چین کے دورے پر روانہ ہونے سے ایک دن پہلے وزیر اعظم
عمران خان کو قوم سے خطاب کرنا پڑا انکا کہنا تھا کہ ایک چھوٹا سا گروپ ملک
میں انتشار پھیلارہا ہے ہمیں اس چھوٹے گروپ سے نمٹنا آتا ہے لوگ کسی کے
ہاتھوں استعمال نہ ہوں ۔ ان کی غیر ذمہ دارانہ تقریر اس سب کی علت بنی ہے
ان کا طرز تخاطب کہ یہ چھوٹا سا طبقہ ہے ۔وزیر اعظم عمران خان کو پہلے تو
یہ فیصلہ کرنا چاہیے کہ وہ وزیرِ اعظم ہیں یا وزیرداخلہ ؟ کیونکہ مجھے یہ
لگتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو وزارتِ داخلہ کا قلمدان دے کر وزیرداخلہ سمجھ رہے
ہیں انہیں اپنے وزارتِ عظمیٰ کے منصب کا احساس ہی نہیں۔اب جب میں کالم لکھ
رہا ہوں تو وزیر اعظم چین پہنچ چکے ہیں اور انہیں پاکستان میں چین کے مقرر
کردہ سفیر نے رسیو کیا ہے ۔ ملک میں انتشار اور خلفشار کا سر اٹھانے والا
آسیہ بی بی کی بریت کا فیصلہ لوگوں میں ہیجان پیدا کئے ہوئے ہے امتحانات،
تھیسیس ،Viva سب التو اء کا شکار ہوچکے ہیں معمولات زندگی مفلوج ہوچکے ہیں
تین روز موبائل فون سروس بند رہی ۔ اتنے حساس معاملے کو ملک کا وزیر اعظم
خود ملٹی ٹاسکنگ بن کر کیوں حل کرنے کی ناکام کوششیں ہانک رہا ہے؟ ملک میں
ایک وزیرداخلہ کا باقاعدہ وزیر کیوں نہیں ؟۔ا ب تک کی اطلاعات کے مطابق
مذاکرات ناکام رہے لیکن مجھے افسوس اس بات پر بھی ہے کہ چائنہ روانہ ہونے
سے قبل مذاکرات کو وزیر اعظم خود دیکھتے رہے جب کہ دھرنے والوں کی مذاکراتی
کمیٹی میں خادم رضوی شریک نہیں تھے، تو ملک کے وزیراعظم نے اس معاملے کو
طول کیوں دی انہیں چاہیے تھا کہ اپنی گائیڈلائن پر عمل کرواتے۔ اس انتہائی
حساس تفصیلی فیصلے کو بغور پڑھنے کے بعد ماہرین کو اس میں کئی سقم نظر آئے
جن کو ایڈریس کیا جانا انتہائی ضروری ہے تعزیرات پاکستان 295 c کا اطلاق جب
ہوتا ہے تو معافی کی کوئی گنجائش نہیں نکلتی تاہم فیصلے میں الجھاوٗ دئیے
گئے ہیں بات واضح طور پر نہیں بتائی گئی گڈٖمڈ کر کے حقائق اور وجوہات لکھی
گئی ہیں ۔عمران خان پر دکھ یہ ہے کہ وہ ملکی معاشی صورتحال کو بہتر کرنے کے
لئے کاوشیں کر رہے ہیں لیکن اس معاملے میں کودنے کی انہیں جلدی کیا تھی؟
حکومت خاصی کنفیوژن اور تذبذب کا شکار رہے ۔میڈیا بلیک آوٗٹ کردیا گیا
پنجاب حکومت کہتی ہے کہ امن سے مذاکرات ہونگے جبکہ وفاقی حکومت عجیب تڑیوں
اور دھمکیوں پر اتری ہے ای سی ایل میں ملزمہ کا نام ڈالنے کے حوالے سے بھی
بہت گومگو ہے وفاق کا کہنا ہے ایسا نہیں ہو سکتا جبکہ پنجاب حکومت کی
مذاکراتی ٹیم کہتی ہے کہ نام ای سی ایل میں ڈالا جائے گا فیصلے کے خلاف
حکومت اپیل کرے گی جبکہ وفاقی حکومت اس سب کی تردید کرتی ہے ۔عمران خان کی
حکومت کے 100 دن پر تو بات نہیں کرتا لیکن انہوں نے خود اپنی حکومت میں
تابوت ٹھوکنے والے بٹھائے ہیں۔ تاہم مذہبی پیشواوٗں کی جانب سے بہتان طرازی
بھی قابل مذمت ہے انہوں نے جو زبان فوج کے بارے میں کہی اس کی مذمت کرنی
چاہیے کیوں کہ پاک فوج میں سب سچے عاشق رسول ہیں۔ اس طرح سے قوم کو شخصیات
کے حوالے سے اکسانا غلط ہے اور ملک میں افراتفری اور انارکی کے مترادف ہے۔
آسیہ بی بی کے معاملے پر عالمی دباوٗ سامنے آیا آخر کیا وجہ ہے کہ
انٹرنیشنل پاورز ،ٹائکونز گستاخی کرنے والے کو اپنے سر پر چڑھانے کے
پاکستان کے سر پر چڑھ دوڑتے ہیں اور اپنا مقاصد میں کامیاب بھی ہوجاتے
ہیں۔کیا ہمارا جذبہ ایمانی اتنا ہی کمزور ہوگیا ہے کہ یورپی یونین کا کمشنر
آفیشل پاکستان آئے اور جی ایس پی پلس اور تجارتی رعائتیں دے جس کے لئے شرط
آسیہ بی بی کی رہائی رکھے؟ جب عوام میں عشاق کا سمندر ہے تو کیسے یہ ملک
میں انتشار پھیلانے کی سازشیں خطرے کی جرس بن سکتی ہیں؟۔ مجھے ملزمہ سے
تاسف نہیں ہے لیکن یہ بھی ہو سکتا ہے فیصلہ میرٹ پر ہو اور ضرورت سے زیادہ
بیرونی مداخلت اس معاملے کو اتنا متنازعہ بنا رہی ہو۔ عمران خان کو چاہیے
کہ افہام و تفہیم سے اس معاملے کا حل نکالنے کے احکامات صادر فرمائیں
کیونکہ یہ ہمارا ملک ہیں ہم سب مسلمان ہیں سب ہی نبی کریم ﷺ پر فِدا ہیں ان
کے امتی ہیں لہٰذا کسی کو یہ اختیار نہیں کہ وہ فتوے لگاتا پھرے یا ایمان
پر سوال کھڑے کرتا رہے۔عمران خان کو مستقل میچور رہنا ہوگا وہ ایک یبوست
شاخ پر بیٹھے ہیں جو مرجھائے جا رہی ہے حالانکہ ابھی نئی نئی حکومت ہے
انہیں چاہیے کہ جذبات سے کام لینا چھوڑ دیں اور معاملات کو حل کرنے کے لئے
توقف اور غور وحوض کرلیا کریں۔ انہیں مخالفین سے اقناع رکھنے کا شوق ہے تو
ضرور رکھیں لیکن لب و لہجے کو سخت نہیں رکھیں ، وزیر اعظم اب بڑے ہوجائیں
کیونکہ بڑے فیصلے ملک کی بقاء کے لئے ناگزیر ہیں۔ |