کسی ملک میں رواج تھا کہ جب کوئی بادشاہ مر جاتا تو
وہاں نئے بادشاہ کو منتخب کرنے کے لئے ساری رعایا اکٹھی ہوتی،تما م وزراء ،
مشیران اور دانشور ایک کھلے میدان میں بیٹھ جاتے۔بادشاہ کے دربار میں ایک
پنجرہ تھا ،اس پنجرے میں قید طوطے کو آزاد کیا جاتا ۔اب اس طوطے کی مرضی
تھی کہ جس کے سر پر بیٹھ جائے لیکن یہ طوطا جس کے سر پر بیٹھ جاتا وہ تما م
ملک و قوم کا ٹھیکیدار بن کر اس ملک کا بادشاہ قرار دیا جاتا،بادشاہ نہ
بننے کی صورت انکاری کا سر قلم کیا جاتا ہے اور دوبارہ طوطا نئے بادشاہ کے
چناؤ کے لئے چھوڑا جاتا۔پھر یہی ’’نامزد بادشاہ‘‘ سب سے پہلے اس طوطے کو
دوبارہ اگلی نامزدگی کے لئے اسی پنجرے میں قید کر دیتا اور تخت نشین ہو
جاتا۔
اس نامزدگی سے پہلے دوساتھیوں کا تذکرہ کرنا بہت ضروری ہے۔دونوں بچپن میں
بہت گہرے دوست تھے ،دونوں ملکر ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں تک میلوں سفر کر تے
اور وہاں ایک مدرسے میں تعلیم حاصل کرتے۔ان میں سے ایک بہت محنتی اور دوسرا
کام چور تھا۔محنتی ہر وقت اپنا سبق سنا دیتا اور استاد سے شاباش حاصل کرتا
جبکہ دوسر ا کند ذہن ہونے کی وجہ سے روز مولانا کی چھڑی سے مار کھاتا۔پھر
ایک روز کند ذہن کوبہت مار پڑی اور اسی مار کی وجہ سے اسے مدرسہ چھوڑنا
پڑا۔جب تھوڑا بڑا ہوا تھا اس نے قصائی کا کام شروع کر دیا۔اس کی دکان بہت
چلنے لگی۔جبکہ اس کا محنتی دوست اپنی محنت کے بل بوتے پر بہت بڑا عالم وقت
بنا اور اپنا مدرسہ چلانا شروع کر دیا۔
اب جب بادشاہ کی منادی کے لئے اعلان ہوا تو اس میں وہ دونوں دوست بھی موجود
تھے۔تقدیر کا کرنا یہی تھا کہ طوطا آزاد ہوتے ہی قصائی کے سر پر بیٹھ
گیا۔عوام الناس قصائی کو دیکھ کر بہت پریشان ہوئی ،خود قصائی بھی شاہی حکم
کی عمل داری کرتے پہنچا تھا اسے بھی اپنے بادشاہ بننے پر پچھتاوا تھا لیکن
اب چونکہ رواج یہی تھا اور حکم کی خلاف ورزی پر سر قلم ہونے کا خطرہ بھی
تھا۔لہٰذا وہ بادشاہ بن کر اپنے محل جا پہنچا۔اب جب بھی بادشاہی دربار لگتا
اس کے سامنے مختلف قسم کے گناہ گاروں کو لایا جاتا۔وہ سب کو اپنے ہاتھ میں
پکڑے ٹوکے سے سزا دیتا۔چور کے ہاتھ کاٹتا،گالیاں دینے والے کی زبان
کاٹتا،زنا کرنے والے کی ناک یا پاؤں کاٹ دیتا۔پھر کیا اس کی سزا ملنے کے
بعد مختصر عرصے میں آدھی رعایا لولی لنگڑی،اندھی،بہری اور اپاہج ہونا شروع
ہو گئی،کیونکہ عوام کی اکثریت مالی اور اخلاقی لحاظ سے کرپٹ
تھی۔دانشوروں،وزراء اور مشیران نے اس سے علیحدہ بیٹھک سجائی اور سوچا کہ اس
بادشاہ کو کیسے سمجھایا جائے کہ عوام الناس پر ٹوکہ چلانے کی بجائے کوئی
نرم سزا مقرر کرے۔ان میں کوئی سمجھدار درباری بیٹھا تھا اس نے اس مسئلے کا
حل یہ بتایا کہ اس کے بچپن کے عالم دوست کو بلایا جائے اور اس کے ذریعے اس
کی منت کی جائے کہ بادشاہ سلامت رعایا پر کچھ نرمی کی جائے۔
جس روز بادشاہی دربار میں بادشاہ کے دوست کو لایا گیا ،اس روز دربار میں
کئی قسم کی ڈشز اور میوے رکھے گئے۔بادشاہ نے اپنے عالم دوست کا گرمجوشی سے
استقبال کیا۔ملاقات کے بعد بادشاہ کے عالم دوست نے ملنے کی وجہ بتائی کہ
’’بادشاہ سلامت !آپ کے اس قصائی والے ٹوکے نے ملک و قوم کا ستیاناس کر دیا
ہے۔آپ کے ہاتھوں اندھی،اپاہج اور محتاج ہونے والی عوام نہ صرف آپ کو
بدعائیں دیتی ہے بلکہ اس وجہ سے دشمن ممالک بھی ہمارے ملک پر قبضہ کر لینے
کی پوزیشن میں ہے۔آپ اگر اپنے دربار کے عوامی فیصلے ٹوکے کے بغیر کریں تو
شاید کچھ بہتری ہو‘‘۔
بادشاہ اپنے دوست کی گفتگو سن کر آگ بگولہ ہو گیا اور دربار میں سب کو
مخاطب کرتے ہو کہا،’’جس دن بادشاہ کا چناؤ تھا وہاں میرے سے بھی زیادہ
عقلمند،پڑھے لکھے اور سمجھدار لوگ موجود تھے، اب اگر طوطا میرے ہی سر پر
آکر بیٹھا تو اس کا مطلب یہی ہے کہ مجھے تقدیر نے اسی لئے چنا ہے میں ہی اس
ملک کو بہتر چلا سکتا ہوں،یہ اور بات ہے کہ میرے انصاف کا پیمانہ ٹوکے سے
طے ہوتا ہے،جس کو برا لگتا ہے برا لگے جب تک میں بادشاہ ہوں میں یہی کرونگا
۔یہ ٹوکہ سسٹم میرے مرنے کے بعد ہی ختم ہوگا،تم نے یہاں سے دعوت کھالی
ہے،اب چلے جاؤ ،آئندہ کبھی اس قسم کی سفارش کرنے میرے دربار میں مت آنا
ورنہ یہ ٹوکہ تیری گردن کاٹ لے گا‘‘
پھر کیا! عالم وقت بادشاہی محل سے رسوا ہو کر ایسا نکلا کہ غیرت سے اپنے
ہوش و حواس کھو بیٹھا،وہ ہرجگہ لوگوں کو اکٹھا کرتا اور کہتا ،’’ہم ساری
رعایا اسی ٹوکے کے لائق ہیں،یہی ٹوکہ ہم پر چلنا چاہیئے،ہم ساری رعایابے
ایمان قوم ہیں،تقدیرنے اسی قسم کا ،ٹوکے ساز ہمارے لئے بادشاہ بنا کر بھیجا
ہے،اگر ٹوکے سے بچنا ہے تو اپنے آپکو ٹھیک کر لو،ورنہ یہ ٹوکہ ہی ہمارا
بادشاہ ہے،آؤ کوئی ٹوکہ اٹھاؤ اور میری گردن بھی کاٹو،یہ ٹوکہ ہم عوام ہیں
اور یہی ٹوکہ ہمارا بادشاہ‘‘
قارئین! پاکستان میں حالیہ الیکشن، نیب اور حکومت کی طرف نظر دوڑائیں تو
یہی لگتاہے کہ پاکستان میں ’’ٹوکہ‘‘ چل رہا ہے۔نیب الیکشن پر اثر انداز
ہوا،اپنی مرضی کے رزلٹ لئے اور اپنی مرضی کی حکومت لائی۔اب ساری اپوزیشن پر
ٹوکہ چل رہا ہے،چاہے اپوزیشن نے کوئی نیک کا ہی کیوں نہ کئے ہوں،ٹوکہ ان کا
مقدر ہے اور حکمرانوں میں قصائی جیسے کردارفوا د چوہدری،فیاض الحسن چوہان
کی زبان ٹوکہ ہے اور چلتی حکومت عوام کے لئے ٹوکہ۔مزے محض حکمرانوں کے لئے
بچے ہیں۔دوستو ہم ساری عوام جس طرح اپنی ملک و ملت کے ساتھ ایماندار ہیں
اور جس طرح ہم لوگوں نے ملک و ملت کو کرپشن میں اٹا ہوا ہے،جس طرح ہم نے
سارے اداروں میں کرپشن پھیلائی ہوئی ہے ،اب ٹوکہ ہی باقی تھا سو چل رہا
ہے۔سب کے سامنے ہے موجودہ حکمران کتنے نا اہل ہیں،جب چائنا کے صدر نے
پاکستان آنا تھا تو پی ٹی آئی نے ملک کو یرغمال بنایاہوا تھا اور جب چائنا
امدا لینے گئے تو پی ٹی آئی کی وجہ سے تحریک لبیک نے ملک میں اخیر کی ہوئی
تھی۔جو کہتے تھے ہم آئی ایم ایف سے امدا نہیں لے رہے وہ اب سعودیہ،چائنا
اور آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ پیکج لے رہے ہیں۔کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا
ہوتی ہے،دعا یہ کریں کہ اﷲ تعالیٰ ہم سب پر رحم کرے اور ٹوکے کی پوزیشن سے
ملک و ملت باہر نکل آئے۔
تعزیت : اکوڑہ خٹک سے تعلق رکھنے والے مولانا سمیع الحق درحقیت پاکستان اور
اسلام میں ایک عظیم شخصیت کا نام ہے۔ایک عالم کا مرنا گویا پوری نسل انسانی
کا مرنا ہے۔مولانا نہ صرف ایک بہت بڑے عالم وقت تھے بلکہ پاکستانی تاریخ
میں ان کی اسلامی،سیاسی اور سماجی خدمات کا اعتراف ہر پاکستانی کو
ہے۔مولانا سمیع الحق کو گزشتہ روز چند شرپسندوں نے اس وقت بے ردری سے قتل
کر دیا جب وہ اپنے گھر میں آرام فرما تھے۔حکومت کے لئے ضروری ہے کہ جلد از
ان کے قاتلوں کو ان کے انجام تک پہنچا ئیں۔اﷲ تعالیٰ مولانا سمیع الحق کو
جنت الفردوس میں اعلیٰ و ارفع مقام عطا فرمائے ،آمین۔
|