دنیا بھر میں صحافیوں کو درپیش مسائل کسی سے بھی
پوشیدہ نہیں ہیں ۔ عامل صحافیوں کو جہاں فیلڈ ورک میں متعدد دشواریوں کا
سامنا کرنا پڑتا ہے تو بیشتر لکھاری حکومت مخالف تنقید کی وجہ سے زیر عتاب
آجاتے ہیں۔ اس وقت دنیا بھر میں سعودی صحافی خاشقجی کے قتل کے باعث سعوی
عرب پر سخت تنقید و دباؤ ڈ النے کا سلسلہ جاری ہے ۔امریکا سمیت مغربی بلاک
کے بیشتر ممالک اور کمپنیوں نے سعودی عرب عالمی سرمایہ کانفرنس کا بائیکاٹ
کیا ۔یہ ایک غیر معمولی عمل تھا جو اختیارکیا گیا ۔ لیکن یہاں دیکھنا یہ ہے
کہ کیا امریکا ، سمیت دیگر مغربی ممالک نے دنیا بھر میں صحافیوں کہ ہلاکتوں
اور انہیں درپیش مشکلات پر اسی طرح کبھی کوئی آواز اٹھائی ہے یا پھر کوئی
سوچی سمجھی کوئی ایسی سازش رچائی جا رہی ہے جس کا مقصد مسلم اکثریتی ممالک
بالخصوص سعودی عرب اور ترکی کو دباؤ میں رکھنا مقصود ہے۔ واضح رہے کہ سعودی
تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ اور پبلک پراسیکیوٹر سعود ال مجیب نے گزشتہ روز ترک
پراسیکیوٹر عرفان فدان کے ساتھ 45 منٹ طویل ملاقات کی تھی جس میں سعودی
صحافی کے قتل کے انداز کو پہلی بار باقاعدہ بیان کیا گیا۔تادم تحریر دونوں
ممالک کی تفتیش جاری ہے۔
سعودی صحافی جمال خا شقجی کے قتل پر تجزیئے سے قبل دنیا بھر میں صحافیوں کو
درپیش چند اہم واقعات کا ذکر کرنا مناسب ہوگا ۔ تاکہ سعودی صحافی قتل کے
محرکات کو سمجھنا آسان ہوسکے۔صحافیوں کے تحفظ سے متعلق معروف تنظیم ’ کمیٹی
ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس‘ دنیا بھر میں صحافیوں کو درپیش مسائل کے حوالے سے
تواتر سے رپورٹس جاری کرتی رہتی ہے۔ امریکی تنظیم نے 2011میں ایک رپورٹ
جاری کی تھی جس کے مطابق ایران اور کیوبا وہ ممالک تھے جہاں حکومتوں کی
پالیسیوں پر تنقید کی وجہ سے سب سے زیادہ صحافی ملک چھوڑنے میں مجبور ہوئے۔
تنظیم کے مطابق ان صحافیوں کی تعداُس وقت دنیا بھر میں صحافیوں کی جبری
ہجرت کے حوالے سے ایک بڑی تعداد تھی جو اُس وقت بارہ مہینے کے دوران ملک
بدر ہوئے تھے۔ ان میں بیشتر صحافیوں کو اپنے اہل خانہ کے ساتھ بھی ہجرت
کرنا پڑی۔کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس‘ کی رپورٹ صرف ایران اور کیوبا کے حوالے
سے ہی نہیں تھی بلکہ رپورٹ کے مطابق اُسی برس دنیا بھر سے67صحافیوں کو
بیشتر اپنے خاندانوں سمیت اپنے ممالک سے دربرد ہونا پڑا تھا۔
صحافیوں کے تحفظ سے متعلق امریکہ میں قائم ایک تنظیم نے کہاہے کہ شام میں
مسلح جھڑپوں اور تین دوسرے ملکوں میں ہدف بنا کر صحافیوں کو قتل کرنے کے
واقعات میں نمایاں اضافے کے بعد صحافیوں کے لیے ایک مہلک ترین ملک بن گیا
ہے۔کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس(سی پی جے) کے مطابق اب تک سیکڑوں صحافیوں کو
ان کے پیشہ ورانہ فرائض سے تعلق کی بنا پر ہلاک کیا جاچکا ہے۔ رپورٹ کے
مطابق شام صحافیوں کے لیے خطرناک ترین ملک ثابت ہوا جہاں لڑائی کی کوریج کے
دوران متعددصحافی ہلاک ہوئے۔ جب کہ سی پی جے کے مطابق عراق میں اور مصر میں
بھی متعددصحافی اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران ہلاک ہوئے۔ ترکی، چین اور
مصر اُن ممالک میں سرفہرست ہیں جہاں صحافی جیلوں میں بند ہیں ۔ جو حکومت کی
نظر میں ان کے مخالف ہیں۔ سی پی جے کی طرف سے جاری رپورٹ کے مطابق گزشتہ
سال یکم دسمبر تک 28 ممالک میں 199 صحافیوں کو قید کیا گیا جبکہ گزشتہ سال
یہ تعداد 221 تھی۔ قاہرہ نے 23 صحافیوں کو قید میں رکھنے کی وجہ صدر
عبدالفتح السیسی کے قومی سلامتی کی ''پالیسی' پر' اختلاف رائے قرار دیا
جاتا ہے۔ واضح رہے کہ مصر میں 2012 تک کوئی بھی صحافی اپنے کام کی وجہ سے
جیل میں بند نہیں تھا۔ سی پی جے کا اپنی رپورٹ میں کہنا ہے کہ ایران
صحافیوں کو قید کرنے کے لیے ریاست مخالف الزامات کا استعمال کرتا ہے اگرچہ
ایران میں قید صحافیوں کی تعداد مختلف برسوں کے مقابلے میں کم اور زیادہ
ہوتی رہی ہے۔ اریٹیریا میں بھی صحافیوں کو قید کیا گیا ہے، یہاں تک کہ ترکی
میں بھی14 صحافی قید ہیں۔اسی طرح صحافیوں کے لیے افغانستان مہلک ترین ثابت
ہوا، جب پیشہ وارانہ خدمات بجا لاتے ہوئے، 21 اخباری نمائندے ہلاک ہوئے
تھے۔سال 2017ء میں، افغانستان میں 23 اخباری نمائندے زخمی ہوئے، جب کہ 21
دیگر صحافت سے وابستہ لوگ حملے کا شکار ہوئے۔اپریل 2018 میں افغانستان کے
دارالحکومت کابل میں ہونے والے دو بم دھماکوں میں کئی صحافیوں سمیت کم از
کم 21 افراد ہلاک ہو ئے تھے۔ اے ایف پی نے کہا کہ دوسرا دھماکہ صحافیوں کو
دانستہ طور پر نشانہ بنانے کے لیے کیا گیا تھا۔وزارت داخلہ کے ترجمان نجیب
دانش نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ ہلاک ہونے والوں میں چھ صحافی اور چار
پولیس اہلکار بھی شامل ہیں جبکہ اب تک 45 زخمی ہوئے۔
پاکستان کا شمار بھی صحافیوں کے لیے دنیا کے خطرناک ترین ممالک میں ہوتا
ہے۔فریڈم نیٹ ورک کے مطابق ان ایک سو چھ صحافیوں اور میڈیا کارکنوں میں سے
کم ازکم 72 پاکستانی صحافی ایسے تھے، جو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنے اور انہیں
سر میں گولیاں مار کر ہلاک کیا گیا۔آزادی صحافت کے لیے کام کرنے والی تنظیم
رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز کا کہنا ہے کہ سال 2017 میں دنیا بھرمیں67صحافی
اورمیڈیاورکرزقتل ہوئے جبکہ 326 جیلوں میں قید ہیں۔رپورٹ میں شام صحافیوں
کے لیے خطرناک ترین ممالک میں سر فہرست ہے جبکہ دوسرے نمبر پر میکسیکو
صحافیوں کے لئے خطرناک ملک ہے، شام میں12 اور میکسیکو میں11صحافیوں کو قتل
کیا گیا۔تنظیم کے مطابق سال 2017 میں فلپائن صحافیوں کے لئے ایشیا کا سب سے
خطرناک ملک قرار دیا گیا ہے جبکہ افغانستان، پاکستان اور بھارت بھی سرفہرست
ہیں، پاکستان اور بھارت کا نمبر چوتھا ہے۔بالا سطور میں صحافیوں کے قتل اور
اظہار رائے کی آزادی پر قدغن کے حوالے سے صحافیوں کے تحفظ کے لئے کام کرنے
والی متعدد عالمی رپورٹس ریکارڈ کا حصہ ہیں۔ اگر اسے یہ کہا جائے کہ دنیا
کا کوئی ملک بھی صحافیوں کے تحفظ اور اظہار رائے کی آزادی کے حوالے سے
محفوظ نہیں ہے تو غلط نہ ہوگا ۔
امریکا و دیگر مغربی ممالک کی جانب سے سعودی صحافی کے استنبول میں قائم
سعودی سفارت خانے میں قتل کے حوالے سے سخت بیانات سامنے آئے ۔ امریکا کے
موجودہ رویئے کے برعکس اس کے دوہرے معیار کو دیکھنے کی بھی ضرورت پڑ جاتی
ہے ۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ فلوریڈا میں دوران ریلی میڈیا پر سخت ترین
تنقید کرچکے ہیں۔انہوں نے ریلی میں اپنے حامیوں سے کہا کہ میڈیا سچ نہیں
دکھانا چاہتا اور اپنے’’ ایجنڈے‘‘ پر کام کر رہا ہے۔واضح رہے کہ امریکہ میں
تین سو کے قریب میڈیا اداروں نے صدر ٹرمپ کے میڈیا پر حملوں کے خلاف اور
آزادی صحافت کے لیے مہم میں حصہ لیاتھا۔بوسٹن گلوب نے صدر ٹرمپ کی میڈیا کے
خلاف’تضحیک آمیز جنگ‘ کے خلاف ملک بھر میں تحریک کا اعلان کیا تھا اور اس
حوالے سے ہیش ٹیگ #EnemyOfNone کا استعمال کیا گیا۔صدر ٹرمپ نے میڈیا کی
رپورٹس کو’جعلی خبریں‘ قرار دیتے ہوئے تمسخر اڑایا تھا اور صحافیوں پر
زبانی حملے کرتے ہوئے انھیں ’لوگوں کا دشمن قرار دیا تھا۔‘بوسٹن گلوب کو
ابتدا میں میڈیا کے 100 اداروں سے مثبت ردعمل ملا تھا جو بعد میں بڑھ کر
350 ہو گئی جس میں امریکہ کے نمایاں قومی اخبارات سے چھوٹے اخبارات شامل
ہیں۔ اس میں برطانیہ کے گارڈین جیسے بین الاقوامی صحافتی ادارے بھی شامل
ہیں۔امریکی صدر نے ایک امریکی صحافی خاتون پر بھی توہین آمیز ٹویٹ کی تھی
جس پر بڑا تنازعہ کھڑا ہوگیا تھا کہ صدر ٹرمپ کسی کو پلاسٹک سرجری کرانے کی
وجہ سے بدصورت کیوں کر کہہ سکتے ہیں۔ فروری2017میں صدر ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس
میں منعقد صحافیوں کے لئے روایتی ڈنر میں بھی شرکت سے انکار کردیا
تھا۔گزشتہ دنوں ایک گمنام خط کی امریکی اخبار میں اشاعت پر صدر ٹرمپ کا غصہ
ساتویں آسمان پر نظر آیا اور صدر ٹرمپ نے میڈیا کو بددیانت کا خطاب دیتے
ہوئے میڈیا کے خلاف اعلان جنگ کو دوبارہ دوہرایا ۔گزشتہ دنوں ایک تقریب میں
صدر ٹرمپ نے سانپ کی شکل والے عصا کو لیکر میڈیا کو ڈرانے کے لئے اداکاری
کی جیسے سخت نا پسند کیا گیا ۔
اب اصل موضوع سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے حوالے سے سعودی حکومت پر
دباؤ کا جائزہ لیتے ہیں۔ سعودی حکومت پر تنقید کے حوالے سے مقتول صحافی کے
قتل کا اب باقاعدہ سعودی حکومت نے اعتراف کرلیا ہے اور سرکاری طور پر اس
اعتراف کے بعد مبینہ ذمے داران کے خلاف کاروائیاں و گرفتاری بھی کی گئی اور
وزیر خارجہ کی جانب سے سعودی صحافی جمال خا شقیجی کے قتل کو غلط اور پھر
قتل کے جرم کو چھپانے کو غلطی تسلیم کیا گیا۔ سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر
کا کہنا ہے کہ مملکت جمال خاشقجی کے قتل کے حوالے سے جامع تحقیقات کرنے پر
کاربند ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ واقعے کے ذمّے دار تمام افراد کو
حراست میں لیا جائے گا۔ انڈونیشیا میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے
الجبیر نے مزید کہا کہ حکومت کی جانب سے ضروری اقدامات کیے جائیں گے تا کہ
مستقبل میں اس طرح کے واقعات دوبارہ رونما نہ ہوں۔اس سے قبل سعودی وزیر
داخلہ نے اتوار کے روز امریکی چینل فوکس نیوز کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں
کہا تھا کہ ''جمال خاشقجی کی موت کا واقعہ ایک سنگین غلطی کا نتیجہ تھا اور
اس کیس میں ملوث ذمے داروں کا احتساب کیا جائے گا۔ سعودی فرماں روا شاہ
سلمان بن عبدالعزیز جمال خاشقجی کے قاتلوں کے احتساب کے لیے پُرعزم ہیں۔ جن
لوگوں نے یہ کام کیا ہے، انہوں نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا ہے۔الجبیر نے
واضح کیا کہ ''سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان ابتدا میں خاشقجی کیس سے
آگاہ ہی نہیں تھے۔ اس واقعے میں ملوث افراد میں سے کسی کے بھی ولی عہد سے
کوئی قریبی تعلقات نہیں تھے اور نہ ان میں ولی عہد کے قریبی کوئی لوگ شامل
تھے۔ یہ ایک آپریشن تھا اور روگ آپریشن تھا''۔ ''سعودی ولی عہد شہزادہ محمد
بن سلمان اس واقعے کی شدید مذمت کرچکے ہیں۔
سعودی صحافی کا قتل درحقیقت ایک افسوس ناک واقعہ ہے جس کی جتنی مذمت کی
جائے کم ہے ۔جمال خاشقجی صحافت میں ایک جہاں بڑا مقام رکھتے تھے تو دوسری
جانب ان کے ماضی میں شاہی خاندان سمیت امریکا اور دیگر مغربی ممالک کے ساتھ
بڑے قریبی تعلقات بھی تھے ۔ جمال خاشقجی اسامہ بن لادن کے کئی مرتبہ
انٹرویو بھی لے چکے ہیں۔ جمال خاشقجی نے خودساختہ جلاوطنی اختیار کی اب ان
کے بیٹے بھی سعودی عرب سے امریکا چلے گئے ہیں۔امریکا نے جمال خاشقجی کے قتل
پر بڑھ چڑھ کر سخت بیانات دینا شروع کئے اور پھر عالمی سرمایہ کاری کانفرنس
کے بائیکاٹ سمیت سعودیہ کو سزا دینے جیسے سخت بیانات دیئے وہ ایک غیر مناسب
رویہ ہے۔سعودی فرماں روا اور ترک صدر طیب اردوغان کے درمیان براہ راست بات
چیت کی وجہ سے امریکا کی سخت بیانی کم ہوئی اور امریکا کو جمال خاشقجی قتل
پر مزید کھیل کھیلنے کے لئے زرخیز میدان نہیں مل سکا۔
صدر ٹرمپ نے شام میں بشار الاسد کے خلاف جنگ کے اخراجات عرب ممالک سے لینے
کا مطالبہ کرچکے ہیں کہ امریکا ، عرب ممالک کی جنگ لڑ رہا ہے اس لئے وہ جنگ
کے اخراجات ادا کریں ۔ اس کے ساتھ ہی امریکا نے متنازع بیان دیا کہ امریکا
سعودیہ کی حفاظت کررہا ہے اگر امریکا سعودیہ کی حفاظت نہ کرتا تو یہ تباہ
ہوجاتا ۔ اس کے بعد دوبارہ امریکا نے سعودی عرب سے اخراجات کا مطالبہ
کیا۔امریکہ سعودی عرب کی فوجی کمی پوری کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے جو اسے
ایف 15 لڑاکا طیاروں سے لے کر کنٹرول اینڈ کمانڈ تک کے نظام فراہم کررہا ہے
جن کی مالیت اربوں ڈالروں میں ہے۔صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ سعودی عرب
امریکہ کے ساتھ منصفانہ برتاؤ نہیں کر رہا جس کی وجہ سے واشنگٹن کو ان کی
سلطنت کے تحفظ کے لیے بھاری مالی نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔امریکی صدر ڈونلڈ
ٹرمپ نے سعودی شاہ سلمان سے متعلق ایسا متنازع بیان بھی دیا جیسے پسند نہیں
کیا گیا۔الجزیرہ کے مطابق صدر ٹرمپ نے ریلی کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا
کہ ’’میں نے سعودی بادشاہ کو کہہ دیا تھا کہ تم ہمارے بغیر 2ہفتے بھی
بادشاہ نہیں رہ سکتے۔میں نے انہیں بتایا تھا کہ یہ امریکی فوج ہی ہے جو
سعودی عرب اور اس کی بادشاہت کی حفاظت کر رہی ہے۔‘‘صدر ٹرمپ نے ریلی کے
شرکاء کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’’تم کہتے ہو کہ وہ بہت امیر ہیں؟ مگر ہم
ان کی حفاظت کر رہے ہیں۔ ہاں میں شاہ سلمان کو بہت پسند کرتا ہوں لیکن میں
نے انہیں باور کرا دیا تھا کہ ہماری فوج تمہاری حکومت کی حفاظت کر رہی ہے
اور تمہیں اپنی فوج کے اخراجات خود برداشت کرنا ہوں گے‘‘۔ صدر ٹرمپ کے بیان
پر سعودی ولی عہد نے فوری طور پر ترکی با ترکی جواب دیا۔ جس پر صدر ٹرمپ
سعودی ناراضگی سے بچنے کے لئے اپنا رویہ نرم کرنے پر مجبور ہوگئے۔
سعودی عرب میں سرمایہ کاری کانفرنس میں شرکت پر انسانی حقوق کی تنظیموں نے
عمران خان اور ان کی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور ان کا موقف ہے
کہ سعودی صحافی کے قتل کے خلاف پاکستان کو بھی عالمی برادری کی پیروی کرتے
ہوئے اس کانفرنس کا بائیکاٹ کرنا چاہیے تھا۔تاہم وزیر اعظم عمران خان کا
کہنا ہے کہ خشوشقجی کے قتل کے باوجود سعودی عرب کو نظر انداز نہیں کر سکتے
اور پاکستان، سعودی عرب سے اچھے تعلقات جاری رکھنا چاہتا ہے۔انہوں نے کہا
کہ ملک اس وقت شدید بحرانی صورت حال سے دوچار ہے اور ہمیں تاریخ کے بدترین
قرضوں کا سامنا ہے لہٰذا ایسی صورت میں ہم اپنے پرانے دوست سعودی عرب کی
جانب سے دی گئی دعوت کو ٹھکرا نہیں سکتے تھے۔سعودی عرب نے وزیر اعظم کے
دورے پر امدادی پیکچ دے کر عارضی مشکلات سے نکالنے میں مدد دینے کے لئے تین
برس پر مشتمل معاہدہ کر چکا ہے۔ اس وقت بھی مملکت عاصیہ رہائی کیس کی وجہ
سے بحرانی کیفیت میں ہے لیکن وزیراعظم نے قوم سے خطاب کے بعد ، مقررہ وقت
سے تین ددن پہلے یکم نومبر چین کے دورے پر چلے گئے۔چین سے بڑی ریلیف ملنے
کی قوی امید ہے۔وزیراعظم ملکی بحرانی کیفیت کی شدت سے قبل چین کے دورے سے
کامیابی لانا چاہتے ہیں تاکہ موجودہ نئے بحران کی شدت میں کمی لائی جاسکے
اور چین کے تحفظات فوری دور ہوسکیں۔
سعودی عرب کا ویژن 2030کا منصوبہ تقریباََ 130ارب ریال کی لاگت پر مشتمل
ہے۔سعودی عرب قدامت پسندی سے جدت کی جانب گامزن ہے ۔شاہ سلمان اور ولی عہد
محمد بن سلمان کی اصلاحاتی پالیسوں نے مغربی بلاک کو پریشان کردیا کہ سعودی
عرب مستقبل میں خود کو ایک سپرپاور کی حیثیت سے تسلیم کرانے کے لئے عملی
اقدامات کی جانب روبہ گامزن ہے۔ سعودی و لی عہد کی جانب سے سعودی عرب کو
جدید جنگی سازوسامان سمیت ایٹمی میزائل ٹیکنالوجی میں خود کفیل ہونے کا
واضح اشارہ دے چکا ہے۔ امریکا اور دیگر ممالک کی جانب سے سعودی عرب کی
دفاعی ضروریات کو پورا کرنے میں جتنے مالی وسائل خرچ ہو رہے ہیں۔ سعودی عرب
مستقبل میں اس بھاری بوجھ کو کم کرکے سعودی عوام کو ریلیف دینے کی منصوبہ
رکھتی ہے۔ ولی عہد محمد بن سلمان ایک انتہائی بااثر و طاقت ور شخصیت کی
صورت میں اہم پوزیشن رکھتے ہیں۔ امریکا کی جانب سے سعودی عرب کو مقتول
صحافی کیس میں بھرپور دباؤ کے لئے صدر ٹرمپ کی جانب سے سخت بیانات کو سعودی
فرماں روا نے انتہائی نا پسند کیا ہے ۔ تاہم صدر ٹرمپ نے سعودی حکومت کی
جانب سے مقتول صحافی کے قتل میں ملوث عناصر کے خلاف کاروائی کا آغاز کرکے
سخت دباؤ کو کم کیا ہے ۔ ترکی نے سعودی عرب کی جانب سے گرفتار جمال خاشقجی
کے مبینہ قتل میں ملوث ملزمان کے خلاف ترکی میں مقدمہ چلانے کا مطالبہ کیا
ہے جیسے سعودی عرب نے رد کرتے ہوئے تحقیقات مکمل ہونے پر ملزمان کو خود سزا
دینے کا اعلان کیا ہے ۔طیب اردوغان چاہتے ہیں کہ سعودی صحافی کے قتل کا
مقدمہ ترکی میں چلے ۔ تاہم صحافی کے قتل کے حوالے سے سعودی فرمارواسے ٹیلی
فونک رابطے میں مسئلے کے حل کے لئے یقین دہانیاں کرائی گئی ہیں ۔ کیونکہ
ترکی ، امریکا کے عزائم کو سمجھتا ہے اس لئے جن شواہد کا ذکر ترکی کی جانب
سے کیا گیا تھا ۔ وہ امریکی مطالبے پر ابھی تک ٹرمپ انتظامیہ کے حوالے نہیں
کئے گئے۔ خیال یہ کیا جارہا ہے کہ مقتول سعودی صحافی کی آڑ میں ولی عہد
محمد بن سلمان کو برطرف کرانے کی کوشش بھی ہے۔ متقول صحافی کے مبینہ قتل پر
تمام مہذب ممالک یا صحافتی تنظیموں نے اپنے سخت تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
لیکن عالمی منظر نامے میں جس طرح منصوبہ بندی کے تحت سعودی عرب کے گرد
گھیرا تنگ کیا جارہا ہے وہ ان خدشات کو تقویت دیتا ہے کہ کچھ عالمی عناصر
اس صورتحال کا فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں ۔
بلاشبہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں صحافیوں کو ریاستی و غیر ریاستی عناصر کی
جانب سے مشکلات کا سامنا رہتاہے ۔ دنیا بھر میں کوئی بھی ایسا ملک نہیں ہے
جہاں مکمل طور پر اظہار رائے کی مکمل آزادی ہو ۔ کسی نہ کسی صورت میں کسی
بھی طریقے سے کئی ترقی یافتہ سمیت ترقی پذیر ممالک ہوں یا جمہوری نظام کے
علاوہ آمرانہ نظام ہو ۔ اختلاف رائے اور ریاست کی جانب سے پابندیاں ایک
عمومی صورتحال ہے۔ اہم غور طلب بات یہ ہے کہ کس صورتحال سے کسی مملکت کو
عدم استحکام کا شکار کرنے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔ یہاں مسئلہ صرف یہ نہیں کہ
ایک صحافی اپنے مخصوص نکتہ نظر کے تحت قتل ہوا ہے بلکہ اس وقت یہ دیکھنا
چاہیے کہ اس واقعے کا براہ راست فائدہ کون اور کیوں اٹھانے کی کوشش کررہا
ہے کیا کسی بھی ملک ، خاص طور پرامریکا نے دنیا بھر سینکڑوں صحافیوں کے قتل
کئے جانے پر یہی رویہ اختیار کیا تھا جو اب اپنایا ہوا ہے ۔ امریکا سمیت
عالمی برداری کو صحافت سے وابستہ افراد اور اداروں کو تحفظ اور جائز
مطالبات کے لئے غیر جانب دار ہو کر عملی اقدامات بھی کرنے چاہیں۔ سعودی
صحافی جمال خو شقیجی کے قتل کو بنیاد بنا کر اسلامی بلاک کے مزید ممالک کو
ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کی کوشش سے گریز کرنا چاہیے کیونکہ ایسے اقدامات
سے جانبد اری اور خطے میں عدم استحکام پیدا کرنے کی منصوبہ بندی و سازش سے
عالمی امن کے خطرات میں مزید اضافہ ہونے کا خدشہ ہے۔ |