رشید احمد نعیم مرکزی صدر آئی سی سی پاکستان (انویسٹی
گیٹیو کونسل آف کالمسٹ پاکستان ) اور پیارے بھائی آفاق احمد خان ( بانی
رائٹرز ویلفیئر فاؤنڈیشن اینڈ ہیومین رائٹس پاکستان) کی خصوصی دعوت پر بندہ
کو غازی ویلفئیر فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام پہلی قومی رائٹرزتربیتی ورکشاپ
منعقدہ خانیوال جو کہ اکیس اکتوبر بروز اتوار ہوئی میں جاننے کا اتفاق ہوا
کیونکہ مجھے شیخوپورہ سے جانا تھا او ر پروگرام صبح نو بجے اسٹارٹ ہونا تھا
اس وجہ سے میں بیس اکتوبر رات کو ہی عازم سفر ہوگیا۔ رات ساڑھے بارہ بجے کے
قریب میں خانیوال پہنچا۔ ابھی اسٹیشن پہ ٹرین پہنچی ہی تھی کہ آفاق بھائی
نے مجھے لینے کے لئے بچہ بھیج رکھا تھاجو مجھے لے کر رہائش گاہ تک پہنچا
جہاں ادب و صحافت کے نامور لوگ جناب ابن نیاز ،تنزیل نیازی اور آفاق احمد
خان نے نا چیز کا پرتپاک استقبال کیا جن کی محبتوں کا مقروض ہوں کیونکہ
استقبال سے لے کر مہمان نوازی تک میرے دوستوں نے بندہ کی خاطر داری میں
کوئی کسر اٹھا نہ رکھی ۔علیٰ الصبح جب میری آنکھ کھلی توآسمان ادب پر
جگمگانے والے ادباء کی ضوفشانی سے میری آنکھیں چمک اٹھیں ان ستاروں میں
نمایاں بچوں کی دنیا کے مدیر اور صاحب طرز افسانہ نگار شہباز اکبر الفت اور
بیسیوں کتابوں کے مصنف، نامور محقق اور دانشور جناب نوراﷲ رشیدی صاحب
نگاہوں کے سامنے تھے جن سے مل کر میری صبح اور بھی سہانی ہو گئی انہیں
لمحات میں ایک ایسی شخصیت سے بھی متعارف ہوا جو کہ قلم سے تکلم کا ہنر
جاننے کی وجہ سے معروف ہیں مجھے یہ ہرگز علم نہ تھا کہ قلم سے تکلم کا ہنر
جاننے والا لکھاری اسی قلم سے اپنے قبیلے یعنی قلم قبیلے کی شہہ رگ بھی قلم
کر ڈالے گا خیر اپنا اپنا ظرف ہوتا ہے ۔سو بات ہورہی تھی صبح ہوتے ہی جن
لوگوں سے میرا تعارف ہوا وہ اپنی اپنی فیلڈ کے منجھے ہوئے بے پناہ صلاحیتوں
سے مالا مال لوگ تھے ۔مجھ جیسے طفل مکتب کو ان کی ہمراہی بہت کچھ دے گئی
۔اکیس اکتوبر ۲۰۱۸ء بروز اتوار صبح دس بجے قریب غازی رائٹرز فاؤنڈیشن اینڈ
غازی ہیومن رائٹس فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام میونسپل ہال خانیوال میں پہلی کل
پاکستان رائٹرز تربیتی ورکشاپ کا باقاعدہ آغاز ہوا ۔شروع میں کمپیئرنگ کے
فرائض سلیم یوسف بھائی کے سپرد تھے جنہوں نے تلاوت قرآن مجید فرقان حمید
اور نعت رسول مقبولﷺ کے بعد راقم کو اسٹیج پرکمپیئرنگ کے فرائض کی ادائیگی
کے لیئے مدعو کیا ۔پاکستان بھر سے آئے ہوئے ادباء اور شعراء نے اتنی
گرمجوشی اور خلوص سے استقبال کیا کہ میں انکا مقروضِ اخلاص ہوں ۔میرا ساتھ
دینے کے لئے ہزاروں خوبیوں سے مالا مال شاعرہ ،ادیبہ ،اور کالم نویسہ عمارہ
کنول موجود تھیں جنہیں میں نے بلایا تا کہ وہ میرا ساتھ دے سکیں انہوں نے
جس مہارت اور خوبصورتی سے پروگرام کو چلانے میں میرا ساتھ دیا کہ میں انکی
صلاحیتوں کی داد دیئے بغیر نہ رہ سکا مہمان خصوصی جناب سجاد جہانیہ جیسے
افق ادب کے ماہتاب تھے جو اپنی مکمل تابانیوں کے ساتھ اسٹیج پر جلوہ افروز
ہوئے ،صدارت ماہر اقبالیات اور صاحب طرز شاعر جناب زاہد شمسی صاحب نے کی جو
حقیقت میں آسمان ادب کا شمس ہیں وہ اپنی نشست پر تشریف فرما ہوئے ایسے بڑے
لوگوں کی معیت میں پروگرام کو چلانا کسی اعزاز سے کم نہیں کم از کم میرے
جیسے طفل مکتب کے لئے ۔اس تربیتی ورکشاپ کا آنکھوں دیکھا حال تو محترم سجاد
جہانیہ صاحب نے بڑے خوبصورت پیرائے میں لکھا ہے جس پر میں انکا ممنون احسان
ہوں آئی سی سی پاکستان کی ایک رائٹر ام حبیبہ نے بھی اس تربیتی ورکشاپ پہ
کالم لکھا ہے جو مختلف اخبارات کی زینت بنا مگر ایک لکھاری صاحب جن کا میں
پہلے ذکر کر آیا ہوں کہ انہیں قلم سے تکلم کرنے پر ملکہ حاصل ہے نہ جانے اس
پروگرام کی رپورٹ لکھ کر موصوف نے قلم سے قلم قبیلہ کے سر قلم کرنے کی
ناکام سعی کیوں کی؟؟؟ ۔موصوف اپنے تئیں شائد خود کو ریاست قلمی کا مطلق
العنان راجہ سمجھتے تھے اور یہاں کچھ ایسا ہوا کہ انہیں لگا جیسے انکی
راجدھانی کو کوئی خطرہ لا حق ہے وہ دوران پروگرام بھی اس تربیتی ورکشاپ کو
کسی مکینک کی ورکشاپ سمجھتے ہوئے کبھی ریڈی ایٹر کو کاربوریٹر اور کبھی کلچ
پلیٹس کو گئیر بکس میں بدلنے کی کوشش کرتے رہے ۔ مجھے بالکل بھی یہ علم
نہیں تھا کہ گذشتہ سالوں میں پروگرام کی کمپیئرنگ وہ موصوف کرتے رہے ہیں
اور کیونکہ میرا خانیوال میں یہ پہلا پروگرام تھا جس میں شرکت کرنے میں ایک
طویل مسافت طے کر کے پہنچا تھا محترم آفاق احمد خان نے ایک مہینہ قبل مجھے
بتا دیا تھا کہ پروگرام کی نقابت آپ کریں گے لہٰذا میں آفاق بھائی آئی سی
سی پاکستان کے مرکزی صدر رشید احمد نعیم کی محبتوں کی وجہ سے چلا گیا مجھے
قطعی طور پر علم نہ تھا کہ وہیں ایک ایسی شخصیت بھی آ ٹکرائے گی جو خلوص کے
برتن میں کدورت کی ہنڈیا کو اُبال رہی ہے بظاہر موصوف فرماتے ہیں کہ میں
فقیر آدمی ہوں مگر فقر سے کوسوں دور انہوں نے پروگرام مینجمنٹ کمیٹی کا بھی
سارا غصہ راقم پر نکالا ناصرف زبانی بلکہ اس غصے کو اخبارات کی زینت بھی
بنا ڈالا خانیوال کے میونسپل ہال میں موجود سبھی لوگوں نے میرے صحافتی قد
کاٹھ سے بڑھ کر میری پذیرائی کی جو میرے لئے کسی ایوارڈ سے کم نہیں کہ جناب
زاہد شمسی صاحب ، سجاد جہانیہ صاحب ،احتشام جمیل شامی صاحب ،شہزاد عاطر
صاحب ،رشید احمد نعیم صاحب ، اسعد نقوی صاحب ،حاجی لطیف کھوکھر صاحب ، آفاق
احمد خان صاحب ،نور اﷲ رشیدی صاحب ،سعدیہ ہما شیخ صاحبہ،عمارہ کنول
صاحبہ،ابن نیاز صاحب ، تنزیل نیازی ،آر ایس مصطفٰے صاحب ،چوہدری دلاور صاحب
، شہباز اکبر الفت صاحب ، محمد عرفان اور بہت سی قدآور صحافتی اور ادبی
شخصیات نے نا صرف میری کمپیئرنگ کو سراہابلکہ میرے انداز کو بھی بے انتہا
پسند کیا جن پر میں تہہ دل سے ان سب احباب کا ممنون احسان ہوں ۔صرف اورصرف
قلم کے سرخیل میرے اس دوست کو خدا جانے کیا سوجھی کہ میرے کام میں کیڑے
نکالنے پر تلے ہوئے دکھائی دیئے موسوف اپنے قلم سے سر قلم کرتے ہوئے
رقمطراز ہوتے ہوئے لکھتے ہیں کہ مظفر حسین بابر (راقم ) نے پر جوش کمپئرنگ
کی حالانکہ یہ ایک سنجیدہ پروگرام تھا تو جناب من جہاں شعراء موجود ہوں
وہاں دوران کمپئرنگ شعر کہنے پر پابندی ہونی چاہئے کیا ؟جس ہال میں مزاح
نگار موجود ہوں وہاں مزاح کی بات کرنا قابل تعزیر ہے کیا ؟جس ہال میں فنون
لطیفہ سے تعلق رکھنے والے حساس اذہان تشریف فرما ہوں وہاں تالی بجانا یا
بجوانا کفر کے زمرے میں آتا ہے کیا ؟ہاں نازیبا گفتگو ضرور لائق تعزیر ہونی
چاہئے ،کیا میں نے کوئی ایسی گفتگو کی ہے یا ایک جملہ بھی ادب اور صحافت سے
ہٹ کر بولا ہے پھر تو ہے کہ آپ کوئی حد جاری کرتے ہوئے اچھے لگتے ہیں ان
صاحب کا پہلے ایک اخبار میں لکھا ہوا پروگرام کا احوال پڑھا دکھ ہونے کے
باوجود میں حرف شکائت زبان پر نہ لایا بلکہ با قاعدہ فون کر کے ان سے محبت
کا اظہار کیا مگر پھر اگلے ہی دن ایک اور اخبار میں وہی قلم کشی پڑھ کر میں
حیران ہونے کے ساتھ ساتھ گہری سوچ میں پڑ گیا کہ پاکستان بھر سے مجھے بھی
لوگ جانتے ہیں اور مجھ سے پیار بھی کرتے ہیں وہ کیا سوچیں گے میرے بارے میں
کہ میں نے خانیوال میں جاکر کیا کھچ ماری ہے کہ اتنا بڑا لکھاری میرے بارے
میں اور میرے خلاف قلم اٹھانے پر مجبور ہوگیا ۔وہ مہاراج کسی کی توہین کر
کے بعد میں کہتے ہیں کہ میں فقیر آدمی ہوں حالانکہ بالکل بھی ایسا نہیں
ابھی تو میں بتاؤں گا کہ کس کس سے کدورت اس قلم کس کی ۔ہاں میں اپنے بارے
میں کہتا ہوں بقول طاہر جمیل
برائے دشمن جاں بھی یہ خیر اندیش رہتا ہے
میرے سینے میں گویا دل نہیں درویش رہتا ہے
کیونکہ میں نے انکی پہلی غلطی کو نظر انداز کرتے ہوئے انہیں فون کیا جس پر
انہیں دوبارہ پبلش کروانے سے پہلے سو بار سوچنا چاہئے تھا مگر افسوس ایسا
نہ ہو سکا موصوف نے پروگرام کی خامیوں پہ چھاؤنی ڈال لی خوبیاں سرے سے ہی
نظر انداز کر گئے اب ملاحظہ فرمایئے کہ موصوف کو دکھ کس بات کا تھا ۔پہلی
بات یہ کہ اس مرتبہ پروگرام کی باگ ڈور موصوف کے ہاتھ میں نہ تھی جس کی وجہ
سے وہ اپنے چہیتے لوگوں کو نوازنے سے قاصر رہے۔ نمبر ۲وہ پروگرام کے اسٹارٹ
ہی سے پروگرام میں دخل اندازی کرتے رہے پہلی نشست کا آغاز سجاد جہانیہ کی
صدارت اور مہمان خصوصی کی نشست رشید احمد نعیم کے لئے مختص تھی جس کو بابا
قلم کش سرکار نے تبدیل کروایا اور کہا کہ دوسری نشست میں بلا لیں گے رشید
احمد نعیم کو ۔جس بات کو پروگرام کے آرگنائزر ابن نیاز نے محض اس وجہ سے
مان لیا کہ بدمزگی نہ ہونے پائے بمطابق لسٹ جو پروگرام تھا اس لسٹ میں اتنی
کٹنگز کروا دی گئیں کہ مجھ جیسا بندہ بھی ڈبل مائینڈڈ ہوگیا اور سپاس نامے
سے پہلے ایک لیکچر کروا دیا جس کو میں تسلیم کرتا ہوں اسعد نقوی کے خوبصورت
لیکچر کے فوری بعد میں نے اپنے تئیں اس غلطی کو کور کیا اور کہا کہ سکرپٹ
رائیٹنگ پر لیکچر اس لئے پہلے کروایا گیا ہے کہ ایک سکرپٹ ہر پروگرام میں
پڑھا جاتا ہے جسے سپاس نامہ کہا جاتا ہے اب وہ سکرپٹ پڑھیں گے ابن نیاز
،لہٰذا حاضرین نے برا منانے کی بجائے اس بات پر ناچیز کو داد دے رہے تھے جو
موصوف کو ایک آنکھ نہ بھائی ۔ نمبر۳موصوف اپنی رپورٹ میں لکھتے ہیں کہ
دوسری نشست حاجی لطیف کھوکھر صاحب کی کتاب رونمائی کے لئے مختص تھی تو جناب
میرے پاس جو کمپیوٹرائزڈ لسٹ تھی اس میں اس بات کا کہیں ذکر نہ تھا بلکہ اس
میں دوسرے لیکچرز کے بارے ہی میں لکھا ہوا تھا اب جو ایک اور اعتراض کیا کہ
فلاں فلاں بندے کا لیکچر نہیں کروایا گیا تو جہاں لیکچر کے لئے مطلوبہ
شخصیت کو پکارا گیا تو علم ہوا کہ وہ جا چکے ہیں سو اب کیا جا سکتا تھا سو
وقت کو مد نظر رکھتے ہو ئے لیکچرز شارٹ کر دیئے گئے اور ہال میں موجود باقی
شخصیات جنہوں نے لیکچر دیئے انہیں عین موقع پر موضوعات دیئے گئے جن کے ساتھ
سب نے انصاف کیا اور بھر پور لیکچرز دیئے بہر حال میرے لئے یہ ایک یادگار
پروگرام تھا جس نے میرے دامن کو محبتوں سے بھر دیا لہٰذا میں مشکور ہوں
تمام ادبی ستاروں کا جنہوں نے اتنا پیار دیا اور خصوصی طور پر داد تحسین
پیش کرتا ہوں غازی ہیومن رائٹس فاؤنڈیشن کو جنہوں نے اتنی خوبصورت انجمن
سجائی کہ آسمان ادب کے تمام مہ و انجم ایک چھت کے نیچے اکٹھے کئے اور میں
شکر گزار ہوں اپنے اس بڑے لکھاری کا بھی جنہوں نے میری غلطیوں کی نشاندہی
کی اور مجھے حبیب اور رقیب کے چہروں سے شناسائی بخشی ۔
آخر میں اپنے لکھاری بھائی کی نظر محسن نقوی کے شعر کرنے کی جسارت کروں گا
کہ
میں خود زمیں ہوں مگر ظرف آسمان کا ہے
کہ ٹوٹ کر بھی میرا حوصلہ چٹان کا ہے
برا نہ مان میرے حرف زہر زہر سہی
میں کیا کروں کہ یہی ذائقہ زبان کا ہے
|