ہمارے پیارے ملک پاکستان جواسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی
گزارنے اورنظام ریاست چلانے کے لیے بنایاگیا میں جب بھی توہین رسالت کے
ارتکاب کے خلاف مذہبی اورعوامی سطح پرردعمل سامنے آتا ہے توخودکوعقل کل
سمجھنے والے کئی افرادصبروتحمل، عفوودرگزر اورمعاف کردینے کی تاکیدمزیدکرتے
ہوئے سنائی اوردکھائی دیتے ہیں۔ایک اینکرپرسن ایک نیوزچینل پرکہہ رہے تھے
کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فتح مکہ کے موقع پرعام معافی
کااعلان کردیا۔کہایہ بھی جاتاہے کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے
دشمنوں کوبھی معاف کردیاکرتے تھے۔کسی نے فیس بک پراسی فلسفہ کے بارے میں
یوں لکھا ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پرروزانہ ایک
بڑھیاکوڑاکرکٹ ڈالاکرتی تھی۔ ایک دن اس نے کوڑانہ ڈالاتورک کراس کی خیریت
دریافت کی۔اس کی تیمارداری کی۔اس نے سوال کیا کہ کیایہ توہین رسالت نہیں
تھی۔اس طرح کی مثالیں دینے اورسنانے کامقصدصرف اورصرف یہ ہوتاہے کہ جس طرح
نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے دشمنوں کومعاف کردیاکرتے تھے اسی طرح
آج مسلمانوں کوبھی توہین رسالت کاارتکاب کرنے والوں کومعاف کردیناچاہیے۔اس
میں کوئی شک نہیں کہ رحمت دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے دشمنوں
کوبھی معاف کردیاکرتے تھے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس عمل
مبارک سے وہ درس نہیں ملتاجویہ خود کوعقل کل سمجھنے والے دنیاکوبتارہے
ہیں۔ایسے لوگ توہین رسالت کے ارتکاب کومعمولی سمجھتے ہیں یااس کی سنگینیت
کم کرنے کی کوشش کررہے ہیں جس میں کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکیں گے۔رسول
کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دشمنوں کوبھی معاف کردینے سے کیادرس
ملتاہے اس سوال کاجواب تلاش کرنے سے پہلے اس بات سے آگاہی ضروری ہے کہ نبی
اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم کرناکس نے سکھلائی ہے۔تعظیم مصطفی
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کادرس خود رب دوجہاں نے دیا ہے۔اللہ تعالیٰ نے
قرآن پاک میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کوراعناکہنے سے روک
دیا۔یہ لفظ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ادب کے معنوں میں جب کہ
کفارومشرکین گستاخی کے معنوں میں استعمال کیاکرتے تھے۔ صحابہ کرام رضوان
اللہ علیہم اجمعین تویہ لفظ ادب کے طورپراستعمال کرتے تھے۔ مگراللہ تعالیٰ
نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کووہ لفظ اداکرنے سے بھی روک
دیاجوکفارومشرکین گستاخی کے معنوں میں استعمال کرتے تھے۔اللہ تعالیٰ نے
قرآن پاک میں ہی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کورسول کریم صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کے سامنے اونچی آوازمیں بات کرنے اورجس طرح ایک دوسرے
کوپکارتے ہیں اسی طرح پکارنے سے بھی روک دیا۔اللہ تعالیٰ نے درنبوت پردستک
دینے سے بھی روک دیااورپیارے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے
ازخودباہرتشریف لانے کا انتظارکرنے کاحکم دیا۔یہ سب باتیں کسی افسانے
یاناول کی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب قرآن پاک کی آیات مبارکہ
کامفہوم ہیں۔ان آیات مبارکہ کے مفہوم سے ہی یہ درس ملتاہے کہ رحمت دوجہاں
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کتنی تعظیم کرنی چاہیے۔آپ چاہیں توعلماء کرام
سے اس بات کی تصدیق کرسکتے ہیں کہ کسی بات پرایک یہودی اورایک منافق کے
درمیان تنازع ہوگیا۔معاملہ بارگاہ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں
آیاتونبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فیصلہ یہودی کے حق میں دے
دیا۔منافق نے کہا کہ یہ فیصلہ مجھے قبول نہیں ہم یہ فیصلہ عمرسے کراتے ہیں
۔ دونوں فریقین حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور اپنا مقدمہ پیش
کیا۔اس سے پہلے کہ حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ اپنافیصلہ سناتے یہودی نے
بتایا کہ اس سے پہلے یہ فیصلہ تمہارے نبی میرے حق میں دے چکے ہیں۔ حضرت
عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے اس منافق سے پوچھاتواس نے بھی تصدیق کردی۔ اس کے
بعدحضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایاتم ٹھہرومیں ابھی آتاہوں ۔ گھرگئے
اورواپس آکرتلوارسے اس منافق کاسردھڑسے جداکردیااورفرمایاجومیرے نبی صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کافیصلہ نہ مانے اس کے بارے میں عمر کا یہی فیصلہ
ہے۔اس واقعہ کے بعدہنگامہ کھڑاہوگیا کہ عمرنے ایک مسلمان کوقتل کردیا
ہے۔بارگاہ نبوت میں بھی یہ مقدمہ دائرہوا۔اللہ تعالیٰ نے وحی بھیج کراس
مقدمہ کافیصلہ کرتے ہوئے قیامت تک کے لوگوں کوبتادیا کہ جونبی کریم صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فیصلے کودل سے نہ مانے وہ موئمن ہی نہیں ہے۔ویسے
توبحیثیت مسلمان ان واقعات کودل سے تسلیم کرلیناچاہیے اوراپنے فلسفہ
کوچھوڑدیناچاہیے ۔ اگرکوئی خودکوعقل کل سمجھنے والاان سب باتوں کومذہبی کہہ
کرتسلیم نہ کرے اور اسے موجودہ حالات کے مطابق قرارنہ دے اوریہ فلسفہ
جھاڑنے لگ جائے کہ زمانہ بدل گیاہے ، اب وہ حالات نہیں رہے وغیرہ وغیرہ
تواس طرح کے خودکوعقل کل سمجھنے والوں کے لیے ایک نسخہ اوربھی ہمارے پاس
موجودہے اوروہ یہ ہے کہ موجودہ دورانسانی حقوق کادورہے۔دنیامیں بہت سی
سماجی تنظیمیں انسانی حقوق پر بات کررہی ہیں۔معاشرے کے مختلف طبقات کے حقوق
سے آگاہی اوران کے حقوق دلانے اورتحفظ کی باتیں ہورہی ہیں۔انسان کے بنیادی
حقوق کے بارے میں بھی باتیں کی جارہی ہیں۔یہ اعدادوشماربھی جاری ہوتے رہتے
ہیں کہ کس ملک میں کس تناسب سے لوگ اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔کیاکبھی
کسی نے سناہے یاکسی نے پڑھا ہے کہ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی کسی
بھی تنظیم یاعہدیدارنے یہ کہاہوکہ کسی بھی انسان کاحق کوئی دوسراانسان معاف
کر سکتا ہے۔ایسانہ توکسی نے سناہے اورنہ ہی کسی نے پڑھاہے۔بات اب بھی سمجھ
میں نہیں آئی توسیاسی حوالے سے سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں ۔وزیراعظم عمران
خان کاکہناتھا کہ لوگوں کواکساناملک دشمنی ہے عوام ایسے عناصرکی باتوں میں
نہ آئیں ۔عمران خان کاکہناتھا کہ جن عناصرکوسپریم کورٹ کافیصلہ پسندنہیں
آیاکیاوہ صر ف اپنے من پسندفیصلوں کوپسندکرتے ہیں اورمن پسندفیصلہ نہ آئے
تودھمکی دیتے ہیں کہ سڑکوں پرآجائیں گے ملک کوبندکردیں گے یہ غریبوں
کانقصان ہے اس سے غریبوں کانقصان ہوتاہے جوبچوں کاپیٹ پالتے ہیں۔کسی صورت
میں عوام ان کے اکسانے میں نہ آئیں یہ اسلام کی خدمت نہیں ملک دشمنی
ہے۔جہاں تک لوگوں کواکسانے کاتعلق ہے تویہ کام توگزشتہ کئی دہائیوں سے
پاکستان میں ہورہا ہے۔بیرون ملک بیٹھ کرکراچی کے عوام کومسلسل
اکسایاجاتارہا۔مختلف سیاسی پارٹیوں کے لیڈراپنے اپنے جلسوں میں یہی کام
کرتے ہیں۔خودعمران خان بھی یہی کام کرچکے ہیں ۔شایداس وقت لوگوں
کواکساناجائزتھا۔کسی نے واٹس ایپ پریوں لکھا ہے کہ چارسیٹوں کے لیے ایک
سوچھبیس دن کادھرناحلال، چارسیٹوں کے لیے اسلام آبادمفلوج کراناحلال،
چارسیٹوں کے لیے آگ لگاناحلال، چار سیٹوں کے لیے سی پیک کاالتواء
حلال،چارسیٹوں کے لیے سپریم کورٹ پرشلواریں لٹکاناحلال، چارسیٹوں کے لیے
یوٹیلیٹیزکے بل پھاڑنااورادائیگی سے انکار حلال، چارسیٹوں کے لیے پی ٹی وی
کی عمارت میں گھسناحلال، چارسیٹوں کے لیے سول نافرمانی حلال، چارسیٹوں کے
لیے ٹیکس چوری کاحکم دیناحلال، چارسیٹوں کے لیے ہنڈی کے ذریعے رقم
بھجواناحلال، چارسیٹوں کے لیے ماردومرجاؤکے نعرے حلال، چارسیٹوں کے لیے میں
پوراملک بندکرادوں گاحلال۔ہمیں اس واٹس ایپ سے مکمل اتفاق نہیں ہے ۔یہ
تحریرپڑھنے والوں کواتناتویادہوگا کہ عمران خان نے دھرنوں کے دوران سول
نافرمانی کی تحریک چلانے کااعلان کیاتھا تو کیا اس سے ملک کانقصان نہیں
تھا۔ کیاسول نافرمانی کی تحریک سے غریبوں کانقصان نہیں تھا۔خودکوعقل کل
سمجھنے والے اورسیرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مثالیں دے
کرمعاف کردینے اوربرداشت کرنے کاسبق پڑھانے والے اس وقت یہ فلسفہ بھول گئے
تھے کہ معاف کردینااوربرداشت سے کام لیناہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کی سنت مبارکہ ہے۔کاش معاف کرنے اوربرداشت کرنے کاسبق پڑھانے
والوں نے اس وقت عمران خان کوبھی یہی سبق سمجھایا ہوتا کہ معاف
کرنااوربرداشت کرناکتنابڑاثواب کاکام ہے۔کاش برداشت کرنے اورمعاف کردینے
کادرس خودکوعقل کل سمجھنے والوں نے ایک کال پر پوراکراچی بندکرادینے والوں
کوبھی بتایاہوتا۔کاش معاف کردینے اوربرداشت کرنے کافلسفہ ان لوگوں
کوسمجھایاجاتا جوبھتہ نہ دینے پرقتل کردیاکرتے تھے۔کاش معاف کردینے
اوربرداشت کرنے کاسبق ایسے واقعات کاسبب بننے والوں کوبھی پڑھادیاجاتاجسے
وکلاء گردی کے نام سے پہچاناجاتاہے۔کاش یہ معافی اور برداشت کاسبق اس وقت
بھی پڑھایاجاتا جب بے نظیربھٹوکی شہادت کے بعدملک بھرمیں آگ لگی ہوئی تھی۔
عوام گھروں سے باہرنکلنے سے پرہیزکرنے لگے تھے، جب ریل گاڑیوں ، ٹرانسپورٹ
اورقیمتی املاک کوآگ سے جلایاجارہاتھا۔اگرکوئی یہ فلسفہ لے آئے کہ
بینظیربھٹوکی شہادت کے بعدعوام کایہ ردعمل فطری تھا اس وقت عوام شدیدغم
وغصہ میں تھے تواس کاجواب یہ ہے کہ توہین رسالت کے ارتکاب کے
بعداورممتازقادری کی شہادت کے بعدبھی عوام کاردعمل فطری ہی تھا ۔بے
نظیربھٹوکی شہادت کے بعدکے عوامی غم وغصہ میں سیاسی عنصربھی تلاش
کیاجاسکتاہے مگرتوہین رسالت پرعوامی اورمذہبی ردعمل میں ایساعنصرتلاش نہیں
کیاجاسکتا۔ملکی تاریخ کاجائزہ لیں توکئی ایسے واقعات ضرورمل جائیں گے جنہیں
پڑھ کریہی خیال آئے گاکہ کاش اس واقعہ سے پہلے یابعدمیں کوئی صاحب عقل کل
معاف کرنے اوربرداشت کرنے کاسبق پڑھادیتا ۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم اپنے دشمنوں کومعاف کردیاکرتے تھے اس سے یہ درس کبھی نہیں ملتا کہ امت
بھی اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گستاخوں کومعاف کردے۔ اس سے
یہ درس بھی نہیں ملتاکہ کوئی بھی امتی اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کی گستاخی برداشت کرلے۔گستاخان رسول کومعاف کرنے کاحق توصحابہ کرام
رضوان اللہ علیہم اجمعین نے استعمال نہیں کیاتویہ حق کسی اورکوکیسے
دیاجاسکتاہے۔کسی عام انسان کے حقوق کوئی دوسراانسان معاف نہیں کرسکتا۔رسول
کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی توہین معاف کرنے کاحق کیسے کسی
کودیاجاسکتاہے۔ قیامت کے دن بھی کسی انسان کاحق اس وقت تک معاف نہیں ہوگاجب
تک متاثرہ شخص خودنہ معاف کردے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے
دشمنوں کومعاف کردیاکرتے تھے اس سے یہ درس ملتاہے کہ ہمیں اپنے دشمنوں
کومعاف کردیناچاہیے۔اگرکوئی ہم سے ناانصافی کرے، ہماراحق نہ دے، ہمیں
پریشان کرے توبرداشت سے کام لیناچاہیے۔اپنے ساتھ ہوتوبہت براہوامعافی
کاسوال ہی پیدانہیں ہوتا کسی اورکے ساتھ ہوتوکوئی بات نہیں ایساہوجاتاہے
معاف کردیناچاہیے ۔جس طرح دہشت گردی کے مقدمات دہشت گردی کی خصوصی عدالتوں
میں چلائے جاتے ہیں اسی طرح توہین رسالت کے مقدمات وفاقی شرعی عدالت میں
چلائے جائیں اورسماعت کرنے والے بینچ میں ججزکے ساتھ ساتھ تمام مسالک
اورہرفقہ سے تعلق رکھنے والے دو، دومفتی صاحبان کوبھی شامل کیاجائے ۔ ایسا
کرنا اگر ہمارے آئین میں نہیں ہے توآئین میں ترمیم کی جائے۔علماء کرام
کوچاہیے کہ وہ آسیہ مسیح کاکیس بھی وفاقی شرعی عدالت میں سماعت کرنے
کامطالبہ کریں۔ہم آسیہ مسیح کے حق میں فیصلہ کے خلاف احتجاج کے دوران
توڑپھوڑکرنے والوں، ٹرانسپورٹ اورقیمتی املاک کوآگ لگانے والوں اورملک وقوم
کانقصان کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی حمایت کرتے ہیں۔ ہم اس بات کی بھی
تائیدکرتے ہیں کہ کسی پرتوہین رسالت سمیت کوئی بھی جھوٹاالزام نہیں
لگاناچاہیے۔ غیر تصدیق شدہ اورصرف سنی سنائی باتوں میں آکرمشتعل نہیں
ہوجاناچاہیے ۔پہلے مکمل تحقیقات کرنی چاہیے اس کے بعداس کے خلاف مہذب راستہ
اختیارکرناچاہیے۔صرف ذاتی دشمنی کی وجہ سے کسی پراتناسنگین الزام نہیں
لگاناچاہیے۔کون سچ بول رہاہے اورکون جھوٹ ۔اس بات کافیصلہ تواب
جدیدٹیکنالوجی کی مددسے کیاجاسکتاہے۔جھوٹ پکڑنے والی مشین سے توہین رسالت
کے مدعی اورملزم دونوں کے سچ جھوٹ کاپتہ چلایاجاسکتاہے۔ معاف کرنے
اوربرداشت کرنے کایہ میڈیائی فلسفہ واقعی عوام کومعاف کرنے اوربرداشت کرنے
کادرس دینے کے لیے ہی ہوتوملک بہت سی پریشیانیوں اورمسائل سے محفوظ رہ
سکتاہے۔ |