کچھ نیکیاں ارادے کے ساتھ کی جاتی ہیں اور کچھ اچانک سرزد
ہو جاتی ہیں ۔
وہ دیر تک یاد رہتی ہیں اور ایک نیا رشتہ بنا جاتی ہیں ۔
ایک دن میں آفس سے واپس آرہا تھا ۔ رات کا وقت تھا ۔
قبرستان کے سگنل پر رُکا ۔ جب سگنل کھُلا تو آگے والی گاڑی چل کر نہ دے۔
میں نے ہارن بجانا شروع کیا اور دل ہی دل میں اُلٹا سیدھا بولنے لگا ۔ جتنا
درس صبر کے بارے میں سُنا تھا سب فراموش کر بیٹھا۔ شائد وہ کتابوں میں
پڑھنے اور درس میں سُننے کے لئے ہی ہوتا ہے ۔
اچانک ایک بڑی عمر کی ماں جیسی خاتون اُتر کر آئیں میرے پاس اور بڑی شفقت
سے کہنے لگیں کہ آپ ہارن بجاتے رہیں گے ،
کیونکہ میری گاڑی اسٹارٹ نہیں ہو رہی ہے ۔
مُجھے بڑی شرمندگی ہوئ جسے مٹانے کے لئے میں گاڑی سے اُترا اور پیشکش کی کہ
میں مکینک کو بُلوا لیتا ہوں ۔
اُنہوں نے کہا کہ مُجھے لگتا ہے پیٹرول ختم ہو گیا ہے ۔
میں ایک بوتل میں قریبی پیٹرول پمپ سے پیٹرول لے آیا ۔ اب شائد دھکا بھی
لگانا تھا ۔ اُن کی بیٹی ڈرائونگ سیٹ پر آگئ ۔ میں نے کہا سیلف ماریں ۔ اُس
نے کہا
کیسے ماروں ۔
چابی تو آپ کے ہاتھ میں ہے
ہم دونوں کو ہنسی آگئ ۔
چابی اُن کی والدہ مُجھے پکڑا چُکی تھیں ۔
خیر گاڑی اسٹارٹ ہوئ مگر انجن کی کپکپاہٹ بتا رہی تھی کہ تھوڑی ہی دیر میں
بند ہونے والی ہو جیسے جہاز والے بتاتے ہیں کہ تھوڑی ہی دیر میں ہم اُترنے
والے ہیں ۔ میں اپنی گاڑی سے پہلے ہی اُترا ہوا تھا ۔ اب میں خوش تھا ۔ اس
سے پہلے میرا چہرا اُترا ہوا تھا ۔ قُدرت نے ایسے کاموں میں خوشی رکھی ہے
جو ہم اکثر غلط جگہ تلاش کر کے پریشان ہی رہتے ہیں ۔
اب تو وہ ماں ہی بن چُکی تھیں ۔ حُکم دیا ہمیں ہمارے گھر کے قریب والے سگنل
تک اپنی گاڑی میں پیچھے پیچھے آؤ ، اگر سُنسان جگہ پھر بند ہو گئ تو ہم
اکیلے کیا کریں گے
میں نے کہا
جی بہتر
یوں یہ مختصر سفر مکمل ہوا
اور اُنہوں نے میرا نمبر لیا اور اپنے گھر روانہ ہو گئیں ۔
میں تو بھول چُکا تھا ۔
ایک دن اُن کا فون آیا اور یاد کرایا کہ میں وہی سگنل والی اماں ہوں ۔
اس بات کو کئ برس گُزر گئے مگر سال میں ایک دفعہ ضرور فون آتا ہے اور حال
احوال سُناتی رہتی ہیں اور شکایت کرتی ہیں کہ
اماں کو بھول گئے ہو۔میں نے کہا کہ اپنا نالائق بیٹا سمجھ کر رابطہ کرتی
رہیں ۔
مُجھے نہیں پتہ کہ اُن سے کون سا رشتہ ہے مگر بلا ارادہ قائم ہے۔
پہلی اطلاع میں بتایا میری بیٹی کی بات طے ہو گئ ہے
۔پھر کُچھ عرصہ بعد شادی کی اطلاع دی ۔
اب اُس کے ہاں بچی کی پیدائش ہوئ ہے ۔
آخری اطلاع میں اپنے بچوں کی شکایت کہ اپنی اپنی زندگی میں مگن ہیں اور میں
تنہا ہو گئ ہوں۔
میں بھی حوصلہ ہی دے سکتا تھا وہ میں دے رہا تھا اور اب اس سال کی خبر کا
انتظار کر رہا ہوں ۔
میں سوچنے لگا کہ اس تیسری نسل تک کی کہانی کے اس موڑ پر میں کہاں کھڑا ہوں
؟ |