کیا ہے زندگی

تحریر۔۔۔ ڈاکٹر فیاض احمد
تنہا تھی اور ہمیشہ سے تنہا ہے زندگی
ہے زندگی کا نام، مگر کیا ہے زندگی
آج کے دور میں لوگ نفسانفسی کا شکار ہیں ہر انسان کو اپنی فکر لاحق ہے اور ہر انسان کی کو شش ہے کہ وہ دوسرے کو پیچھے چھوڑ دے ہمیں ایک دوسرے کا ذرا بھی خیال نہیں ہے ہمارے ذہنوں میں ہر وقت دوسرے کو دھوکا دینا، دوسرے کی عزت نفس کو مجروں کرنا چل رہاہوتا ہے۔ مجھے آجتک اس بات کی سمجھ نہیں آئی کہ ہمارا دین کیا ہے ہم کس کی عبادت کرتے ہیں تو ہم اپنے آپ کو بڑے فخر کے ساتھ مسلمان کہتے ہیں اور اﷲ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں اور قراٰن مجید پڑھتے ہیں تو اﷲ تعالیٰ کے قرآن مجید کے مطابق ہمیں روزی دینے والا کون ہے صرف اور صرف اﷲ تعالیٰ اور ہمارے تمام احباب کا مالک خداوند کریم ہے اﷲ تعالیٰ نے جس انسان کی قسمت میں جو لکھا ہے وہ اس کو مل کر رہتا ہے یہ ہم پر منحصر ہوتا ہے کہ اس کو کس طریقے سے حاصل کرتے ہیں جو لکھا ہے وہ مل کر رہے گاوہ ہماری قسمت ہے لیکن جو ہم طریقہ کار استعمال میں لاکر اس کو حاصل کرتے ہیں وہ ہمارے ایمان کی علامت ہوتی ہے اگر ہم جائز طریقے سے حاصل کریں گے تو وہ اﷲ تعالیٰ پر پختہ ایمان کی علامت ہے اگر اس کو حاصل کرنے کیلئے ہمارا طریقہ کار غلط ہو گا تو ہمارا یقین پختہ نہیں ہے
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پے روتی رہی
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

میں نے دنیا کے بہت سے ممالک کی سیر کی ہے اور میرے تجربے کے مطابق انسان کی کوشش کے باوجود وقت سے پہلے اور قسمت سے زیادہ نہیں ملتا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ زندگی کیا ہے زندگی صرف اور صرف موت کی امانت ہے موت زندگی کی حفاظت کرتی ہے کیونکہ مقررہ وقت تک انسان کو جینا ہوتا ہے دنیا میں روزانہ ہزاروں کی تعداد میں خطرناک حد تک ایکسیڈنٹ ہوتے ہیں لیکن اس کے باوجود کئی لوگ بچ جاتے ہیں کیونکہ ان کا وقت ابھی دور ہے یعنی ایک دن مرنے کیلئے کئی سال جینا پڑتا ہے ہمیں ہر وقت صرف اور صرف آگے جانے کی تڑپ لگی رہتی ہے ہم نے کبھی سوچا ہے کہ نا جانے کونسی گلی میں زندگی کی شام ہو جائے اس لئے ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ پیار و محبت کے ساتھ زندگی گزارنی چاہیے میں مانتا ہوں کہ دولت انسان کی ضرورت ہے لیکن حد سے زیادہ بھی جان کا وبال ہے آجکل کے دور میں انسان اس دولت کی وجہ سے ایک دوسرے کی جان کا دشمن ہو گیا ہے بھائی بھائی کو مار رہا ہے یعنی رشتوں میں احساس تک ختم ہو گیا ہے ہم میں نفسا نفسی زیادہ ہو گئی ہے جس کی بدولت ہم خود غرض ہو گئے ہیں ہر انسان دولت کے پیچھے دوڑ رہا ہے کسی کو کسی کا احساس تک نہیں ہے اسی دولت نے کئی جوان لڑکیوں کی زندگی تباہ کردی ہے ہم دولت کی بدولت انسان کی عزت کرتے ہیں اور دولت سے ہی اس کا معیار دیکھتے ہیں حالانکہ بزرگوں کا قول ہے کہ کسی بھی انسان کا اندازہ اس کی دولت کو دیکھ کر نہ لگاؤاور نہ ہی دولت کو دیکھ کر رشتہ بناؤ کیونکہ دولت کے پاؤں نہیں ہوتے بس ہم میں صرف احساس کا جذبہ ہونا چاہیے کسی کی مدد کر کے اتنا سکون ملتا ہے کبھی زندگی میں کوشش کرکے دیکھنا زندگی حسین ہو جائے گی
سنا ہے زندگی امتحان لیتی ہے فراز
پر یہاں تو امتحانوں نے زندگی لے لی

Dr B.A Khurram
About the Author: Dr B.A Khurram Read More Articles by Dr B.A Khurram: 606 Articles with 525728 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.