محمد عبداللہ کے قلم سے
جب سے مولانا سمیع الحق رحمة اللہ علیہ کی شہادت کی خبر سنی ہے تب سے سوچ
رہا تھا کہ ان کو خراج تحسین پیش کروں کچھ الفاظ ان کے بارے میں لکھوں مگر
ہمت جواب دے جاتی تھی الفاظ گڈ مڈ سے ہو رہے تھے. وہ اللہ کا ولی کہ اللہ
کے دشمن آج بھی اس کی لگائی ہوئی کاری ضربوں کے نشان محسوس کرتے ہیں جس کو
بابائے افغان مجاہدین کہا گیا کہ ملاعمر سے لے کر امارات اسلامیہ کی اکثر
قیادت نہ صرف ان کو باپ کا درجہ دیتے تھے بلکہ اکثریت نے تو ان سے زانوئے
تلمذ بھی طے کیا. منبر رسول پر بیٹھ کر قال اللہ و قال رسول کا درس دینے
والے اس نجیب الفطرت شخص نے سیاست میں قدم رکھا تو دنیا نے شرافت و نجابت
کی سیاست کا اک نہایت ہی خوبصورت چہرہ دیکھا اور جب سیاست کے گند کے چھینٹے
مولانا کے دامن کو داغدار کرنے کے لیے اڑائے گئے تو مولانا نے چپکے سے
انتخابی سیاست سے کنارہ کشی کرلی اور اپنے آپ کو اسلام و پاکستان کی خدمت
کے لیے وقف کردیا. ہمیشہ اسلام و پاکستان کو مقدم رکھنے والے اس جلیل القدر
عالم دین اور سیاست دان نے ہمیشہ علماء و سیاستدانوں کو اک پلیٹ فارم پر
جمع کرکے اسلام و پاکستان کی بہت بڑی خدمت کی، فرقہ واریت کی ہمیشہ سے نفی
کرتے رہے. دفاع پاکستان کونسل کے پلیٹ فارم کو تشکیل دیا گیا تو سربراہی کے
لیے سب کی نظر انتخاب مولانا شہید پر ٹھہری کہ ان سے موزوں کو رجل رشید
میسر نہ تھا. اس پلیٹ فارم سے مولانا نے سیاسی اور مذہبی جماعتوں کو ساتھ
ملا کر ہمیشہ دشمنوں کی سازشوں کے پردے چاک کرتے رہے اور ان کے سامنے آہنی
دیوار بنے رہے جس کی پاداش میں اللہ کے دشمن ان کو اپنا دشمن سمجھتے تھے
اور گزشتہ روز اسی جرم حب الوطنی کی پاداش میں مولانا کو شہید کردیا گیا
اور ملت اک مدبر سیاستدان اور عظیم رہنماء سے مرحوم ہوگئی. ان للہ و انا
الیہ راجعون. اللہ ان کی مغفرت فرمائے اور ان کے لواحقین کو صبر جمیل عطا
فرمائے اور مولانا کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق سے نوازے. |