاں شروع ہوگئیں۔ اسی دوران ایک پنچایت(اجتماع) کا اہتمام کرکے ملزمہ کو بلایا گیا۔ جہاں اس اپنے جرم کا اقرار کیا۔ پانچ دن کی مسلسل جدو جہد کے بعد اہل علاقہ کی مقامی مسجد کے امام کی سربراہی میں مجرمہ پر 295c کے تحت ایف آئی آر کٹوا دی گئی۔ یوں یہ معاملہ قانون کے طرف چلا گیا۔ اور قانونی کاروائی شروع ہو گئی۔ سب سے پہلے لوئر کورٹس میں کیس گیا۔ مکمل تفتیش اور گواہان کی موجودگی میں مجرمہ کو سزائے موت سنائی گی اور اس کو ڈیٹھ سیل بھیج دیا گیا۔ نو سال مجرمہ جیل میں رہی۔ اور مجرمہ کو پھانسی نہ دی گئی۔ پھر عمران خان اقتدار میں آئے اور ساتھ ہی عیسائی کمیونٹی ایکٹو ہو گئی۔ کل 31 اکتوبر 2018ء ملکی تاریخ کے بد ترین دن گستاخ رسول کی مرتکبہ مجرمہ کو چیف جسٹس پاکستان نثار ثاقب صاحب کی سربراہی میں قائم کردہ بینچ کی طرف سے رہا کر دیا گیا۔ یاد رہے یہ وہی دن ہے جب ایک 29 سالہ نوجوان مجاہد اسلام غازی علم الدین شہید کو گستاخ رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو واصل جہنم کرنے کے جرم میں سزائے موت سنائی گئی تھی۔ آج عدلیہ پاکستان نے اسی دن گستاخ رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو رہائی کا پروانہ جاری کر دیا۔ یقینا آج عدلیہ کے اس فیصلے نے امت مسلمہ کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی ہے۔ اس سے مذہبی طبقے میں شدید غم و غصے کی لہر دیکھنے کو ملی ہے۔

آسیہ کیس ایک مختصر پس منظر و پیش منظر کو بیان کرنے کے بعد میں چند سوالات قارئین کے گوش گزارنا چاہتا ہوں کہ انصاف کے علمبردار چیف جسٹس صاحب نے آاسیہ مسیح کی رہائی کے متعلق جو 57 پر مشتمل فیصلہ جاری کیا ان کو پڑھا جائے تو ڈائریکٹلی و ان ڈائریکٹلی یہی نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ چیف جسٹس صاحب نے آسیہ کو بے قصور کہا ہے، چلیں ہم اعلی عدلیہ کے فیصلے کا احترام کرتے ہوئے مان لیتے ہیں کہ آاسیہ مسیح بے قصور تھی، تو کورٹ ٹرائل 2010ء اور 2014ء کے فیصل ججز کیا بنے گا جن کی وجہ سے ایک بے قصور کی زندگی کے نو سال جیل میں گزرے؟ ان نو سالوں کا حساب ججز صاحبان کب دیں گے؟ جن ججز نے اسے سزائے موت سنائی کیا ان کا ٹرائل کب ہوگا؟

اپنے شعبے سے ہٹ کر مختلف شعبہ جات کے دورے کرنے والے اور چھاپے مارنے والے چیف جسٹس صاحب کیا ان لوئر کورٹس کے ججز سے پوچھ گچھ کریں گے کہ انہوں نے آاسیہ مسیح کو سزا کیسے سنائی تھی؟

جب کہ یہ معاملہ اتنی حساس نوعیت کا ہے کہ اس کی وجہ سے پہلے سلمان تاثیر قتل ہوا۔ پھر شبیر بھٹی کو مارا گیا اور اس کے بعد ممتاز قادری کو تختہ دار پر لٹکایا گیا۔

اب اس کے دوسرے رخ کی طرف آئیں۔ اگر آسیہ مسیح واقعی ہی گستاخ رسول ہے، تو پھر وہ لوگ مجرم ہیں جنہوں نے پتہ نہیں کن آقاوں کی خوشنودی کے لیے بذات خود اقبال جرم کرنے والی مجرمہ کے رہائی کے آرڈر جاری کیے۔ اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ:

اعلی عدلیہ کے اس شرمناک فیصلے سے دلبرداشتہ ہو کر محمد بن عبداﷲ کے پروانے قانون اپنے ہاتھ میں لیں تو اسکا ذمہ دار کون ہوگا؟

فاطمہ کے بابا کی حرمت کا دفاع کرتے ہوئے اگر کوئی ممتاز قادری یا غازی علم الدین شہید عاسیہ مسیح کو بھرے بازار میں کیفر کردار تک پہنچا دے تو اسکا ذمہ دار کون ہوگا؟

میرا سوال ہے ملکی عہدیداران اور انصاف کے پیامبروں سے کہ اگر اس حساس مسئلے پر دیے گئے نہایت غیر ذمہ دارانہ فیصلے کے رد عمل میں کوئی جماعت یا گروہ مشتعل ہو جائے تو ملکی املاک کے نقصان کا ذمہ دار کون ہوگا؟

اس کیس کے فیصلے کے نتیجے میں اگر عوام کا اعتماد عدلیہ سے اٹھ جائے اور اپنے فیصلے خود اپنے ہاتھوں سے کرنے لگ جائے تو اسکا ذمہ دار کون ہوگا؟

قسم محمد عربی کے رب کی ان سب کی ذمہ دار نہ عوام ہوگی، نہ کوئی جماعت ہوگی اور نہ ہی کوئی گروہ ہوگا بل کہ اس سب کا ذمہ دار عدالتی نظام ہوگا۔ چیف جسٹس صاحب شاہ رخ جتوئی رہا ہوا۔ہم خاموش رہے۔راؤ انوار رہا ہوا،ہم خاموش رہے۔ ان سے قبل بھی ایان علی، شرجیل میمن اور ڈاکٹر عاصم جیسے کرپٹ لوگ رہا ہوتے رہے لیکن ہم اف تک نہ بولے۔ ہم نے ہمیشہ عدلیہ کا احترام کیا۔ لیکن اب بات کسی شاہ رخ جتوئی یا شرجیل میمن کی نہیں اب بات سرکار دو عالم رحمت العالمین شفیع المرسلین جناب حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وآلہہ ولسم کی ذات اقدس کی ہے۔ ان کی طرف اٹھنے والی انگلی کو اور بولنے والی زبان کو نہ کاٹا گیا تو جناب چیف جسٹس صاحب ہم سے آپ کی عدالت اور آپ کے فیصلوں کا احترام نہ ہو پائے گا۔ ہم حب رسول میں انتہا پسند ہیں۔ یہ ہی ہمارے ایمان کا تقاضہ ہے۔
گتساخ رسول کو بتا دو

ابھی غیرت مسلم زندہ ہیجنابِ چیف! میں نے آپ کو بطور منصف کبھی ہسپتال میں چھاپے مارتے دیکھا تو کبھی موبائل کمپنیرز کے خلاف ایکشن لیتے دیکھا۔ کبھی ڈیم پر بات کرتے دیکھا تو کبھی سیاست پر لب کشائی کرتے دیکھا۔ لیکن میں نے کبھی آپ کو بطور مسلم توہین رسالت پر ایکشن لیتے نہیں دیکھا۔ توہین عدالت پر نہ جانے آپ کتنوں کو کورٹ کے چکر کٹوا چکے ہیں اور کتنوں کو نا اہل کر چکے ہیں لیکن توہین رسالت پر آپ کا کوئی اقدام نہیں دیکھا۔ ہم اس آپ کی گستاخان رسول پر ذرہ نوازی تو نہیں کہہ سکتے مگر حیران ضرور ہیں۔

خیر یہ آسیہ مسیح والا کیس اتنا بھونڈا کیس نہیں تھا جسے عدلیہ نے انتہائی غیر ذمہ دارارانہ طریقے سے ڈیل کیا۔ یہ کیس کسی ایرے غیرے سے منسوب نہیں تھا بل کہ یہ کیس تو اس ذات سے منسوب تھا جو چودہ سو سال پہلے مصلے پر آپ کی خاطر روتا رہا۔ جس نے جب بھی دعا مانگی آپ کی بخشش کی دعا مانگی۔ اور اپنے اس ذات کے ساتھ اتنہائی غیر منصفانہ رویہ رکھا۔ یہ کیس ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے جذبات سے جڑا ہوا تھا۔ آپ نے انتہائی بے دردی سے اس کیس کا فیصلہ کر کے امت محمدیہ کے جذبات کو مجروح کیا ہے۔ آپ کے اس نہایت غیر منصفانہ فیصلے کے رد عمل میں تحریک لبیک نے احتجاجی کال دے دی ہے۔ اب یہ ختم نبوت کے پروانے سر پر کفن باندھ کر نکلے ہیں۔ یہ کچھ بھی کر گزر جائیں گے اس سب کے ذمے دار آپ ہوں گے۔ آپ کے ہی اس فیصلے کے باعث امت محمدیہ کے احساسات و جذبات کو ٹھیس پہنچی ہے۔ اﷲ آپ کو عقل سلیم عطا فرمائے اور یہ فیصلہ واپس لینے کی توفیق عطا فرمائے۔
 

KhunaisUr Rehman
About the Author: KhunaisUr Rehman Read More Articles by KhunaisUr Rehman: 33 Articles with 23060 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.