ایسے نہیں چلے گا

پے درپے غلط فیصلوں، تقرریوں اور تبادلوں کے بعد حکومت شدید تنقید کی زد میں ہے یہ تنقید کچھ حد تک بجا بھی ہے حال ہی میں آئی جی اسلام آباد کے تبادلے پر حکومت نے اپنے خلاف نیا محاذ کھول لیا ہے ان غلطیوں کے بعد حکومت کو کسی اپوزیشن پارٹی کی ضرورت نہیں رہی۔

ویسے تو حکومت کو اختیار ہے کہ وہ اپنی مرضی سے تقرری اور تبادلہ کر سکتی ہے لیکن جس بھونڈے انداز میں یہ تبادلے کیے گئے ہیں جس پر حکومت کے مخالفین تو کیا حامی بھی سر پکڑ کر بیٹھ گئے ہیں پہلے پاکپتن کا معاملہ ہوا جس میں مانیکا خاندان کے ملوث ہونے کی بات سامنے آئی پھرپنجاب پولیس اصلاحات کمیٹی کے سربرا نے اختلافات کی بنا پر استعفیٰ دے دیا اور اب آئی جی اسلام آباد ان تمام معاملات میں شخصیات کا عمل دخل کھل کر سامنے آ چکا ہے میڈیا تو پہلے ہی اربوں روپے بند ہونے پر پر تولے بیٹھا تھا اس پر سپریم کورٹ کے نوٹسسز نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے اب ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ حکومت کے وزراء ان معاملات میں دفاع نہیں کر پا رہے۔

یہ وہ پاکستان نہیں ہے جس کے لیے کروڑوں لوگوں نے موجودہ حکومت کو ووٹ دے کر کامیاب بنایا اگر اس طرح حکومت کو شخصیتوں کے گرد گماں نہ تھا تو یہ کام نون لیگ اور پیپلزپارٹی سے زیادہ بہتر کوئی نہیں کرسکتا تھا جس تبدیلی کے نعرے پر حکومت آئی ہے اس تبدیلی کو روکا جا رہا ہے اور اس تبدیلی کو روکنے میں کوئی اور نہیں حکومتی شخصیات ہی ملوث ہیں جو اس نظام کے حامی ہیں ا یسے ہی کچھ لوگوں کو جو پہلے دن سے متنازعہ تھے ان کو نہ صرف الیکشن جتوایا گیا بلکہ اب حکومت ملنے کے بعد ان کو اہم عہدوں پر بھی فائز کر دیا گیا ہے یہ حکومت کی نا اہلی ہے یا نظام کی کمزوری کے ہر سیاسی جماعت کو اس طرح کے لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے جو بوقت ضرورت خاطرخواہ چندا دے سکے اور پھر اس طرح وہ اپنے ناپاک پنجے ان پارٹیوں میں گاڑ دیتے ہیں اور ان جماعتوں کے حکومت میں آنے پر سود سمیت اپنا سرمایہ واپس لیتے ہیں یہ نظام ایسے عناصر کی بھرپور پشت پناہی کرتا ہے آج کل جو حالات ہم دیکھ رہے ہیں یہ اسی نظام کی خامیوں میں سے ایک خامی ہے۔

ہم سب جانتے ہیں کہ اعظم سواتی ایک متنازعہ شخصیت ہیں یہ موصوف امریکی شہری بھی تھے لیکن امریکہ میں کچھ مالی تنازعات کی وجہ سے امریکا اور وہاں کی شہریت کو چھوڑنا پڑا پہلے وہ جے یو آیٔ ف میں شامل ہوئے پھر جب سورج کو چڑتے دیکھا تو اس کی دھوپ سیکھنے پی ٹی آئی میں پہنچ گئے جو لوگ وزیر اعظم کو جانتے ہیں ان کے لیے یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ وزیر اعظم صرف سواتی کے کہنے پر کسی عہدیدار کو ہٹا دیں گے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وزیر اعظم تک حقائق پہنچانے میں کوتاہی کی جا رہی ہے ان چھوٹی چھوٹی غلطیوں کی وجہ سے حکومت کی بدنامی ہورہی ہے اپوزیشن اور میڈیا کو بھی بات اچھالنے کا موقع مل رہا ہے اس طرح کے اور بھی بہت سے کردار حکومت کی کردار کشی میں مصروف ہیں۔

اصولی طور پر تو سیاسی جماعتوں کو ایسے ناسورو کے خلاف خود ہی کاروائی کرنی چاہیے لیکن افسوس کہ سیاسی جماعتوں میں ایسے فیصلے کرنے کی سکت موجود نہیں خوش آئند بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے اعظم سواتی کو اپنے اثاثہ جات کی تفصیل جمع کرانے کا حکم دے دیا ہے اور عندیہ دیا ہے کہ ہم اس معاملے کا62 ون ایف کے تحت فیصلہ کر سکتے ہیں امید کی جاسکتی ہے کہ سپریم کورٹ کی طرف سے اس طرح کے عناصر کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی تاکہ سیاسی نظا م ان گندے انڈوں سے پاک ہو سکے۔

حکومت ویسے ہی گھمبیر مسائل میں گری ہوئی ہے اور اس طرح کے خودکش حملے حکومتی کارکردگی پر سوالیہ نشان اٹھا رہے ہیں وزیراعظم صاحب کو ان معاملات پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے یہ تمام معاملات عوامی توقعات کے برخلاف ہیں جس کی وجہ سے عوام میں غصہ اور مایوسی پھیل رہی ہے اپوزیشن اس غصے اور مایوسی کو استعمال کرکے حکومت کو نقصان پہنچا سکتی ہے وزیراعظم کو ان کردار کشی کے واقعات کا سختی سے نوٹس لے نا چایٔے اور ان کرداروں کو سائیڈ لائن کرنا چایٔے جو حکومت کی کردار کشی میں ملوث ہیں تاکہ حکومت پر عوام کا اعتماد بحال ہو سکے۔
 

Imran Ahmed Memon
About the Author: Imran Ahmed Memon Read More Articles by Imran Ahmed Memon: 8 Articles with 6822 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.