دو نومبر 2018 کو ایک عظیم عالم دین، نامور سیاستدان اور
محسن ملک و ملت ہمیں داغ مفارقت دے کر رب کی جنتوں کے مہمان ہو گئے۔ یہ
شخصیت ہے چئیرمین دفاع پاکستان کونسل اور مہتمم و چانسلر دارالعلوم حقانیہ
جناب سمیع الحق صاحب رحمۃ اﷲ علیہ کی۔
جو دو مرتبہ سینیٹ کے ممبر رہے اور مجلس شوری پاکستان کے رکن بھی رہے۔
آپ 18 دسمبر 1937 میں اکوڑہ خٹک میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد محترم کا نام
مولانا عبد الحق تھا۔ انہوں نے 1366 ھ بمطابق سال 1946 ء میں دار العلوم
حقانیہ میں تعلیم شروع کی جس کی بنیاد ان کے والد محترم نے رکھی تھی۔ وہاں
انہوں نے فقہ، اصول فقہ، عربی ادب، منطق (logic)، عربی صرف و نحو(گرامر)،
تفسیر اور حدیث کا علم سیکھا۔ ان کو عربی زبان پر عبور حاصل تھا لیکن ساتھ
ساتھ پاکستان کی قومی زبان اردو اور علاقائی زبان پشتو میں بھی کلام کرتے
تھے۔
اپنے والد گرامی کے بعد جامعہ حقانیہ کے مہتمم اور چانسلر رہے۔ ملک کے طول
و عرض میں آپ سے فیض یاب ہونے والے طلباء کی کثیر تعداد ہے علاوہ ازیں ملا
عمر سمیت کئی افغان بھی آپ کے تلامذہ میں شامل ہیں۔ روس افغان جہاد میں آپ
کے کردار سے کسی کو انکار نہیں۔ آپ کو ''طالبان کا باپ'' کا لقب بھی دیا
گیا۔ اسی مناسبت سے جنرل ضیاء الحق مرحوم سے بھی خاص مراسم تھے۔ افغانستان
پر امریکی اور اتحادی افواج کے حملہ کے وقت بھی آپ نے طالبان کی حمایت کا
اعادہ کیا۔ وہ افغانستان میں طالبان کے دوبارہ بر سر اقتدار آنے کے حامی
تھے۔ انہوں نے ایک موقع پر کہا ’انکو صرف ایک سال دیجئے اور وہ سارے
افغانستان کو خوشحال بنا دینگے سارا افغانستان ان کے ساتھ ہو گا، ایک بار
امریکی چلے جائیں تو یہ ایک سال کے اندراندر ہو گا، جب تک وہ وہاں ہیں،
افغانوں کو اپنی آزادی کے لیے لڑنا ہو گا‘، انہوں نے کہا، ’یہ آزادی کے لیے
ایک جنگ ہے اور یہ تب تک ختم نہیں ہو گی جب تک بیرونی لوگ چلے نہ جائیں۔‘
وہ ایک محب وطن پاکستانی تھے اور دفاع پاکستان کونسل کے چئرمین کی حیثیت سے
ملک میں ہونے والے اہم واقعاتی اور حادثاتی مواقع پر رائے عامہ ہموار کرنے
کا ذریعہ بنتے۔ دفاع پاکستان کونسل میں ان کے کردار کی اہمیت اس بات سے بھی
نمایاں ہے کہ ان کے پر ملال سانحہ ارتحال پر ہندوستان کے ٹی وی چینلز نے
اپنی رپورٹس میں خصوصیت کے ساتھ اس کا ذکر کیا۔ پاکستان میں گزشتہ دہشتگردی
کی لہر کے دوران ٹی ٹی پی سے حکومتی مذاکرات کے لیے بھی اہم کردار ادا کرنے
کی پیشکش کی۔ ضعیف العمر کے باوجود یہ ملک و ملت کا درد ہی تھا جو ان کو
چین نہ لینے دیتا اور وہ عمر کے اس حصے میں بھی ایک متحرک سیاسی کردار ادا
کرتے رہے اور ایسے مرد قلندر کہ نہ عہدے کی طلب نہ جاہ و حشمت کی خواہش۔
غرض نفسا نفسی کے اس دور میں قرون اولی جیسی ملک و ملت کی تڑپ آپ میں نظر
آتی تھی۔
آپ کی ملی خدمات میں عوامی فلاح کے لیے عوام الناس کی رہنمائی کرتا پولیو
ویکسین سے متعلق فتوی بھی ہے جب تحریک طالبان پاکستان کے پولیو کے حفاظتی
قطرے پلانے کو غیر اسلامی قرار دینے پر اور لوگوں کو اسے اپنے بچوں کو
پلانے سے روکنے پر مولانا سمیع الحق صاحب نے 9 دسمبر، 2013ء کو پولیو کے
حفاظتی قطروں کی حمایت میں ایک فتوی جاری کیا۔ اس فتوے کے مطابق ’مہلک
بیماریوں کے خلاف حفاظتی قطرے ان کے خلاف بچاؤ میں مددگار ہوتے ہیں اور یہ
بات تحقیق سے ثابت ہو چکی ہے جس کو نامی گرامی طبی ماہرین نے منعقد کیا ہے۔
اور اس (تحقیق) میں کہا گیا ہے کہ ان بیماریوں سے بچاؤ کے قطرے کسی بھی طرح
سے مضر نہیں ہیں۔‘
غرض آپ کی زندگی ملک و ملت کی خدمت کے لیے وقف تھی جس پر ملک دشمن عناصر
شدید جز بز تھے۔ آپ کو 2 نومبر 2018 کی شام راولپنڈی میں خنجروں کے وار کر
کے شہید کر دیا گیا۔ آپ کی شہادت ملک و قوم کے لیے تکلیف دہ سانحہ اور
ناقابل تلافی نقصان ہے۔ اور پاکستان ایک مدبر عالم دین، زیرک سیاستدان اور
محب وطن شہری سے محروم ہو گیا ہے۔ ان کی ناگہانی شہادت کسی ایسی ہی دشمن
ملک کی سازش کا شاخسانہ ہے جس کا اشارہ اس بات سے بھی ملتا ہے کہ آپ کی
شہادت کے کچھ ہی گھنٹے بعد جنرل حمید گل مرحوم کے صاحبزادے عبداﷲ گل پر بھی
قاتلانہ حملہ کیا گیا جس میں وہ اﷲ تعالی کی خصوصی تائید سے محفوظ رہے۔
عبداﷲ گل بھی دفاع پاکستان کونسل کے سر گرم رہنما ہیں۔ یقینا یہ کام ان
عناصر کا ہے جو پاکستان کو غیر مستحکم کرنا چاہتے ہیں اور ہمارے قومی دشمن
ہیں۔ اگرچہ ہم ایک بہادر قوم ہیں اور اس طرح کے ہتھکنڈوں سے خوفزدہ ہونے
والے نہیں ہیں تاہم ایسے عناصر کی جلد شناخت اور سرکوبی نہایت ضروری ہے
تاکہ ملک و ملت کو کسی بڑے سانحہ سے دوچار نہ ہونا پڑے۔ |