حامد اور سانولی کا انوکھا اور خاموش تعلق بڑھتے بڑھتے
بات چیت تک جا پہنچا ۔ بات کرنے سے حامد ہی پہنچا ہوا نہیں بلکہ سانولی اُس
سے بھی زیادہ پہنچی ہوی ہے۔
وہ بتارہی تھی کہ کس طرح اُس کے والد کی جائداد پر رشتہ داروں نے قبضہ کیا
اور والد تو برداشت کر گئے اور پھر بھی اُن سے تعلقات جوڑے رکھے جو بچوں
میں بھی مُنتقل ہوۓ ۔
جائداد تک تو بات بزرگوں کی تھی مگر اُن کے بچوں کی سوچ پر بھی وہ رشتہ دار
ہاوی ہونے کی کوشش میں لگے رہتے ۔
حامد گاڑی چلا رہا تھا اور ساتھ بیٹھی سانولی کی کہانی سُن رہا تھا جو اپنا
شہر چھوڑ کر حامد کے پاس کام پر آئ ہوی تھی۔ اس طرح وہ اپنے گھر والوں کا
ہاتھ بٹانے کے لئے محنت سے روزی کما رہی تھی
اس پر بھی اُن رشتےداروں سے کڑوی باتیں بھی سُنتی اور وہ بھی اُن سے جنہوں
نے جائداد پر بھی قبضہ کیا اور اب اُس کی اچھی بھلی معصوم زندگی پر بھی
پہرا بٹھانا چاہتے تھے۔
خیال رکھنے کے بہانے اُس پر کڑی نظر رکھتے اور رویہ میں جبر رکھتے اور وہ
تنگ آچکی تھی صبر رکھتے۔
اب اُس نے فیصلہ کر لیا کہ اس بار جب وہ چھُٹی سے لوٹ کر آۓ گی تو ان لوگوں
سے کوئ رابطہ نہیں رکھے گی ۔ اُس نے اپنی امی کو بھی اعتماد میں لے لیا تھا
جو اُسے اور ان عزیزوں کو خوب سمجھتی تھیں ۔
حامد نے ویسے ہی کہ دیا
کہ کہ جتنا آسانی سے ہو کچھ پیسے صدقہ کر دیا کرو ۔اس طرح آنے والے بَلائیں
ٹل جاتی ہیں ۔
غصہ سے بولی
جو بلائیں پہلے سے ہی موجود ہیں یہ ٹلنے والی نہیں
اب ان کو ٹالنا ہی پڑے گا اور اپنی سوچ سے پرے ڈالنا ہی پڑے گا۔
اتنے میں بازار آچکا تھا جہاں سے اُس نے اپنے لئے کپڑے خریدے جو وہ کچھ دن
کے لیے اپنے گھر جاتے وقت بہنوں وغیرہ کے لیے لے جارہی تھی جو صدقہ بھی ہے
، محبت بھی ہے اور مضبوطیِ رشتہ بھی ہے ۔
ہر جگہ خوشگوار تعلقات سے کام نہیں چلتا بلکہ کہیں کہیں خوشگوار لا تعلُقی
بھی رکھنی پڑتی ہے جس کا پکا ارادہ وہ واپسی پر کر چُکی تھی جس میں حامد نے
بھی تعاون کا یقین دلایا تھا ۔
حامد کو سانولی سے ایک عجیب سی اُنسیت ہو گئ تھی ۔ اُس کے ساتھ گُزارے ہوۓ
چار مہینے تیزی سے گُزر چُکے تھے ۔ اب اُس کی جُدائ میں وقت کی رفتار سُست
ہونے والی تھی ۔ انتظار کا وقت لمحہ لمحہ گُزرتا ہے مگر سانولی کے ساتھ
گُزارا وقت لمحہ لمحہ خوشگوار یادیں لئے اس جُدائ کے وقت کو آسان بنا سکتا
ہے۔
|