پاکستان کے جید علمائے کرام میں سر فہرست جمعیت علمائے
اسلام (س) کے سربراہ مولانا سمیع الحق کی دینی و سیاسی خدمات ہمیشہ یاد
رکھی جائیں گی ۔ مولانا سمیع الحق 18 دسمبر 1937 ء کو اکوڑہ خٹک میں پیدا
ہوئے ، ان کے والد شیخ الحدیث مولانا عبد الحق کا شمار برصغیر کے جید
علمائے دین میں ہوتا تھا، جنہوں نے اکوڑہ خٹک میں ممتاز دینی درسگاہ
دارلعلوم حقانیہ کی بنیاد رکھی، مولانا عبدالحق نے 1970ء میں قومی اسمبلی
کے الیکشن میں حصہ لیا اور پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کوشکست
دی، مولانا عبدالحق 1970ء سے 1977ء تک قومی اسمبلی کے رکن رہے، مولانا
عبدالحق ،مولانا مفتی محمود، مولانا غلام ہزاروی ، مولانا عبداﷲ درخواستی
کے ہم عصر تھے۔ ان کا مدرسہ حقانیہ اکوڑہ خٹک ، دارالعلوم دیوبند کے بعد
دیوبندی مکتبہ فکر کا سب سے اہم مدرسہ گردانا جاتا ہے جہاں مولانا سمیع
الحق نے 1946ء سے تعلیم کا باقائدہ آغاز کیا، اوریہاں سے فقہ، اصول فقہ،
عربی ادب، منطق، تفسیر اور حدیث کا علم سیکھا۔ عربی زبان کے ساتھ ساتھ
پاکستان کی قومی زبان اردو اور علاقائی زبان پشتو پر بھی عبور حاصل کیا۔
مولانا مفتی محمود، مولانا عبدالحق اور جمعیت کے دوسرے اکابرین کی رحلت کے
بعد جمعیت علمائے اسلام دو حصوں میں بٹ گئی، ایک دھڑے کی قیادت مفتی محمود
کے صاحبزادے مولانا فضل الرحمن کے حصہ میں آئی جب کہ دوسرے دھڑے کی قیادت
مولانا سمیع الحق نے کی۔ مولانا سمیع الحق نے ملک کی دینی و مذہبی سیاست
میں انتہائی متحرک کردار ادا کیا، مولانا 1988ء میں دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ
خٹک کے مہتم بنے۔ افغانستان میں روسی مداخلت کے خلاف جب پاکستانی
اسٹیبلشمنٹ کو مدد چاہیے تھی تو اس وقت افغانستان میں روسی مداخلت کے خلاف
جدوجہد میں مولانا سمیع الحق کے مدرسے نے کلیدی کردار ادا کیا، اس وجہ ان
کی اس وقت کے فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کے ساتھ انتہائی قربت تھی۔ مولانا
سمیع الحق کے مدرسہ دارالعلوم حقانیہ کو بین الاقوامی شہرت حاصل ہے جہاں
دنیا بھر میں مقیم ہزاروں علمائے کرام نے ان سے تعلیم حاصل کی ہے ۔ مولانا
سمیع الحق دو بار 1985ء سے 1991ء اور 1991ء سے 1997ء تک سینیٹ کے رکن رہے
جبکہ حالیہ سینیٹ الیکشن میں حکمران جماعت تحریک انصاف نے انہیں سینیٹ کا
ٹکٹ دیا تھا تاہم وہ کامیاب نہ ہو سکے۔ وہ متحدہ دینی محاذ کے بھی بانی تھے
جو پاکستان کے چھوٹے مذہبی جماعتوں کا اتحاد تھا، جبکہ دفاع پاکستان کونسل
کے بھی سربراہ تھے جس میں پاکستان کی بڑی مذہبی و سیاسی جماعتیں جن میں
جماعت الدعوۃ ، اہلسنت والجماعت، عوامی مسلم لیگ سمیت دیگر جماعتیں بھی
شامل تھیں۔مولانا سمیع الحق نے مختلف مکاتب فکر کو ایک پلیٹ فارم پر جمع
کرنے کے لئے سابق امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد کے ساتھ مل کر ’’ملی
یکجہتی کونسل ‘‘اور دینی جماعتوں کے سیاسی اتحاد ’’متحدہ مجلس عمل‘‘ کے
قیام میں اہم کردار ادا کیا تاہم وہ بعض اختلافات کے باعث بعد ازاں ایم ایم
اے سے علیحدہ ہو گئے تھے۔افغانستان پر امریکی حملے کے بعد انہوں نے مذہبی
تنظیموں کا ایک اتحاد’’دفاع پاکستان و افغانستان کونسل‘‘ بھی بنایا تھا جس
نے امریکی حملوں کے خلاف پورے ملک میں بڑے بڑے پرامن مظاہرے کیے، اس اتحاد
میں آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل(ر)حمید گل اور شیخ رشید بھی شامل
تھے۔مولانا سمیع الحق افغان طالبان پر کافی اثرو رسوخ رکھتے تھے اور ملا
عمر جو طالبان کے بانی اور امیر تھے کہ بارے میں کہا جا تا تھا کہ وہ
مولانا سمیع الحق کے شاگرد ہیں۔ مولانا سمیع الحق جہادی رہنماؤں کے لیے
’’روحانی باپ‘‘ کی سی حیثیت رکھتے تھے،مولانا جلال الدین حقانی کے علاوہ
کالعدم تحریک طالبان کے کئی رہنما ان کے شاگرد رہے۔افغانستان میں دیر پا
امن اور استحکام کے سلسلے میں اکثر پاکستانی اور افغان اعلیٰ حکام ان سے
ملاقاتیں کرتے تھے، اور افغانستان کے پاکستان میں تعینات سفیر ان سے
باقاعدگی سے ملتے رہتے تھے۔ جبکہ حال ہی میں افغان حکومت کے ایک وفد نے
دالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک میں ان سے ملاقات کرتے ہوئے افغان امن عمل کے لئے
کردار ادا کرنے کی اپیل کی تھی۔مولانا سمیع الحق نے ہمیشہ اپنے عمل سے ثابت
کیا تھا کہ وہ ایک محب وطن اور پر امن پاکستانی ہیں ،انہوں نے ملک میں پر
تشدد کارروائیوں کی حوصلہ افزائی کرنے کی بجائے ہمیشہ اس کی مذمت کی، انہوں
نے پاکستان میں کالعدم تحریک طالبان اور حکومت پاکستان کے درمیان مذاکرات
کی ایک کوشش میں بھی اہم کردار ادا کیا تھا۔
گزشتہ روز پاکستان کے دینی و سیاسی حلقوں کو انتہائی افسوسناک خبر سننے کو
ملی کہ جمعیت علمائے اسلام (س) کے سربراہ مولانا سمیع الحق کو راولپنڈی میں
نامعلوم شخص نے چھریوں کے وار کر کے اس وقت شہید کردیا جب وہ عصر کے بعد
اپنے گھر میں آرام کر رہے تھے ۔ راولپنڈی پولیس کے تحقیقاتی افسر کے مطابق
دو افرادجوماضی میں بھی مولانا سمیع الحق سے ملاقات کے لیے آتے رہے ہیں،
جمعہ کے دن بھی انہوں نے مولانا سے ملاقات کی ، مولانا نے خود اپنے گھریلو
ملازم کو باہر بھیجاتا کہ وہ مہمانوں کے لیے ریفریش منٹ کچھ لا سکے۔
ڈرائیور اور گن مین دونوں مولانا کو مہمانوں کے پاس اکیلاچھوڑ کرایک ساتھ
باہر چلے گئے، واپسی پر انہوں نے دیکھا کہ مولانا سمیع الحق خون میں لت پت
اور بے ہوشی کی حالت میں اپنے بیڈ پر پڑے ہیں ، ان کے جسم پرتیز دھار آلے
کے گہرے زخم ہیں، جسم کا بالائی حصہ خون میں بھیگا ہوا ہے، خون ان کے بیڈکے
میٹرس سے نچڑ رہا تھا۔ فوری طور پر انہیں قریبی سفاری ہسپتال لیجایا گیا
جہاں ڈاکٹر وں نے ہسپتال پہنچنے سے پہلے ہی ان کے شہید ہوجانے کی تصدیق کر
دی۔ ملک کی معروف سیاسی و مذہبی جماعتوں کی جانب سے مولانا سمیع الحق پر
قاتلانہ حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا گیا کہ مولانا کی شہادت
سے ملک جید عالم دین اور اہم سیاسی رہنما سے محروم ہو گیا ، مولانا سمیع
الحق ایک عظیم شخصیت تھے ان کی دینی اور سیاسی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا
جائے گا۔ مولانا سمیع الحق گفتار میں انتہائی نرم اور خوش اخلاق لیکن جب
ممبر یا سٹیج پر تقریر کے لیے آتے تو یکسر ایک مختلف شخصیت محسوس ہوتے
تھے۔مولانا سمیع الحق نے اپنی موت سے ایک روز قبل ہی خیبر پختونخوا کے ضلع
چارسدہ کے تنگی کے علاقے میں ایک کانفرنس سے غالباً اپنا آخری خطاب کیا تھا،
یعنی وہ جس سوچ اور نظریات کے داعی تھے آخری وقت تک اس پر عمل پیرا بھی رہے۔
مولانا سمیع الحق اپنے دارالعلوم سے ماہانہ جریدہ الحق شائع کرتے تھے۔
مولانا مرحوم اس جریدہ میں اپنی یادداشتوں پر مشتمل ڈائری بھی شائع کر رہے
تھے۔ مولانا سمیع الحق کے بیٹے مولانا حامد الحق نے انکشاف کیاہے کہ ان کے
والد کو افغان حکومت اور مختلف طاقتوں کی جانب سے خطرہ تھا ،کیوں کہ وہ
افغانستان کو امریکا کے تسلط سے آزاد کرانا چاہتے تھے، جب کہ ہمیں ملکی
خفیہ اداروں نے بھی کئی بار بتایا تھا کہ مولانا سمیع الحق بین الاقوامی
خفیہ اداروں کے ہدف پر ہیں۔مولانا سمیع الحق پر اس سے قبل بھی کئی مرتبہ
قاتلانہ حملے ہو چکے تھے لیکن ان حملوں میں وہ ہمیشہ محفوظ رہے۔ مولانا
حامد الحق کا کہنا ہے کہ ہم نے پولیس اور سکیورٹی اداروں کو دھمکیوں کے
حوالے سے آگاہ کیا تھا، جب کہ دارالعلوم اکوڑہ خٹک میں بھی سکیورٹی سخت
کردی گئی تھی تاہم مولانا صاحب سکیورٹی کو پسند نہیں کرتے تھے اس لیے سفر
میں ان کے ساتھ دوستوں کے علاوہ کوئی سکیورٹی اہلکار نہیں ہوتا تھا۔مولانا
حامد الحق نے مزید کہا کہ ایسی قوتیں جو ملک میں اسلام کا غلبہ نہیں چاہتیں،
جو جہاد مخالف ہیں، جو مدرسوں اور خانقاہوں کی مخالفت ہیں وہی طاقتیں ان کے
قتل میں ملوث ہیں، انہوں نے کہا کہ میں اس موقع پر مولانا سمیع الحق کے
چاہنے والے کارکنان اور عوام سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ صبر کا دامن ہاتھ سے
نہ چھوڑیں اور دشمن قوتوں کو تنقید کا موقع نہ دیں۔ |