بھیڑیے

آسیہ بی بی کیس نے ہماری نالائقیوں کو نمایاں کردیا۔ثابت کردیاکہ ہم معاملات سنبھالنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔ادارے ایک دوسرے سے تعاون لینے کا فن نہیں جانتے۔ تعاون دینے کی بجائے تماشہ دیکھتے رہنا اچھا سمجھتے ہیں۔مظاہرین نے پورا ملک بند کررکھا تھا اس کی فکرسب کو ہونی چاہیے تھی۔کیا سبھی اداروں کو اپنی اپنی بساط کے حساب سے رول پلے نہیں کرنا چاہیے تھا۔ ادارے اس قومی بحران کے حل کے لیے ایک دوسرے سے گریزاں نظر آئے۔عدلیہ فیصلہ دینے کے بعد حکومت کی طرف دیکھ رہی تھی جبکہ حکومت کبھی فیصلہ دینے والوں پر کڑھتی نظر آئی او رکبھی انتظامیہ کی طرف ۔نام نہاد انتظامیہ اپنا رول پلے کرنے میں ناکام رہی یا پھر وزیر اعظم کو ہی اس کے زور بازور بازو پر بھروسہ نہ ہوا۔اس کا معقول جواز بھی ہے یہ رکھی تو اس لیے گئی ہے کہ جب بھی کوئی بلا آئی تو یہ دور کرے گی۔اس کا تعاون غیر مشروط ہوگا۔کوئی سوال ہوگانہ کوئی مشورہ بس حکم پر متحرک ہوجائے۔ایسا کبھی ہونہیں پایا۔انتظامیہ حکم ملنے کی منظرہونے سے کہیں زیادہ مشیر کا کردار اداکرنے کی شوقین ہے۔بندہ پوچھے مشاور ت اور مزاکرات کے لیے توحکومت اپنے دوسرے پلیٹ فارم رکھتی ہے جن کی ناکامی کے بعد ہی تو تم لوگوں کو طلب کیا جاتاہے۔اب بجائے اپریشن کے تم الٹے سیدھے مشورے دینا شروع کردیتے ہو۔حکومت کی تم سے بے زاری بے وجہ نہیں۔اس کے لیے سوائے اس کے کوئی چارہ نہ تھاکہ مظاہرین کے از خود تھک جانے پر منتشر ہوجانے کا انتظار کیا جاتا۔اس کے پاس مظاہرین کو دینے کے لیے تو کچھ تھا نہیں۔ان کے مطالبات بڑے ناقابل عمل طرز کے تھے۔نہ وہ آسیہ کی بریت کا فیصلہ کالعدم قراردے سکتی ہے۔نہ اس فیصلے کے جاری کرنے والے ججز کو برطرف کر سکتی تھی۔آرمی چیف کے خلاف دوسرے جنرلز بغاوت کردیں یہ مطالبہ پوراکرنابھی اس کے بس میں نہ تھا۔ اس لیے حکومت کے پاس محض خاموش تماشائی بنے رہنے کے سوا کوئی راستہ نہ بچا۔یہ بحران لمحہ فکریہ ہے۔بظاہر بڑی سادہ بات تھی۔ایک عدالتی فیصلہ تھا۔وہ بھی ملک کی سب سے بڑی عدالت کی طرف سے۔اسے اس کا مینڈیٹ حاصل ہے ۔قانون اور آئین اسے فیصلہ سنانے کا حق سونپتے ہیں۔اس حق کو تسلیم کرنا ہی غنیمت ہے۔آپ اس کے فیصلہ سنانے کے حق کو نہ تسلیم کرکے آئین سے روگردانی کے مجرم قرار پاسکتے ہیں۔اس کے فیصلہ سنانے کے حق کو تسلیم کرنا ہی کافی نہیں بلکہ ا س کے سنائے جانے والے فیصلوں کو ماننا بھی اتناہی لازم ہے۔آپ کسی بھی عدالتی حکم نامے کی خلاف ورزی نہیں کرسکتے۔ایسا کرنے سے ملک کا قانون اور آئین روکتے ہیں۔عدالتی حکم ناموں پر عملدرامد کروانا حکومت وقت کا فرض ہے جس کے لیے اسے انتظامیہ کی شکل میں بھرپور قوت مہیا ہوتی ہے۔پولیس ۔رینجر ۔ملٹری اور پیرا ملٹری فورسز اپنی مکمل تربیت ،مہارت اور قوت کے ساتھ حکومتی اشارے کے منتظر رہتی ہیں۔مظاہرین پر سب سے بڑا اعتراض یہ لگایا جارہا کہ وہ عدلیہ کے آئینی اور قانونی فیصلے کو تسلیم نہیں کررہے۔جب ملک میں فیصلہ کرنے کا حق عدلیہ کو ہے تو وہ اس کا حق کیوں تسلیم نہیں کرتے۔ سرا سرالاقانونیت کا پرچار کررہے ہیں۔اگر ملک میں آئین ۔قانون اور اداروں کا احترام نہ ہوگا تو ریاست کے قیام کا مقصد ہی فوت ہوجاتاہے۔ ریاست جگل کی طرح ہوجاتی ہے جہاں ہر کوئی اپنی مرضی کرتا پھرے۔جو طاقت ور ہوگا۔وہ سب کچھ لے اڑے جو کمزور ہے اسے تھوڑا بہت ملتاہے۔اور جو سب سے کمزو رہے وہ کچھ نہ مل پانے کے سبب سسک سسک کر مر تارہے۔ریاست میں موجود چھوٹے بڑے۔امیر غریب ۔سب کو برابر مواقع دینے ک لیے قانون بنایا جاتاہے۔جس کی پابندی ہر ایک کے لیے لازم ہوتی ہے۔ملک میں اس وقت جو زبردست قسم کی بے ترتیبی پائی جاتی ہے اس کاسبب ہرکسی کے قانون سے بے زاررہنا ہے۔ریاستی ادارے بجائے قانون اورآئین پر کاربند ہوکر ایک مثال بنیں۔آئے دن اپنے متنازعہ اقدامات کے سبب اپنی تکریم گنواچکے۔ خراب کارکردگی ،اپنی ذمہ داریوں سے چشم پوشی کے سبب احترام جاچکا۔اب عوام اداروں پر نہ تو اعتماد کرتی ہے نہ احترام۔آسیہ بی بی کا کیس ایک بار پھر اداروں کی بے وقعتی کی جھلک دکھاگیا۔عدلیہ کے فیصلے کے خلاف بھرپور مزاحمت ہوئی۔تین دن تک عدلیہ ۔فوج اور حکومت کو گالیاں پڑتی رہیں۔ حکومت کچھ نہ کرپائی۔ تحریک انصاف کی نئی نویلی حکومت کا تیسرا مہینہ ہے۔اسے یہ اچھی سلامی ملی۔یہ جماعت ہتھیلی پر سرسوں جمانے جیسے شعبدے دکھانے کا کہہ کرآئی تھی۔اس سلامی نے اس اپنے مستقبل کی ایک ہلکی سی جھلک دکھادی ہے۔اپوزیشن والے اس جماعت کو کٹھ پتلی سیٹ اپ قراردیتے ہیں۔ایسا سیٹ اپ جو اقتدار کی ہوس رکھنے والے بھیڑیوں پر مشتمل ہے ۔ اقتدار پانے کے لیے یہ کچھ بھی کرسکتے ہیں۔کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔انہیں نہ ملک کے وقار کی کوئی فکرہے نہ قوم کے دکھوں کی کچھ پرواہ۔یہ سیٹ اپ اس لیے قائم کیا گیا ہے کہ یہ کچھ لوگوں کی موج مستیوں کا دفاع کرے۔ چند لوگ سترسال سے یہ موج مستیاں کررہے ہیں۔یہ پٹھو سیٹ اپ قائم کرنے کا مقصداس کے سو اکچھ نہیں کہ وہ مخالفین کا ناطقہ بند کیے رکھیں۔جب تک یہ فریضہ نبھاتے رہیں گے۔سہولت حاصل رہے گی۔

Amjad Siddique
About the Author: Amjad Siddique Read More Articles by Amjad Siddique: 222 Articles with 123397 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.