ایک طرف زمین بوس ہوتی مُلکی معیشت کو سہارا دینے کے
لئے وزیراعظم عمران خان کبھی سعودی عرب تو کبھی چین جیسے اپنے قریبی ممالک
سے اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کے تعاون کے لئے دوروں پر ہیں۔ تو وہیں ،تین
چار روزہ پُر امن احتجاج کی آڑ میں شرپسندوں نے خزانے کو اربوں کا نقصان
پہنچاکر مُلک اور قومی معیشت کو اُسی بدتر پوزیشن میں لاکھڑاکیا ہے ۔جہاں
پہ وزیراعظم عمران خان چھوڑ کر دوست مُلک چین کے دورے پر گئے تھے۔
غرض یہ کہ شرپسندوں نے مُلک دُشمن اپنی کارروائیوں سے یہ ثابت کردیاہے کہ
اِنہیں قوم اور مُلکی معیشت کی تباہی تو قبول ہے ،مگر بہتری پسند نہیں ہے۔
پچھلے دِنوں اِسی لئے شرپسندوں نے تین روزہ دھرنا ہنی مون کی آڑ میں مُلک
کو مفلوج کرکے رکھا دیا اور اِن دِنوں میں مُلک کو 170ارب کا نقصان پہنچا
کر ثوابِ دارین حاصل کیا ۔
اَب ایسا تو ہوگا؟ایسے کاموں میں، جب کوئلے کی دلالی میں ہاتھ کالا کرہی
لیا ہے۔ تو پھر انجام کا کیا ڈرناہے؟اَب آگے جو ہوگا دیکھتاجااور شرماتا جا،
کیوں کہ جو اُنہوں نے کیا، اُنہیں اِس کا انداز تھا، مگر جو تم نے کیا ؟شاید
تمہیں پتہ ہی نہیں تھا کہ تم جذبات میں کیا کرنے والے ہو۔ مگر اَب شرپسندوں
کے خلاف سرکار جوکرنے والی ہے، یقینا یہ آئندہ ایسا ویسا کچھ بُرا کرنے
والوں کے لئے نشانِ عبرت سے کم نہیں ہوگا۔
تاہم جیسا کہ پچھلے دِنوں وفاقی حکومت کی نمائندگی کرتے ہوئے وزیراطلاعات
ونشریات چوہدری فوادنے آسیہ بی بی کی رہائی کے خلاف مذہبی جماعتوں کی جانب
سے تین چار روز تک مُلک کو مفلوج کرنے کے لئے دیئے گئے دھرنے کے خاتمے کے
لئے ہونے والے معاہدے کو عارضی حل قراردے دیاہے۔
جبکہ اُنہوں نے ایک غیر ملکی نشریاتی ادارے کو انٹر ویو دیتے ہوئے یہ بھی
دوٹوک الفاظ میں واضح کرتے ہوئے کہا ہے کہ جو کچھ کیا وہ صرف فائر فائٹنگ
تھا‘‘اِس موقع پر ایسا لگتاہے کہ جیسے وہ یہ کہنا چاہ رہے تھے کہ پچھلے
دِنوں مُلک بھر میں جو کچھ ہوا ایسے مسئلے کے تدارک کے لئے یہ دائمی حل
نہیں ہے، اُنہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ انتہاپسندی اور پُرتشدداحتجاجی
مظاہروں کا مستقل حل ڈھونڈنا ہوگا، اَب جس کے لئے لازمی طور پر حکومت کو
اپوزیشن کی جماعتوں کو بھی اعتماد میں لے کر ایسی قانون سازی کرنی ہوگی کہ
آئندہ خواہ مذہبی یا سیاسی جماعت کسی ایشو پر اپنے سیاسی یا مذہبی جذبات کو
تقویت پہنچانے کے لئے دھرنا ہنی مون کا سلسلہ نہ شروع کرے، اِس کے ساتھ ہی
حکومت ایسے مواقعوں پر سیاسی مصالحتوں سے کام لینے والی پالیسی بھی ختم کرے
اور اُن عناصر کو کڑی سزائیں بھی دے جنہوں نے اداروں کے سربراہان کے خلاف
نازیبازبان استعمال کی اور شہریوں کو اُکساکر اسلحہ سے لیس ہجوم اور ڈنڈا
بردارٹولیوں کو سڑکوں پر لاکر مُلک کو مفلوج کیا، تو وہیں شر پسند عناصر نے
مُلکی معیشت کا تین روز میں 170ارب کا نقصان کیا۔ اورقومی شاہراہوں ، ہا ئی
ویز اور موٹرویز پر کئی اربوں کی سرکاری اور نجی املاک کو تباہ و برباد
کرکے الگ نقصان پہنچایا۔
قوم قوی اُمید رکھے کہ اَب وقت آگیا ہے کہ حکومت یقینی طور پر شر پسندوں کو
کٹہرے میں لائے گی اور پُرامن احتجاج کی آڑ میں املاک کو نقصان پہنچانے
والوں کے خلاف مُلک بھر میں فی الفور کریک ڈاؤن کرنے کا حکم دے گی ۔تاکہ
پُرامن دھرنے کی آڑ میں نجی اور سرکاری املاک کو بے دردی سے نقصان پہنچانے
والوں کو کیفرکردار تک پہنچا کراِنہیں دوسروں کے لئے نشانِ عبرت بنائے گی۔
تاہم اِس میں کو ئی شک نہیں ہے کہ گزشتہ دنوں پُر امن احتجاج کی آڑ میں جو
کچھ کیا گیاہے، آہ...!! اِس کی مُْلکی قانون کسی بھی صورت اجازت نہیں دیتا
ہے ، البتہ، پُر امن احتجاج کی اجازت ہمارے قانون میں ضرورموجود ہے، مگر
پُرامن احتجاج کی آڑ میں جن شرپسندوں نے قومی شاہراہوں ، گلی محلے کی بڑی
چھوٹی سڑکوں کو تین روز تک بلاک کیا۔ اور سرکاری اور نجی املاک کو نقصان
پہنچایا ہے۔ اگر اَبھی حکومت قانون کا دائرہ اِن شرپسندوں کی گردنوں کے گرد
تنگ کرنے سے کنی کترائے، تو پھر حکومت کی شرپسندوں پر ہلکا ہاتھ رکھنے والی
مفاہمت پسند پالیسی پر بھی مُلک کا ایک بڑا پُر امن طبقہ کئی سوالات
اُٹھادے گا۔
اگرچہ، یہاں یہ امر بڑی حد تک حوصلہ افزا ہے کہ کچھ اطلاعات آرہی ہیں کہ
وفاقی حکومت وفاق سمیت چاروں صوبائی حکومتوں میں پی ٹی اے اور سوشل میڈیا
پر مواد اور پُرتشدد کارروائیاں کرنے اور اشتعال انگیزی پھیلانے والوں کی
تصاویر کا بغورجائزہ لے رہی ہے، اور پُرامن دھرنوں کی آڑ میں خزانے کو
اربوں کا نقصان پہنچانے والوں کا محاسبہ کرے گی ۔اِس کے ساتھ ہی کچھ ایسی
بھی خبریں آرہی ہیں کہ املاک کو نقصان پہنچانے پر ہزاروں افراد کے خلاف
مقدمات درج کرلئے گئے ہیں۔ جبکہ سینکڑوں افراد کو گرفتاربھی کرلیاگیاہے۔
جنہوں نے پُرامن احتجاج کی آڑ میں حکومتی رٹ کو کھلم کھلا چیلنج کیا،اور
لوگوں کی جان کو مال کو نقصان پہنچایاہے۔
اَب دیکھتے ہیں کہ حکومت اپنی رٹ کو چیلنج کرنے والے شرپسندوں کوآئین و
قانون کے مطابق کیفرکردار تک پہنچاتی ہے کہ نہیں؟ یا پھریہ خدشتہ سچ ثابت
کردے گی کہ آسیہ بی بی کے غیرمتوقع فیصلے کی طرح یہ کسی کے دباؤ میں آنے کی
عادی بن گئی ہے۔ جو اپنے دعووں اور وعدوں اورآئین او ر قانون کابھی پاس
رکھنے سے عاری ہے ۔جس طرح دھرنابلوائیوں کا قوی خیال یہ ہے کہ آسیہ بی بی
کے پھانسی کے فیصلے کورہائی میں بدلنے کے لئے حکومت پر بیرونی دباؤ
آیاتھاتب ہی آسیہ بی بی سے متعلق ایسا فیصلہ آیاکہ سب ہی شسدررہ گئے۔ کہیں
حکومت آسیہ بی بی کے فیصلے کے بعدپُر امن دھرناہنی مون بنانے کی آڑ میں
پُرتشدد کارروائیاں کرنے والوں کے مقدمات اور گرفتاریوں کے خلاف کڑی سزائیں
دینے کے بجائے کسی دباؤ میں آکراِنہیں پھولوں کی پنکھڑیوں سے سزادے کر نہ
چھوڑ دے۔(ختم شُد) |