اس وقت ماحولیاتی آلودگی پوری دنیا کے لیے خطرہ بن کے
ظاہر ہو رہا ہے۔گزشتہ دس سالوں میں فضائی آلودگی کی شرح میں حد درجہ اضافہ
ہوا ہے۔2001میں فضائی آلودگی جو120اور125PM Level(particulate
matter)ہواکرتی تھی ۔یہی فضائی آلودگی2010میں250PM levelتک پہنچ چکی تھی۔اس
کے باوجود حکومت کو جس تند دہی کے ساتھ اس مسئلہ سے نپٹنے کی ضرورت تھی وہ
نہیں ہوا۔نتیجہ میں آج فضائی آلودگی حد درجہ خطرناک حد تک پہنچ چکی ہے۔فی
الحال صورتحال یہ ہے کہ فضائی آلودگی کی شرح 400,438اور448تک پہنچ چکی
ہے۔فضائی آلودگی کے ماہرین کے سروے کی روشنی میں کرہ ارض پر بسنے والی نوے
فیصد آبادی اس مسئلہ سے دوچار ہے۔اس کی روک تھام کی کوششیں بھی کسی نہ کسی
حد تک حکومتوں کی جانب سے جاری ہیں اس کے باوجود ہر سال 70لاکھ افراد فضائی
آلودگی سے متاثر ہوکر جان بحق ہوتے ہیں۔عالمی ادارہ صحت(ڈبلیوایچ او)کی
حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہوا میں موجود زہریلے کیمیائی اجزا اسٹروکس،
دل کے دورے اور پھپھڑوں کے کینسر کی بڑی وجہ بن رہے ہیں۔رپورٹ میں بتایا
گیا ہے کہ دنیا میں ہر دس میں سے نو افراد خطرناک کیمیائی اجزا کی بلند
ترین سطح رکھنے والے ماحول میں سانس لے رہے ہیں۔ فضائی آلودگی سے ہونے والی
90 فیصد اموات ایشیا اور افریقہ کے ان ممالک میں ریکارڈ کی جاتی ہیں جہاں
عوام کی آمدنی کم یا درمیانے درجے کی ہے۔عالمی اداروں کی جانب سے چار ہزار
سے زائد قصبوں اور 108 ممالک سے اعداد و شمار جمع کیے گئے جس میں اندرونی
اور بیرونی دونوں طرح کے ہوائی معیار کوچیک کیا گیا۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے
کہ 2016 میں بیرونی ہوا میں شامل آلودہ اجزا کے باعث 42 لاکھ اموات ہوئیں
تھیں جب کہ اسی سال 38 لاکھ افراد اندرونی ہوا (گھر میں استعمال ہونے والا
فیول یا غیر معیاری تیل) میں موجود کیمیائی اجزا کے باعث ہلاک ہوئے تھے۔
اقوام متحدہ کی ایجنسی کے مطابق دنیا کی 40 فیصد آبادی کو گھریلو استعمال
کے لیے معیاری تیل تک رسائی حاصل نہیں۔یہ ناقابل قبول بات ہے کہ اس جدید
دور میں بھی خواتین اور بچوں سمیت 30 لاکھ افراد اپنے گھروں میں غیرمعیاری
تیل کے استعمال کے باعث آلودگی سے بھر پور فضا میں سانس لے رہے ہیں۔ماہرین
کا کہنا ہے کہ اگرفوری طورپراس جانب توجہ نہ دی گئی تو ان اموات میں مزید
اضافہ ہو سکتا ہے۔
عالمی ادارہ صحت کی نئی رپورٹ کے مطابق دنیا کے 108 ممالک کے چار ہزار تین
سو شہروں اور قصبوں کی فضائی آلودگی کاجائزہ لیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق
دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں ہندوستان کے شہر کان پور کا پہلے نمبر پر
ہے۔اس کے بعددوسرے نمبر ہریانہ کا فرید آباد اور اترپردیش ہی کا ایک اور
شہر بنارس تیسرے نمبر ہے۔ دیگر آلودہ شہروں میں ہندوستان کے شہر گیا(چوتھے)،
پٹنا (پانچویں)، دہلی(چھٹے)، لکھن (ساتویں)، آگرہ (آٹھویں) اور
مظفرپور(نویں)نمبر پر ہے۔ادارے کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر ٹیڈروس ایڈہانوم
غبریسس کا کہنا ہے کہ فضائی آلودگی سے متاثر ہونے والے تین ارب لوگوں میں
زیادہ تر خواتین اوربچے شامل ہیں۔ ترقی کرنے کے لیے اس پر فوری طور پر قابو
پانا ہوگا۔عالمی ادارہ صحت کے مطابق 42 لاکھ افراد گھر کے باہر کی فضا
آلودہ ہونے سے ہلاک ہوئے، گھر کے اندر پیدا ہونے والی فضائی آلودگی سے 38
لاکھ افراد کی موت واقع ہوئی۔فضائی آلودگی کی وجہ بننے والے عوامل میں
آٹوموبائل، کوڑا کرکٹ کو لگائے جانے والی آگ اور الیکڑانک مشینیوں کا بے
تحاشہ استعمال کرنا شامل ہے۔فضا میں موجود زہریلے مادے دل اور پھیپھڑے شدید
متاثر ہوتے ہیں جس سے فالج، کینسر اور نمونیا کے علاوہ دیگر بیماریاں انسان
پر حملہ کردیتی ہیں۔
موجودہ حالا ت میں فضائی آلودگی سے ہر شخص متاثر ہے اور اس کی صحت کے لیے
یہ خطرہ کا سبب ہے اس کے باوجود اس سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے لوگ
زیادہ تر غربت میں شمار ہیں ۔اور یہی وجہ ہے کہ سب سے زیادہ بیماریوں اور
صحت کے مسائل میں یہی لوگ متاثر بھی ہیں۔لیکن اس کے معنی یہ ہرگز نہیں ہیں
کہ درمیانی درجہ کے لوگ اس پریشانی سے بچے ہوئے ہیں۔وہاں بھی یہ مسئلہ بڑی
تیزی کے ساتھ جڑ پکڑتا جا رہا ہے۔دنیا کے تین ارب لوگ جن میں زیادہ تر
خواتین اور بچے شامل ہیں کا روزانہ مہلک ہوا میں سانس لینا ناقابل قبول
ہوتا جا رہا ہے۔ادارے نے 2016 میں آلودگی کی سطح پی ایم 2.5 سے زیادہ والے
جن سب سے زیادہ آلودہ شہروں کا ذکر کیا ہے ان میں دارالحکومت دہلی کے ساتھ
ہندوستان کا مقدس شہر وارانسی یعنی بنارس بھی شامل ہے۔یہ وہی شہر ہے جس نے
کبھی بقول نریندر،اپنے شہر آنے کی دعوت دی تھی، اور جس شہر نے نریندر مودی
کو ملک کے وزیر اعظم کا عہدہ دلایا تھا۔اس کے باوجود تمام تر وسائل رکھنے
کے باوجود وزیر اعظم نے اس مخصوص مسئلہ کا حل نہیں نکالا اور نہی شہر کے
لوگوں کو اس مسئلہ سے کسی بھی حد تک نجات مل سکی ہے۔اس کے علاوہ کانپور،
فریدہ آباد، گیا، پٹنہ، لکھنؤ، آگرہ، مظفرپور، سری نگر، گڑگاؤں، جے پور،
پٹیالہ، اور جودھپور شامل ہیں جبکہ چین اور منگولیا کے بعض شہر بھی اس میں
شامل ہیں۔ دریافت کیا گیا کہ آخر اس فہرست میں ہندوستان کے اتنے سارے شہروں
کے آنے کے اسباب کیا ہیں؟ تو معلوم ہوا کہ فہرست میں شامل سارے شہر شمالی
ہند کے علاقے سے تعلق رکھتے ہیں جو 'لینڈ لاک' کہلاتے ہیں۔ ان کے پاس کوئی
سمندر نہیں اس لیے فضائی آلودگی میں کمی کا قدرتی طریقہ نہیں ہے۔فضائی
آلودگی کے اسباب میں آٹوموبائل، کاربن مینجمنٹ، کھیتوں کے کوڑے کرکٹ کو نذر
آتش کرنے سے مسلسل نکلنے والے دھوئیں، جھاڑو لگانے کے بعد کوڑے میں آگ لگا
دینا، جنریٹر کو رات دن چلایا جانا اور پرانی ڈیزل کاریں شامل ہیں۔ صنعتی
کارخانے کے علاوہ سڑک پر گاڑیوں کی تعداد بھی فضائی آلودگی میں اضافے کا
سبب رہی ہیں۔
پی ایم 2.5 میں سلفیٹ، نائٹریٹ، اور کالے کاربن جیسے آلودہ کرنے والے مادے
شامل ہوتے ہیں جن سے انسانی صحت کو خطرہ لاحق رہتا ہے۔ ڈبلیو ایچ او نے کہا
کہ یہ مادے پھیپھڑوں میں جاتے ہیں اور دل کے نظام پر اثر انداز ہوتے ہیں جس
سے فالج، دل کی بیماری، پھیپھڑوں کاکینسر، سانس کی بیماری اور نمونیا سمیت
دوسرے انفیکشن ہوتے ہیں۔ادارے نے بتایا کہ گھر کے باہر کی فضائی آلودگی سے
صرف 2016 میں 42 لاکھ لوگوں کی موت ہوئی جبکہ گھر کے اندر پیدا ہونے والی
فضائی آلودگی سے 38 لاکھ افراد کی موت واقع ہوئی۔بظاہر حکومت اور ملک کی سب
سے بڑی عدالت سپریم کورٹ اس مسئلہ سے متفکر نظر آتا ہے۔جس کے نتیجہ میں وہ
سخت اقدامات کے لیے مشورے دیتا ہے۔اسی کی روشنی میں حکومت سے منسلک مرکزی
فضائی آلودگی مانیٹرنگ کمیٹی کے جاری کردہ بیان کے مطابق دارالحکومت میں
فضائی آلودگی کی سطح کو انتہائی درجے پر قرار دیا گیا ہے اور حفاظتی تدبیر
کے تحت شہر میں تعمیراتی کاموں کو 2 دن کے لئے روکا گیا ہے۔لیکن واقعہ یہ
ہے کہ سی پی سی بی کے مطابق، دہلی میں کئی جگہ پر ایئر کوالٹی انڈیکس 500
کے نشان سے اوپر ہے۔ ایسٹ دہلی کے آنند وہار علاقے میں جمعرات صبح پی ایم
10کی سطح 929 اور پی ایم 2.5 کی سطح 301 ناپی گئی ہے۔توجہ طلب ہے کہ 0 سے
50 کے بیچ ایئر کوالٹی انڈیکس کو اچھا مانا جاتا ہے، 100-51کے بیچ کو
اطمینان بخش، 200-101 کے بیچ کو درمیانی، 300-201 کو خراب، 400-301 کو بہت
خراب اور 500-401 خطرناک مانا جاتا ہے۔اور آج ہم اسی حددرجہ خطرناک آب و
ہوا کا شکار ہیں۔وہیں دوسری جانب ملک کی بیشر ریاستوں میں اسمبلی الیکشن ہو
رہے ہیں اور جلد ہی ملک میں پارلیمانی الیکشن بھی ہونے والے ہیں اس کے
باوجود کسی بھی سطح کے الیکشن میں حددرجہ خطرناک آب و ہوا کا تذکرہ نہیں
ہے۔اور غالباً ہم عوام کے لیے بھی یہ مسئلہ الیکشن میں اٹھائے جانے والے
ایشوز میں سے نہیں ہے!
|