آج کل پرائم منسٹر صاحب اور وزراء کی باتیں بھی سنیں تو
دل کو یقین نہیں آتا ، اتنی حقیقت پسندی اور پختگی ، ریاست ، ریاست کے
اداروں اور املاک کی اہمیت اور درد ۔ دل کہہ اٹھتا ہے کیا بات ہے۔
ابھی خوشی اپنا پورا رنگ نہیں جمائی ہوتی کہ سوشل میڈیا کوئی ایسا وڈیو کلپ
لا سامنے مارتا ہے کہ ان کی تمام باتیں مضحکہ خیز لگنے لگتی ہیں۔
چونکہ ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا اور پچھلے پانچ سالوں میں ان کی کارستانیوں
کے نقوش ابھی قوم کی Short term memory میں ہی ہیں اور کہیں نہ کہیں سے سر
اٹھا لیتی ہیں۔
وقت بدلتا تو ہے مگر اپنی یادیں ساتھ ہی رکھتا ہے۔ انسان کا ماضی اس کے
سائے کی طرح پیچھے پیچھے چل رہا ہوتا ہے۔
یاد ماضی عذاب ہے یا رب
چھین لے مجھ سے میرا حافظہ
کہیں دائیں بائیں سے آواز آتی ہے۔
کیا بھول گئے ہیں وہ سب کچھ ، وہ شہروں کو بند کرنا ، پارلیمنٹ ، پی ٹی وی
، سرکاری اہلکاروں اور اداروں پر حملے۔
معافی نہیں مانگنا چاہتے نہ مانگیں کم از کم رویے سے ندامت کا اظہار ہی کر
دیں۔
میں سمجھتا ہوں بڑی ہمت ہے ان کی کہ ان سب یادوں اور ندامتوں کے ساتھ بڑے
تفخرانہ اور دلیرانہ انداز میں اس رویے اور لہجے کا دامن ابی بھی نہیں
چھوڑا۔
اچھا کام اچھا ہی ہوتا ہے اس کی تعریف بھی کرنی چاہیے ۔ حکومت نے احتجاج
اور دھرنوں کے دوران سرکاری اور پرائیویٹ املاک کو نقصان پہنچانے کا تخمینہ
اور شواہد اکٹھے کرنے کے لئے ایک سیل بنا دیا ہے۔ اور اعلان کیا ہے کہ کسی
کو معاف نہیں کیا جائے گا ۔ اس طرح کے رویے قابل برداشت نہیں ہیں۔
میں تو کہتا ہوں کہ صرف اس دھرنے اور احتجاج ہی نہیں بلکہ بدعنوانی کی طرز
پر پچھلے پانچ سالوں میں ہونے والے تمام نقصانات کا ریکارڈ اور ذمہ داران
کا ڈیٹا حاصل کیا جائے اور ان مذاق اڑانے والوں کو اپنی پختگی اور حقیقت
پسندی کا یقین دلا دیا جائے۔
پیلپلز پارٹی اور مسلم لیگ نے اس دفعہ بہت ہی سنجیدہ اور پختہ سوچ کا
مظاہرہ کیا ہے اور امید ہے کہ پی ٹی آئی کو بھی احساس ہوگیا ہوگا۔
رحال ان دھرنوں اور احتجاجات کا یہ جاہلانہ ، غیع سنجیدہ اور غیر منصفانہ
انداز حتم ہونا چاہیے اور یہ تب ہی ختم ہوسکتا ہے جب عوام اس کی حوصلہ شکنی
کریں اور حکومت ذمہ داران کو قانونی شکنجے میں لائے۔
|