جولائی 2015ء میں مغربی ممالک کی کامیاب سفارتکاری کے بعد
امریکا اور ایران کے درمیان اوباماکے دورِ حکومت میں ایٹمی عدم پھیلاؤکے
معاہدے کو امسال مئی میں وائٹ ہاؤس کے فرعون ٹرمپ نے عالمی قواعدوضوابط کی
دھجیاں اڑاتے ہوئے اپنے چہیتے اسرائیل کی خوشنودی کی خاطربے بنیاد الزامات
لگاکریکسرمستردکردیاکہ اس معاہدے نے ایران کو ساری دنیامیں امریکی مفادات
کے خلاف کام کرنے کاکھلالائسنس دیاہے بلکہ معاہدے کے نتیجے میں ایران
پرعائدپابندیاں ختم کرکی ایران کی تخریبی سرگرمیوں کو بڑھاواملاہے اور وہ
نہ صرف لبنان بلکہ شام اوریمن میں بھی مداخلت کررہا ہے اور اپنے میزائل
پروگرام کوبھی آگے بڑھارہاہے تاہم روس،چین،جرمنی اور فرانس نے امریکی
علاحدگی کے باوجوداس معاہدے کوقائم رکھنے کاعندیہ دے رکھاہے۔
امریکانے ایران سے تنسیخ معاہدے کے ساتھ ہی نئی پابندیاں لگانے کاجواعلان
کیاتھا،وہ آج 5 نومبر سے نافذالعمل بھی ہو رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلے
ایک ہفتے سے عالمی منڈی کسادبازاری کا شکارہوگئی ہے اورکئی ممالک کی اسٹاک
مارکیٹیں اسی بنا پرکریش ہوچکی ہیں تاہم ماہرین کے مطابق عالمی معیشت میں
ایک بڑے بحران کے پیداہونے کے امکان بڑھتے جا رہے ہیں اورمعاہدے کی تنسیخ
کے 6 ماہ گزرجانے کے باوجوددیگرممالک بالخصوص یورپی یونین کے بزنس گروپ
کوئی پیش رفت نہیں کرسکے۔
ڈونلڈٹرمپ نے اس بات کابھی اعلان کردیاہے کہ وہ ایران کوتیل برآمدنہیں
کرنے دے گا۔ ماضی کے برعکس اس مرتبہ پابندیاں اس قدرسخت اورشدیدہیںکہ
امریکانے دنیابھرمیں کسی ملک کو استثنیٰ دینے سے انکار کردیا تھا، مگر
یورپی ممالک کی شدید مخالفت اور ایران کے ساتھ معاہدہ جاری رکھنے کے اصرار
پر چند ممالک کو استثنا دینے کا اشارہ دینے پر مجبور دکھائی دیتا ہے۔ جاپان
اور بھارت جن کی تیل کی ضروریات کا بڑاحصہ ایران سے پوراہوتاہے اورجنہیں
ماضی میں امریکی استثناحاصل تھا، اب یہ سہولت جاری رکھنے کی درخواستیں
کررہے ہیں۔ نتیجے کے طورپرعالمی مارکیٹ پرشدیدمنفی اثرات مرتب ہوناشروع
ہوگئے ہیںاورمارکیٹ میں تیل کی قیمت 80 ڈالرفی بیرل کی سطح عبورکرچکی ہے جس
کے جلدہی 90 ڈالرفی بیرل تک پہنچنے کاامکانات ہیں۔روس اورچین یقینا کوئی نہ
کوئی متبادل راستہ تلاش کرلیں گے لیکن اصل مسئلہ تویورپی ممالک کودرپیش ہے
جن کی برآمدات میں بڑی حدتک کمی آسکتی ہے اوریران بھی جوابی معاشی حملے
کی تیاریاں مکمل کرنے کااعلان کرچکاہے جس کے لیے اس نے اس معاہدے سے
علاحدگی کاعندیہ دے رکھا ہے۔
اصل مسئلہ دنیامیں ڈالرکی حیثیت میں ادائیگی کی حکمرانی کا ہے۔ جب بھی
ڈالرمیں ادائیگیاں ہوتی ہیں ان کی آخری کلیئرنس نیویارک میں امریکاکے
مرکزی بینک میں ہوتی ہے اور ایک اطلاع کے مطابق اس سلسلے میں امریکاصرف
کمیشن کی صورت میں 250 ملین ڈالر (25 کروڑ ڈالر) روزانہ وصول کرتاہے
اوریقیناً اس حوالے سے امریکی معیشت بھی بری طرح شکست وریخت کاشکارہو گی
جبکہ خودامریکا،چین کے قرضوں کی ادائیگی کے سلسلے میں اپنی معیشت کودیوالیہ
ہونے سے بچانے کےلیے روزانہ کی بنیادپرچین سے مزیدقرضہ لے رہا ہے۔ عالمی
معاشی ماہرین کے مطابق چین اپنے قرضوں کی رقوم کوبچانے کے لیے فی الحال
ایساکرنے پرمجبورہے اور دوسرا’ون روڈون بیلٹ‘ کی کامیابی تک چین کسی راست
اقدام سے گریزکی پالیسی اختیار کیے ہوئے ہے۔
دوسری طرف نئی امریکی پابندیاں عائدکرنے کے بعدایران سے جس ملک کی بھی
تجارت ہوگی اسے بھی امریکی مالیاتی نظام سے نکال دیاجائے گا کیونکہ تیل کی
تجارت ڈالرمیں ہوتی ہے اس لیے ایران مارکیٹ میں بلااجازت تیل فروخت نہیں
کرسکے گا۔ چندروزقبل یورپ نے اعلان کیا تھاکہ اس نے عالمی مالی ترسیلات
کامتبادل نظام تیارکرلیاہے جومکمل طورپر امریکی تسلط سے آزاد ہو گااوراس
کو استعمال کرنے والے ملکوں کے کوائف امریکی نظام کی رسائی سے محفوظ رہیں
گے۔ یورپ کی یہ پیش رفت جوابھی صیغہ رازمیں ہے اگرکامیاب ہوجاتی ہے تواس سے
نہ صرف امریکی ڈالرکی حکمرانی خطرے میں پڑسکتی ہے بلکہ امریکاکی یونی
پاورجیسی حیثیت بھی ختم ہونے کاامکان ہے۔ امریکااوریورپ ٹرمپ کے اس جارحانہ
روّیے سے سخت نالاں ہیں اوراسے امریکی تسلط پرمبنی عالمی مالیاتی نظام کےل
یے چیلنج قراردے دیاہے۔
امریکاایک بارپھرسیاسی اورجنگی محاذپرمشرقِ وسطیٰ میں اپنے عرب حلیف ملکوں
کی معاونت سے مشرقِ وسطیٰ خصوصاًشام میں ایرانی مداخلت کی روک تھام کے لیے
تیاریاں کررہاہے۔ گزشتہ دنوں نیویارک میں امریکی وزیرخارجہ پومپیوکی
زیرصدارت سعودی عرب،قطر،متحدہ عرب امارات،کویت ،بحرین اور عمان کے علاوہ
مصراوراردن کے وزرائے خارجہ کا اجلاس ہواجس میں ایران، داعش، ایرانی
ملیشیاؤں سمیت تمام دہشتگردگروپوں کوختم کرنے کے لیے مل جل کرکام کرنے
پراتفاق کیاگیا۔اب دیکھنایہ ہے کہ کیاایران امریکی پابندیوں
کاسامناکرسکتاہے کیونکہ امریکی ڈالرکی عالمی مالیاتی نظام پرحکمرانی
کاخاتمہ ہوسکتاہے اورکیامشرقِ وسطیٰ میں امریکا اپنے اہداف کے حصول میں
کامیاب ہوسکتاہے۔ یادرہے کہ چند ہفتے قبل ٹرمپ نے ایک تقریب میں سعودی
بادشاہ سلمان کو دھمکی دیتے ہوئے کہاتھاکہ تمہاری بادشاہت امریکی مددکی
محتاج ہے۔ اگرامریکااپناہاتھ کھینچ لے تودوہفتے سے زیادہ بادشاہ کی حکومت
قائم نہیں رہ سکتی۔ اس لیے شاہ سلمان کووہاں متعین امریکی فوج کے اخراجات
برداشت کرناہوں گے۔ اب خطے کی تمام مسلم ممالک کوضرورت تواس امرکی ہے کہ جس
قدرجلد ہو، اپنے تمام اختلافات دورکرکے امریکاکے ہاتھوں بلیک میل ہونے کے
خاتمے کابندوبست کریں۔ اسی میں ان کی عافیت ہے۔ اقوام عالم کی بھی یہ ذمے
داری ہے کہ ایران کے ساتھ امریکاکی ہونے والی یکطرفہ جارحیت کے خلاف انصاف
پسندی سے کام لیتے ہوئے اس کاساتھ دیں کہ کل کلاں اس آزمائش میں وہ بھی
مبتلاہوسکتے ہیں۔
|