میں نوحہ کیسے لکھوں کہ لفظ میرا ساتھ نہیں دے رہے۔
یوں تو پورا پاکستان ہی دہشت اور وحشت کے ہرکاروں کی زد میں ہے، اس پر یہ
سانحوں کا سلسلہ ہے کہ ختم ہونے ہی میں نہیں آتا۔ المیے ہیں کہ رکنے کا نام
ہی نہیں لیتے۔ دہشت گردی کے عفریت نے ہمارے ملک میں یوں پنجے گاڑے ہیں کہ
خون پہنے کا سلسلہ رکتا ہی نہیں۔ اس بار اس عفریت نے مولانا سمیع الحق کو
نشانہ بنایا۔ مولانا ایک مذہبی اسکالر، عالم اور سیاست دان تھے۔ دیوبندی
مکتب فکر سے تعلق رکھتے تھے۔ دارالعلوم حقانیہ کے مہتمم اور سربراہ تھے۔
مولانا دفاع پاکستان کونسل کے چیئرمین اور جمیعت علما اسلام کے سمیع الحق
گروپ کے امیر تھے۔ وہ متحدہ مجلس عمل کے بانی رکن اور حرکت المجاہدین کے
بانی بھی تھے جو ایک عسکری تنظیم ہے۔ وہ پاکستان کے ایوان بالا (سینیٹ) کے
رکن بھی رہے اور متحدہ دینی محاذ کے بھی بانی تھے جو پاکستان کی چھوٹی
مذہبی جماعتوں کا اتحاد ہے، جسے انہوں نے سال 2013 کے انتخابات میں شرکت
کرنے کے لیے بنایا تھا۔
افسوس صد افسوس 2 نومبر 2018ء کو مولانا جیسی عظیم ہستی کو انتہائی بے دردی
سے قتل کردیا گیا ۔میرے دیس میں کسی کی بھی جان لے لو، خون مٹی میں جذب
ہونے سے پہلے ہی قانون کی فائلوں میں دب جائے گا اور لوگوں کے ذہنوں سے محو
ہوجائے گا۔ پھر کون قاتل ، ’’نہ مدعی نہ شہادت حساب پاک ہوا‘‘۔ مولانا سمیع
الحق کے قتل کے معاملے کو بھی ہمارے قانون کی ابتدائی تحقیقات کے مطابق
نہایت جلدبازی میں بھونڈے انداز میں نمٹایا گیا ہے۔ پولیس نے دہشت گردی کے
عنصر کو مسترد کرتے ہوئے واقعے کو ذاتی دشمنی کا شاخسانہ قرار دے دیا ہے۔
خیال رہے کہ مولانا سمیع الحق کے پاکستان میں موجود کسی بھی مذہبی اور
سیاسی جماعت سے کوئی اختلافات نہیں تھے۔ ایک بوڑھے سیاست دان سے آخر کسی کی
کیا ذاتی دشمنی ہوسکتی ہے؟ مولانا سمیع الحق صاحب کا طالبان کے رہنما ملا
محمد عمر کے ساتھ قریبی تعلق رہا تھا۔ وہ افغانستان میں طالبان کے دوبارہ
بر سر اقتدار آنے کی کھلے طور پر حمایت کرتے تھے۔ مولانا سمیع الحق کا قتل
اس وقت ہونا جب ملک میں آسیہ بی بی کیس کا فیصلہ آنے کے بعد انتشار پھیل
گیا تھا یقیناً بہت سے سوالوں کو جنم دیتا ہے۔ تحریک لبیک کا دھرنا اور ملک
میں ممکنہ خانہ جنگی کی فضاء کو پیدا کرنے میں ملک دشمن عناصر صاف نظر آتے
ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بین الااقوامی سطح پر خطرے کے بھیانک بادل پاکستان پر
منڈلا رہے ہیں۔
عالمی طاقتوں کو پاک چائنا کوریڈور کسی صورت قابلِ قبول نہیں۔ اس کے لئے ہر
لمحہ سازشوں کا جال بُنا جارہا ہے۔ گریٹ گیم کے تحت داعش کے جنگجوؤں کو
افغانستان میں بسایا گیا، جس کا ذکر میں نے اپنے پچھلے کالم ’’افغانستان
میں دولتِ اسلامیہ کی موجودگی اور پاکستان کے لئے خطرات‘‘ میں بہت کھل کر
چکی ہوں۔ افغانستان میں داعش کے کم از کم سات ہزار جنگجو موجود ہیں۔
پاکستان میں دہشت گردی کی حالیہ کاروائیوں میں دیامر اور چلاس میں لڑکیوں
کے بارہ اسکولوں کو نذرِآتش کرنے اور دھماکہ خیز مواد سے تباہ کرنے کے
واقعات سامنے آئے، جن میں سے دو اسکول پاک فوج کے زیرانتظام تھے۔ خدشہ ظاہر
کیا جارہا ہے کہ عسکریت پسندوں کا تعلق داعش سے ہو سکتا ہے۔ 13جولائی 2018
کو بلوچستان کے ضلع مستونگ میں انتخابی مہم کو دوران خودکش حملے میں
بلوچستان عوامی پارٹی کے رہنما سراج رئیسانی سمیت150 سے زائد افراد ہلاک
اور200 کے قریب زخمی ہوگئے تھے۔ شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ نے اس حملے
کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ پاکستان کی جانب سے داعش کے خطرات کے حوالے سے
افغان حکومت کو مسلسل متنبہ کیا جاتا رہا ہے، پاکستان میں گذشتہ اور رواں
سال ہونے والی کئی دہشت گردانہ کارروائیوں کے بارے میں بھی یہ انکشاف ہوا
ہے کہ ان میں افغانستان سے آنے والے دہشت گرد ملوث تھے اور وہاں سے ہی ساری
کارروائیوں کو آپریٹ کیا گیا۔
افغانستان میں داعش کی موجودگی ایک سوچی سمجھی حکمتِ عملی کا حصہ ہے۔
امریکہ عراق والا داعشی تجربہ پھر سے دہرانا چاہتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ
امریکہ ایسا کیوں کرے گا؟ امریکہ پہلے ہی افغانستان میں موجود ہے! تو اس کا
صاف صاف جواب ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ امریکہ اس خطے میں اپنا اثر قائم کرنے
کے لئے افغانستان کی سرزمین کو ایران کے خلاف استعمال کرسکے، ساتھ ہی
پاکستان کو غیرمستحکم کرنے کے لئے ایسی کارروائیاں کی جاسکیں جن سے سی پیک
ناکام ہو اور پاکستان چین تعلقات خراب ہوسکیں۔ پاکستان کا روس کے قریب آنا
اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستانی حکام امریکہ کی چالوں سے واقف ہیں۔
افغانستان میں تیزی سے پھیلتا داعش کا نیٹ ورک اور اس کے پیچھے عالمی
طاقتوں کا ہاتھ ہونا ایک خطرناک کھیل نظر آتا ہے، جس کا خمیازہ معصوم جانوں
کے ضائع کی صورت میں سامنے آئے گا اور آرہا ہے۔ 83 سالا بوڑھے کو مار کر
کوئی کیا فائدہ حاصل کرسکتا ہے سوائے اس کے کہ دشمن اس شخص کی اہمیت اور
لوگوں کے دلوں میں موجود اس کی محبت کے بارے جانتا ہے کہ اگر مولانا سمیع
الحق کی قتل پر لوگ سڑکوں پر نکلے تو ان میں کوئی یہ نہیں دیکھے گا کہ کون
کس جماعت سے تعلق رکھتا ہے بلکہ بلاتفریق سب ہی اپنے غم و غصہ کا اظہار
کریں گے۔
معاملہ کیا تھا اس کی اصل وجوہات تو تحقیقات کے بعد ہی سامنے آئیں گی، لیکن
افغان انٹیلیجنس کے ہاتھ کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ بہرحال اگر
افغانستان جیسے ملک کی ایجنسی بھی پاکستان میں ہائی پروفائل لوگوں کو نشانہ
بنائے تو یہ ہماری ایجنسیوں پر سوالیہ نشان ہے۔ اس سانحے کے بعد ریاست
پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ وہ تمام واقعات کی تحقیقات کرے کہ دھرنے دینے
والے کون تھے، سوشل میڈیا پر آنے والی جلاؤ گھیراؤ کی ویڈیوز کیا کہانی
سناتی ہیں، جب کہ تحریک لبیک کے مطابق ان کا احتجاج اور دھرنا پُرامن تھا۔
یقیناً یہ ملک کو خانہ جنگی کی طرف لے جانے کی سازش ہوسکتی ہے، جس میں
بھارت، اسرائیل، امریکہ کے شامل ہونے کا قوی امکان ہے اور جس میں افغانستان
سے بھی کام لیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ ماضی میں افغان انٹیلیجنس جلال الدین
حقانی کے بیٹے کو اسلام آباد میں بھی قتل کرچکی ہے۔
ملک بھر میں بے بنیاد افواہوں کا پھیلانا، جسے سلیپنگ سیلز کے اکٹیو ہونے
کی افواہ یا مختلف قسم کا پروپیگنڈا یقیناً پاکستان کے خلاف نادیدہ قوتوں
کی سوچی سمجھی سازش کا حصہ ہے۔ ایسے میں کچھ دنوں پہلے کراچی میں مسلکی
بنیاد پر دنگا فساد بھی سامنے آیا۔ پاکستان کو تباہ کرنے کے مذموم عزائم
رکھنے والی عالمی طاقتیں جانتی ہیں کہ اگر پاکستان کو تباہ کرنا ہے تو اس
کا واحد راستہ فرقہ وارانہ دہشت گردی ہے جس کے لئے وہ مختلف نان اسٹیٹ
ایکٹرز کو استعمال کرکے ملک میں افراتفری پھلانا چاہتی ہیں۔ اہل سنت ہوں،
اہلِ تشیع یا کسی دوسرے مذہب سے تعلق رکھنے والے کسی بھی انسان کا ناحق خون
بہانا حرام ہے۔ مذہب کا ٹھیکہ اٹھانے والی ان تنظیموں کا دراصل اسلام سے
کوئی تعلق نہیں جو منافرت پھیلاتی ہیں۔ بھارت، پاکستان اور چین کا مشترکہ
دشمن ہے جبکہ امریکہ چین کو کسی صورت معاشی میدان میں سبقت لے جانے نہیں
دینا چاہتا۔
اس وقت حال یہ ہے کہ دنیا یہ نہیں دیکھ رہی کہ چین اور پاکستان کے درمیان
اقتصادی راہ داری کے نئے معاہدے طے ہونے جارہے ہیں اور پاکستان کی نئی
حکومت پاکستان میں تبدیلی کا عزم رکھتی ہے، بلکہ دنیا کو ایک شکست خوردہ
پاکستان کا چہرہ دکھایا جارہا ہے، جہاں لوگ سڑکوں پر نکل آئے ہیں، جہاں
فرقہ ورانہ فسادات ہوتے ہیں، جہاں مولانا سمیع الحق جیسے عظیم سیاسی و
مذہبی رہنما کو بے دردی اور سفاکی سے قتل کردیا جاتا ہے۔ ایٹمی طاقت رکھنے
والا پاکستان کبھی بھی عالمی طاقتوں کو ہضم نہیں ہوگا۔ ضرورت اس امر کی ہے
کہ ہم لوگ باہمی اختلافات بھلا کر پاکستان کے خلاف ہونے والی ان عالمی
سازشوں کو سمجھتے ہوئے ملک میں انتشار پھیلانے کی ہر کوشش ناکام بنادیں۔
قائد حریت مولانا سمیع الحق کی شہادت پاکستان پر دشمن کا بہت بڑا وار ہے۔
اﷲ ملک و قوم کے حال پر رحم فرمائے۔ وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے سیاسی اختلافات
بھلا کر پاکستان کی سلامتی کی خاطر بین الااقوامی سطح پر پاکستان کے خلاف
کھیلے جانے والے اس کھیل کی بساط کو الٹ دیں۔ |