"ملازمین کی لسٹ تیار ہے، ڈاؤن سائزنگ کی جارہی ہے"
یہ خبر تھی کہ تہلکہ، ہر طرف پریشانی کی لہر دوڑ گئی، شاید میں بھی فارغ
ہوجاؤں، شاید میں بچ جاؤں، ہر طرف بے یقینی کی کیفیت تھی۔۔۔
ٹھیک تین دن بعد یہ لسٹ مشتہر کردی گئی، ساٹھ ملازم فارغ کردیے گئے تھے۔۔۔
کمپنی کے پاس ایک ہی جواب تھا کہ ڈاؤن سائزنگ ناگُزیر تھی، Lay Off کرنا
ہماری مجبوری ہے۔۔۔۔
ایسے ایسے ملازم بھی تھے جن کی مدتِ ملازمت پندرہ پندرہ سال ہوچکی تھی۔۔۔۔
محنتی، ایماندار، نیک نیت لیکن کمپنی کو اِن کی چنداں ضرورت نہ تھی۔۔۔۔
فارغ ہونے والوں نے ایک گروپ بنایا اور کمپنی کے ایم ڈی سے ملے لیکن کوئی
شُنوائی نہ ہوسکی۔۔۔۔۔
دل گرفتہ گھروں کی طرف روانہ ہوئے جہاں گھر والے بھی تین دن سے بے یقینی کی
سُولی پر لٹکے ہوئے تھے۔۔۔۔۔
ایسا معلوم ہورہا تھا کہ پُرسکون پانی میں کسی نے پتھر پھینک دیا ہو، ہر
سُو عجیب خاموشی سی معلوم ہورہی تھی۔۔۔۔
پھر دوبارہ سی ویز بنانے کا سلسلہ شروع ہوا، اخبار میں اشتہارات کی تلاش
شروع ہوئی، سی ویز بھیجنے کی مشقت اور وہ بھی اتنی مدتِ ملازمت کے بعد۔۔۔۔
پھر انٹرویوز کے سلسلے شروع ہوئے، جوتیاں چٹخانے کا عمل لیکن حیرت انگیز
طور پر ملازمت نہ مل سکی۔۔۔۔۔
زیادہ تر ساتھی ایک دوسرے سے رابطے میں تھے، اول تو مواقع ہی کم تھے، اُن
میں سے بھی انٹرویو کالز بہت کم آتیں اور جو آتیں، وہ بھی انٹرویو کے بعد
خاموش ہوجاتے۔۔۔۔۔۔۔۔
جتنی بچت تھی اُس میں چند ماہ تو گزارے جاسکتے تھے لیکن طویل مدت ایسا چلنا
بہت مشکل تھا۔۔۔۔۔
فارغ ہوئے ایک مہینہ گزر چکا تھا، سات قریبی ساتھی بُجھے دلوں کے ساتھ ایک
چائے خانہ پر موجود تھے، تمہید بھی خاموشی تھی، ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اُن
کے الفاظ کہیں کھو گئے ہوں۔۔۔۔
میں تو بہت دلبرداشتہ ہوا ہوں، پہلے کمپنی کے رویے سے اور بعد میں ملازمتوں
کی مایوس کُن صورتحال سے۔ ایک ساتھی بولا۔
ہاں! ایسے کب تک چلے گا، گھر بیٹھے تو خزانے بھی ختم ہوجاتے ہوں اور ہم تو
سب تھوڑی تھوڑی بچت ہاتھ میں پکڑے ہوئے ہیں۔ دوسرے ساتھی نے بات آگے
بڑھائی۔
سب کے پاس ایک ہی موضوع تھا، ایک سے مسائل تھے۔۔۔۔۔
چھ ساتھیوں کی بات سُننے کے بعد ساتواں ساتھی بولا: تم سب کی باتیں بالکل
درست ہیں، میں نے ایک جُز وقتی حل ڈھونڈا ہے، میں نے شام کو محض دو گھنٹے
شہد کی سپلائی کا کام شروع کیا ہے، پانچ کلو کی خریداری سے آغاز کیا اور
سو سو گرام کی بوتلوں میں پیک کردیا، اوپر اپنا لیبل اور تعارف چسپاں کردیا،
ایک عجیب بات بتاؤں، ایک ہفتے میں سیل ہوگیا، سردیوں کا سیزن ہے، ابھی صرف
جان پہچان والے لوگوں کے پاس گیا ہوں، لوگ بھی میری ایمانداری سے واقف ہیں،
ایک ہفتے میں روز دو گھنٹے کی محنت کے بعد میرے پاس پانچ ہزار خالص منافع
موجود ہے یعنی مہینے کا بیس ہزار آرام سے ہوسکتا ہے۔۔۔۔
ساتویں ساتھی کی باتوں کے دوران باقی چھ ساتھیوں کے دماغ سے بھی گویا گرد
چھٹ رہی تھی، جُز وقتی کاروبار کیوں نہیں، کراچی اتنا بڑا شہر ہے، کم از کم
راشن پانی ہی چلتا رہے، شام کو ایسا کام اور دن کو انٹرویوز کی مشقت۔۔۔۔۔
آج جب سب چائے خانہ سے اُٹھے تو مثبت سوچ لیے تھے، ٹھیک ایک ہفتے بعد یہ
سات دوبارہ ملے تو اس دفعہ انٹرویوز سے زیادہ اپنے تجربات کی باتیں تھیں،
اس دفعہ طے یہ ہوا کہ کام کے اوقات بڑھا دیے جائیں، شام میں پانچ گھنٹے۔۔۔۔۔
اگلے ہفتے اکٹھے ہوئے تو جزوی کامیابیوں کی داستانیں تھیں، کسی کی کم اور
کسی کی زیادہ، دو کچھ ناخوشگوار تجربات لیے تھے لیکن سب کے مشوروں اور
تھپکیوں نے انہیں خوب حوصلہ فراہم کردیا۔۔۔۔۔
اُس سے اگلے ہفتے ملے تو تین یہ فیصلہ کرچکے تھے کہ انٹرویوز میں دن کے
اوقات ضائع کرنے کے بجائے دن میں بھی کچھ گھنٹے اسی محنت پر مختص کیے جائیں۔۔۔۔۔
اس چائے خانے کی بیٹھک کو ایک ماہ ہوچکا تھا۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سال بعد کی داستان یہ ہوئی کہ ملازمتوں کا خیال بھی سب کے ذہن سے نکل چکا
تھا، دو ساتھی جو ذرا زیادہ وسائل رکھتے تھے ٹیکسی سروس سے منسلک ہوچکے تھے،
دو شہد کے کاروبار میں پیر جما چکے تھے، دو سپلائی کا کام کررہے تھے اور
ایک پولٹری کے بزنس میں ہاتھ ڈال چکا تھا۔۔۔۔
فیصلہ سب کا یہی تھا: محنت، نیک نیتی اور ایمانداری۔۔۔۔۔
ایک دن ان سب نے اپنی کمپنی کے مہربان افسر دانش صاحب سے ملنے کا فیصلہ کیا،
دانش صاحب اِن سب کے شادمان چہرے دیکھ کر حیران رہ گئے اور اِن کی عملی
داستانیں سُن کر متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔۔۔۔۔۔۔
سر! بیشک کاروبار میں اونچ نیچ چلتی رہتی ہے، کسی ماہ اُس تنخواہ سے بھی کم
کمائی ہوتی ہے جتنی اِس کمپنی سے لیا کرتے تھے اور کبھی اتنی بھی ہوجاتی ہے
کہ تین ماہ کی تنخواہ ایک ماہ میں گویا مل گئی ہو، اب تو شُکر نکلتا ہے کہ
کمپنی نے ڈاؤن سائزنگ کے لیے ہمیں چُنا، ایسا معلوم ہورہا ہے کہ ہمارے پر
پرواز کے لیے کُھل چکے ہوں جو بچپن سے ہی بندھے ہوئے تھے، آزادی اور خود
مختاری کا احساس ساتھ ساتھ ہے۔۔۔۔۔
يونہي ہم تو ڈرتے تھے پرواز سے
گرے گھونسلے سے تو پر کُھل گئے
(یہ سچے واقعات پر مشتمل ایک تحریر ہے جو ایک دوست زبانی سنی تھی جو کراچی
میں اِسی مشہور کمپنی میں اب بھی ملازمت کررہے ہیں)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آفاق احمد (فیس بک پوسٹ) |