برصغیر پاک و ہند 1947 سے قبل جدوجہد آزادی کے نتیجے میں
پرامن بات چیت کے تحت اتفاق رائے سے پاک بھارت مملکتوں نے معرض وجود میں آ
کر تاریخ رقم کی جس کے بعد کے مسائل مشکلات میں کمی لاتے ہوئے اپنے اپنے
عوام کو راحت سکون ارو ترقی کی منازل سے ہمکنارکرنا چاہیے تھا مگر وہی حق
کشمیریوں کو نہ دیکر ناصرف ان کے مستقبل بلکہ پاک بھارت دونوں اقوام کو
ترقی خوشحالی کے صحت مندانہ مقابلے کی دوڑ میں شامل ہونے سے محروم رکھا گیا
تو نفرت ‘ دشمنی کے الاؤ بھڑکاتے ہوئے عام آدمی کو فکری بلوغت‘ شعوری معاشی
آسودگی کے قریب نہیں آنے دیا گیا اور اس کے حصول کے فطرتی جذبے خواہش کو
پیدا ہی نہیں ہونے دیا گیا جس کے راستے کی سب سے بڑی دیوار انتہاء پسندی
مذہبی شدت پسندی نفرت دشمنی کے ایٹم بم اور کیمیائی ہتھیاروں سے زیادہ
خطرناک نہ نظر آنے والے مائنڈ سیٹ ہیں جن کا ساٹھ سال تک جادو پاکستان میں
چلتارہا ‘ مذہب مسلک ‘ علاقہ ‘ زبان برادری اونچ نیچ سمیت تمام تر تعصبات
کے ناموں پر اس کے غریب عوام کو ایک قوم نہیں بننے دیا گیا جس کا خمیازہ
پانی ‘ صحت ‘ تعلیم ‘ خوراک ‘ چھت کی محرومیوں کے ساتھ آج تک بھگت رہے ہیں
مگر ڈیڑھ عشرے سے بدلاؤ کا سلسلہ آگے بڑھ رہا ہے جس کا اظہار جاری سال کے
عام انتخابات میں مذہب اور لسانیت سمیت لوٹوں کے بتوں کو پاش پاش کر دیا
اور مخالفت برائے مخالفت عدم برداشت کی مکاریوں کا بھی زور ٹوٹ رہا ہے
اگرچہ ساز باز کرنے والے ہار ماننے کو تیار نہیں ہیں مگر یہ حقیقت کو کب تک
روکیں گے جس کی آبادی کا 65 فیصد پندرہ سے 35 سال تک نوجوانوں پر مشتمل ہے
یہ گرتی ہوئی دیواروں کو گرا کر ہی دم لے گی مگر دوسری طرف بھارت میں
سیکولر آئین کے باوجود متعدل اور حقیقت پسندانہ ترقی پسند انسانیت کے فکر و
عمل کا زوال جاری ہے ‘ جہاں ماضی کے پاکستان کی طرح مذہب مسلک ‘ علاقہ ‘
زبان ‘ تعصبات ‘ نفرتوں کے بت زور آور ہو چکے ہیں جس کے باعث بنگلہ دیش بنا
تھا وہ سب کچھ بھارت کے اندر برہمن سامراج مائنڈ سیٹ نے اس قدر طاقت ور بنا
دیا ہے کہ پاکستان میں آبادی کے کنٹرول ‘ ترقی ‘ خوشحالی اور عوام کی
آسودگی کی شعوری دباؤ طاقت بنتا جا رہا ہے حتیٰ کہ چیف جسٹس بھی آبادی
کنٹرول مارچ کا پیغام عام کر رہے ہیں اور بھارت میں ہندو دھرم کے نام پر بی
جے پی کے انتہاء پسند دہشت گرد ونگز ہر ہندو کو کم از کم چار بچے لازمی
پیدا کرنے کے تشدد و نفرت کی بنیادوں پر سارے خطے اور دنیا پر قبضے کے خواب
دکھا رہے ہیں جس کی آبادی کی اکثریت پانی ‘ صحت ‘ خوراک ‘ تعلیم ‘ چھت جیسی
انسانی ضرورت سے محروم کیڑوں مکوڑوں کی زندگی بسر کر رہی ہے ‘ اس کو مسلم
عیسائی ‘ سکھ ‘ بدمت سمیت تمام دیگر مذاہب کے ماننے والوں کو ہندو بنانے یا
جان سے مار دینے کے مشن کو مذہبی فریضہ بنا کر وحشت درندگی کا راج عام کر
دیا گیا ہے جس کے عوام جانوروں کے جنگل سے زیادہ درد ناک نفسیات کے تابع کر
دیئے گئے ہیں ایسے میں ترقی خوشحالی کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے عام آدمی کو
تمام بنیادی سہولیات کا حق دار جینے اور جینے دو کے انسانی یقین عمل کو
تباہی بربادی سے بچانے اور ایٹمی ہتھیاروں کو کھلونوں کی طرح استعمال کر کے
سب کچھ ملیا میٹ ہونے کے خطرا ت کو مٹانے کے لیے ضروری ہے ان ممالک کو
ایٹمی کیمیائی ہتھیاروں کی فروخت بند کرے ۔اقوام عالم خصوصاً بڑی طاقتیں
اور مہذب اقوام دونوں ممالک میں اناسنیت کے فلسفے کی بالادستی اور نفرت و
تشدد کے خاتمے کی سوچ فکر کو پروان چڑھانے والوں کو شامل سفر کرتے ہوئے
مذہب و تعصبات کے نام کو استعمال کرنے کے اسباب کے خاتمے میں منصفانہ فیصلہ
کن کردار ادا کریں اور سب سے پہلے کشمیریوں کو آزاد قوموں کی طرح ان کا
بنیادی انسانی حق ‘ حق خودارادیت دلا کر یورپی یونین کی طرح باڈر کے نشانات
وجود کے قائم دائم رکھتے ہوئے جنگ جدل ‘ خون ریزی ‘ نفرتوں کے خوف سے نجات
دلائیں ‘ ورنہ طاقت کی جنگ ساری دنیا کو آگ بن کر جھلسا دے گی ۔
|