خزاں پرستوں نے وار کر کے۔۔شجر وفا کا گرا دیا

نماز عشاء کا وقت ہوچکا تھا وضو کے لئے بڑھنے ہی لگا تھا کہ میسج موصول ہوا مولانا سمیع الحق پر قاتلانہ حملہ ہوا ہے دل سے دعائیں نکلیں کہ اﷲ انہیں جلد ازجلدصحت عطاء فرمائے ۔ابھی میسج پڑھ کر موبائل رکھ کر وضو کی طرف جانے ہی لگا تھا کہ دوسرا میسج آگیا کہ مجاہد اسلام مولانا سمیع الحق زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے داعی اجل کو لبیک کہہ گئے ہیں۔آنکھوں سے بے اختیار آنسو نکل پڑے وہ منظر آنکھوں کے سامنے آنے لگا جب میں نے اس مرد مجاہد کو بڑھاپے کی حالت میں اور بیماری کی حالت میں جلسوں سیمینارزپر خطاب کرتے دیکھا۔طویل گھنٹوں کے لانگ مارچ اور پروگرامز میں ایک نوجوان کی طرح شرکت کرنا ۔مجھے ایسا لگا کہ جمیعت علماء اسلام کے امیر نہیں بلکہ پورے پاکستان کے امیر سمیع الحق شہید ہوگئے ہیں۔یقینا دفاع پاکستان کے لئے مولانا سمیع الحق کی بہت سی خدمات ہیں۔دفاع پاکستان کونسل کے تحت ہر جماعت کو ساتھ لے کر چلے۔اللھم اغفرلھم وارحمھم

مولانا سمیع الحق 18 دسمبر 1937 میں اکوڑہ خٹک میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد محترم کا نام مولانا عبد الحق تھا۔ انہوں نے 1366 ھ بمطابق سال 1946 ء میں دار العلوم حقانیہ میں تعلیم شروع کی جس کی بنیاد ان کے والد محترم نے رکھی تھی۔ وہاں انہوں نے فقہ، اصول فقہ، عربی ادب، منطق، عربی صرف و نحو، تفسیر اور حدیث کا علم سیکھا۔ ان کو عربی زبان پر عبور حاصل تھا لیکن ساتھ ساتھ پاکستان کی قومی زبان اردو اور علاقائی زبان پشتو میں بھی کلام کرتے تھے۔

اپنے والد گرامی کے بعد جامعہ حقانیہ کے مہتمم اور چانسلر رہے۔ ملک کے طول و عرض میں آپ سے فیض یاب ہونے والے طلباء کی کثیر تعداد ہے علاوہ ازیں ملا عمر سمیت کئی افغان بھی آپ کے تلامذہ میں شامل ہیں۔ روس افغان جہاد میں آپ کے کردار سے کسی کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ آپ کو ''طالبان کا باپ'' کا لقب بھی دیا گیا۔ اسی مناسبت سے جنرل ضیاء الحق مرحوم سے بھی خاص مراسم تھے۔ افغانستان پر امریکی اور اتحادی افواج کے حملہ کے وقت بھی آپ نے طالبان کی حمایت کا اعادہ کیا۔ وہ افغانستان میں طالبان کے دوبارہ بر سر اقتدار آنے کے حامی تھے۔ انہوں نے ایک موقع پر کہا ’انکو صرف ایک سال دیجئے اور وہ سارے افغانستان کو خوشحال بنا دینگے سارا افغانستان ان کے ساتھ ہو گا، ایک بار امریکی چلے جائیں تو یہ ایک سال کے اندراندر ہو گا، جب تک وہ وہاں ہیں، افغانوں کو اپنی آزادی کے لیے لڑنا ہو گا‘، انہوں نے کہا، ’یہ آزادی کے لیے ایک جنگ ہے اور یہ تب تک ختم نہیں ہو گی جب تک بیرونی لوگ چلے نہ جائیں۔‘
وہ ایک محب وطن پاکستانی تھے اور دفاع پاکستان کونسل کے چئرمین کی حیثیت سے ملک میں ہونے والے اہم واقعاتی اور حادثاتی مواقع پر رائے عامہ ہموار کرنے کا ذریعہ بنتے۔ دفاع پاکستان کونسل میں ان کے کردار کی اہمیت اس بات سے بھی نمایاں ہے کہ ان کے پر ملال سانحہ ارتحال پر ہندوستان کے ٹی وی چینلز نے اپنی رپورٹس میں خصوصیت کے ساتھ اس کا ذکر کیا۔ پاکستان میں گزشتہ دہشتگردی کی لہر کے دوران ٹی ٹی پی سے حکومتی مذاکرات کے لیے بھی اہم کردار ادا کرنے کی پیشکش کی۔ ضعیف العمر کے باوجود یہ ملک و ملت کا درد ہی تھا جو ان کو چین نہ لینے دیتا اور وہ عمر کے اس حصے میں بھی ایک متحرک سیاسی کردار ادا کرتے رہے اور ایسے مرد قلندر کہ نہ عہدے کی طلب نہ جاہ و حشمت کی خواہش۔ غرض نفسا نفسی کے اس دور میں قرون اولی جیسی ملک و ملت کی تڑپ آپ میں نظر آتی تھی۔

آپ کی ملی خدمات میں عوامی فلاح کے لیے عوام الناس کی رہنمائی کرتا پولیو ویکسین سے متعلق فتوی بھی ہے جب تحریک طالبان پاکستان کے پولیو کے حفاظتی قطرے پلانے کو غیر اسلامی قرار دینے پر اور لوگوں کو اسے اپنے بچوں کو پلانے سے روکنے پر مولانا سمیع الحق صاحب نے 9 دسمبر، 2013ء کو پولیو کے حفاظتی قطروں کی حمایت میں ایک فتوی جاری کیا۔ اس فتوے کے مطابق ’مہلک بیماریوں کے خلاف حفاظتی قطرے ان کے خلاف بچاؤ میں مددگار ہوتے ہیں اور یہ بات تحقیق سے ثابت ہو چکی ہے جس کو نامی گرامی طبی ماہرین نے منعقد کیا ہے۔ اور اس (تحقیق) میں کہا گیا ہے کہ ان بیماریوں سے بچاؤ کے قطرے کسی بھی طرح سے مضر نہیں ہیں۔‘

غرض آپ کی زندگی ملک و ملت کی خدمت کے لیے وقف تھی جس پر ملک دشمن عناصر شدید جز بز تھے۔ آپ کو 2 نومبر 2018 کی شام راولپنڈی میں خنجروں کے وار کر کے شہید کر دیا گیا۔ آپ کی شہادت ملک و قوم کے لیے تکلیف دہ سانحہ اور ناقابل تلافی نقصان ہے۔ اور پاکستان ایک مدبر عالم دین، زیرک سیاستدان اور محب وطن شہری سے محروم ہو گیا ہے۔ ان کی ناگہانی شہادت کسی ایسی ہی دشمن ملک کی سازش کا شاخسانہ ہے جس کا اشارہ اس بات سے بھی ملتا ہے کہ آپ کی شہادت کے کچھ ہی گھنٹے بعد جنرل حمید گل مرحوم کے صاحبزادے عبداﷲ گل پر بھی قاتلانہ حملہ کیا گیا جس میں وہ اﷲ تعالی کی خصوصی تائید سے محفوظ رہے۔ عبداﷲ گل بھی دفاع پاکستان کونسل کے سر گرم رہنما ہیں۔ یقینا یہ کام ان عناصر کا ہے جو پاکستان کو غیر مستحکم کرنا چاہتے ہیں اور ہمارے قومی دشمن ہیں۔ اگرچہ ہم ایک بہادر قوم ہیں اور اس طرح کے ہتھکنڈوں سے خوفزدہ ہونے والے نہیں ہیں تاہم ایسے عناصر کی جلد شناخت اور سرکوبی نہایت ضروری ہے تاکہ ملک و ملت کو کسی بڑے سانحہ سے دوچار نہ ہونا پڑے۔ان کی خبر کا سن کر بھی بہت تشویش لاحق ہوئی کہ دفاع پاکستان کونسل کے دوسرے رہنماء کو نشانہ بنایا گیا ۔ان سے رابطہ کرتا رہا لیکن نمبر مسلسل مصروف جارہا تھا پھر صبح ان کا میسج موصول ہوا الحمداﷲ میں خیریت سے ہوں اﷲ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ مجھے نئی زندگی عطاء کی اور مجھے معلوم ہوا ہے اس کے پیچھے بیرون ملک ایجنسیوں کا ہاتھ ہے۔

مولانا سمیع الحق ایک قیمتی ستارہ تھا کیونکہ ان کے پاس علم حدیث کا ایک خزانہ تھا۔ان کی شہادت پر ہر شخص غمگین ہے ۔ان کی شہادت پر وزیر اعظم عمران خان،فواد چوہدری،سرا ج الحق،مولانا فضل الرحمان،نواز شریف،خواجہ سعد رفیق،پروفیسر حافظ محمد سعید سمیت دینی و سیاسی رہنماؤں نے افسوس کا اظہار کیا اور کے پی کے حکومت نے ایک روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے۔

KhunaisUr Rehman
About the Author: KhunaisUr Rehman Read More Articles by KhunaisUr Rehman: 33 Articles with 23066 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.