صفیں درست فرمالیں۔۔!

تبدیلی سرکارکی آمد کو تقریباً دو ماہ گزر چکے ہیں ۔ان دو ماہ کے دوران میڈیا کے توسط سے حاصل ہونے والی معلومات اور تبصروں سے ابھرنے والا مجموعی تاثر یہ ہے کہ نو منتخب حکومت نے اپنی بسم اﷲ اور دوسروں کا نعوذ با اﷲ کرنے کے سوا کوئی خاص نمایاں کام نہیں کیا اور عوام کو ریلیف دینے کے لیے تاحال کوئی واضح حکمت عملی بھی وضع نہیں کی گئی بلکہ جو کچھ میسر تھا اسے بھی عوامی پہنچ سے دور کرنے کے لیے اندھا دھند اپنی توانائیاں صرف کی جا رہی ہیں۔ حکومتی پالیسیاں اور پالیسی سازوں کے مجموعی رویے بھی نا مناسب ہیں ان حالات میں آشیانہ شاخ نازک پر نظر آرہا ہے اور ’’جو شاخ نازک پر آشیانہ بنے گا نا پائیدار ہوگا ‘‘۔

جیسا کہ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ کسی ملک کی ترقی و خوشحالی میں اس کی معیشت کا اہم کردار ہوتا ہے اور معیشت کی بد حالی قوم کی بد حالی کا نقارہ ہے اور روپے کی قدر تاریخ کی بد ترین سطح تک گر گئی ہے اور مزید گرنے کا عندیہ دیا جا رہا ہے تو ذی شعور اذہان کا مایوسی کے دھندلکوں میں گم ہونا کوئی بڑی بات نہیں ہے کیونکہ ملکی و سیاسی منظر نامہ بھی تشویشناک صورتحال اختیار کر رہا ہے کہ انتشار وافراتفری کا ایسا منظر ہے کہ عوام الناس میں اندرون خانہ جوتوں میں دال بٹ رہی ہے اور برسر اقتدار اور برسر پیکار جہاں اکٹھے ہوتے ہیں جامے سے باہر ہوجاتے ہیں پھر وہ اسمبلی فلور ہو ، عوامی اجتماع یا سیاسی ٹاک شو سبھی کے منہ سے وہ پھول جھڑتے ہیں کہ شرفاء بھی شرما جاتے ہیں ۔دوسری طرف ضمنی انتخابات سے پہلے اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف کی گرفتاری نے مزید سوالات کھڑے کر دئیے جبکہ میاں نواز شریف کی سزا معطلی پر اٹھنے والے سوالات کی گرد ابھی باقی ہے اورحکومتی حلیف کہہ رہے ہیں کہ چند دنوں تک مزید گرفتاریاں ہونے کے امکانات ہیں ۔برسر اقتدار طبقہ کی طرف سے عدلیہ اور نیب کے کرپٹ عناصر کے خلاف اقدامات کی پیشگی اطلاع میاں نواز شریف کے بیانیے کو مزید تقویت دیتی ہے بایں ہمہ حالیہ ضمنی الیکشن میں عوام نے ن لیگ کی واضح حمایت کر کے نو منتخب حکومت سے ناراضگی کا ثبوت بھی دے دیا ہے اور حالیہ ضمنی نتائج تبدیلی سرکار کے لیے واضح پیغام ہے کہ گرجنے سے نہیں برسنے سے حالات بدلتے ہیں۔

عوام میں عدم اعتماد بڑھ رہا ہے بلکہ تجاوزات گرانے کے دوران بعض بے احتیاطیوں ا ور ٹریفک سگنلز پر بھاری بھرکم جرمانوں سے متوسط اور غریب طبقات میں اشتعال انگیزی بھی دیکھی جا رہی ہے یوں محسوس ہوتا ہے کہ غریبوں کی مسیحائی کے دعوے دار قول و قرار بھلا چکے ہیں اور عوامی آہ و زاری ایوانوں سے ٹکرا کر بے ثمر واپس لوٹ رہی ہے ۔ایک ہی صدا سنائی دیتی ہے کہ ہر چور اور ڈاکو کا احتساب ہوگا‘ جتنا رونا ہے رو لو ! بادی النظر میں دیکھا جائے تو غریب جن وجوہ کی بنا پر پہلے رو رہا تھااس کا رونا مزید بڑھ گیا ہے مگر غریب کو خاطر میں کون لاتا ہے ۔۔؟ عوامی ریلیف کی جب بات ہوتی ہے ترکی بہ ترکی جواب ملتا ہے کہ ملک و قوم کی سلامتی و بہتری کے لیے برداشت کریں جو کہ داؤ پر لگ چکی ہے مگر ۔۔شاید ارباب ِاختیار بھول بیٹھے ہیں کہ :
اگر تشویش لاحق ہے تو سلطانوں کو لاحق ہے ۔۔۔نہ تیرا گھر ہے خطرے میں نہ میرا گھر ہے خطرے میں
جو بیٹھا ہے صف ماتم بچھائے مرگِ ظلمت پر ۔۔وہ نوحہ گھر ہے خطرے میں ،وہ دانشور ہے خطرے میں
وطن کو کچھ نہیں خطرہ ،نظام زر ہے خطرے میں ۔۔حقیقت میں جو رہزن ہے وہی رہبر ہے خطرے میں
حادثات میں کمی کا جواز اپنی جگہ درست سہی مگر اس حقیقیت سے انحراف ناممکن ہے کہ ہم اس ملک کے شہری ہیں کہ جہاں اگر کوئی ایک شیر مارلیتا ہے تو اُسے سو گیدڑ کھاتے ہیں تو اگر اسی اکلوتے کمانے والے سے روزگارکا اڈہ چھن جائے گا اور اس کے متبادل اسے کچھ نہیں ملے گا تو بیروزگاری اور مایوسی بڑھے گی !مایوسی سے یاد آیا پاکپتن واقعہ میں بے جا برطرفی پر جناب چیف جسٹس سپریم کورٹ بھی نوزائیدہ حکومت سے بہت ناراض ہوئے تھے اور کہا تھا کہ ’’وزیراعظم کو بتا دیں کہ میں ان سے نا خوش ہوں ، کیا نئے پاکستان میں ایسا ہوتا ہے ‘‘؟شیری رحمان نے یہی سب کچھ دیکھ کر کمال پھبتی کسی کہ ’’نیا پاکستان کہاں ڈھونڈوں ‘‘؟ ویسے حکومتی اصلاحات اور اپوزیشن جماعتوں کا ردعمل دیکھ کر مجھے تو وہ دو سردار یاد آجاتے ہیں جو کہ چمچے سے دریا میں دہی ڈال رہے تھے ۔ایک پٹھان وہاں سے گزر رہا تھا ۔یہ منظر دیکھا تو پوچھا :’’اوئے نکموں یہ کیا کر رہے ہو ‘‘؟ سردار بولا :’’ہم لسی بنا رہے ہیں ‘‘پٹھان نے قہقہ لگایا اور کہا:’’او پاگل کا بچہ !لوگ اس لیے تو تم پر لطیفے بناتا ہے ،اتنی لسی تمہارا باپ پئیے گا ‘‘؟
اگر وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان کے ویژن کا مقابلہ ماضی کے حکمرانوں سے کیا جائے تو وہاں تشہیری منصوبوں کا شور اور یہاں کلین اینڈ گرین پاکستان کا واویلا ہے جوکہ پشاور میں تو حتمی نتائج حاصل نہیں کر سکا مگر امید کی جا رہی ہے کہ اب کے ریکارڈ ٹوٹ جائے گا حیرت تو ہے کہ نو منتخب حکومت نے ماضی کے حکمرانوں کو جن اصلاحات اور فیصلوں پر آڑے ہاتھوں لیا وہ سبھی کام ڈٹ کر رہے ہیں ۔ کشکول توڑنے کا با بانگ دہل اعلان کیا گیا تھا اور جناب وزیراعظم نے عوامی اجتماع سے خطاب میں کہا تھاکہ ’’ میں نے کبھی اپنے باپ سے بھی پیسے نہیں مانگے لہذااگر مجھے آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا تو میں خود کشی کر لونگا ‘‘ تو اب وہی کشکول گلے میں ڈال لیا ہے اور جواز وہی گھسا پٹا کہ حکومت خزانہ خالی کر گئی ہے حالانکہ یہ منشور میں شامل تھا کہ وہ کرپٹ عناصر سے پیسہ ریکور کر کے ملکی خزانے کا پیٹ بھریں گے ۔ یہ کہنا پڑے گا کہ تبدیلی سرکار کے مشیروں میں بروقت اور دور اندیشی پر مبنی فیصلے کرنے کی صلاحیت کم ہے بریں وجہ عوام متنفر ہورہے ہیں۔بوکھلاہٹ کا یہ عالم ہے کہ صبح اعلان ہوتا ہے کہ پٹرولیم مصنوعات ، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا اور رات کو حکومتی ترجمان درج بالا بیان کو سوچ بچار کہہ کر ٹال دیتے ہیں حالانکہ مہنگائی کا طوفان عوام الناس پر بجلی بن کر ٹوٹ چکا ہے اور قیمتوں میں مزید اضافے کا عندیہ بھی دیا جا چکا ہے ۔ڈالر ایک رات میں 124 سے 137 تک جا پہنچا ہے اورکہا جا رہا ہے کہ آنے والے دنوں میں ڈالر کی قیمت مزید بڑھے گی یعنی تبدیلی غرباء پر قہر بن کر ٹوٹے گی تو ایسے کیسے چلے گا ؟ حکومت کہتی ہے کہ ہمیں ملک ایسی دگرگوں حالت میں ملا ہے تو بہتری آنے میں کچھ وقت لگے گا اور بہت جلد راوی چین ہی چین لکھے گا ۔۔لیکن سو دن کا خواب ابتدائی دو ماہ میں یوں چکنا چور ہوا ہے کہ عوام کہہ اٹھے ہیں کہ :
ہم نے مانا کہ تغافل نہ کروگے لیکن ۔۔۔
خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک

شنید ہے کہ اسد عمر کو ہٹانے کا بھی سوچا جا رہا ہے بلاشبہ تحقیق ہونی چاہیے کہ روپے کی قیمت ایک رات میں کیسے گری جبکہ جناب وزیراعظم کا دعوی تھا کہ انھوں نے دنیا کی بہترین معاشی ٹیم منتخب کی ہے جو ملکی معشیت کو دلدل سے نکال لے گی تو ایسے ارسطو اور افلاطون کہاں مصروف رہے کہ امید کے گھروندے مسمار ہونے لگے مگر یہ بھی سچ ہے کہ ناکام لوگوں کی خواہشات اور امیدیں ہوتی ہیں جبکہ کامیاب لوگوں کے مقاصد اور منصوبے ہوتے ہیں اگر نا موافق حالات میں آپ اپنی خواہشات کو عملی شکل دینے لگ جائیں تو خواب خیالی پلاؤ ہی رہتا ہے ۔کامیابی کا انحصار انہی حالات پر ہے کہ آپ نے ذات کو بھلا کر اپنے مقصد میں کامیابی کے لیے کتنی کوشش کی ہے اور یہی انداز فکر امیدوں اور نتائج کی بنیادوں کو پختہ کرتا ہے کہ آپ چوکس رہیں، امید اور احیتاط کو ملحوظ خاطر رکھیں تو آپ ہر مقصد میں کامیاب ہو سکتے ہیں ۔ایسا محسوس ہو رہا کہ جیسے حکومت کی ترجیحات نمائشی اور غیر تعمیری ہیں جبکہ وعدے تعمیری تھے بریں وجہ مایوسی کی لہر پھیل رہی ہے چار چار گھنٹے کی تقریریں کرنے سے بہتر ہے کچھ کر کے دکھایا جائے مگر دروغِ بر گردنِ راوی جناب وزیراعظم نے قومی خزانے کا پیٹ جرمانوں اور عوام کا پیٹ لمبی لمبی تقریروں سے بھرنے کو ویژن سمجھ لیا ہے اور مشیران و وزیران نے ملک کو تجربہ گاہ بنا لیا ہے جہاں ہرروز نت نئے تجربات کئے جاتے ہیں اگرتجربہ کامیاب ہو جائے تو رعونت قابل دید ہے اور اگر ناکامی کا سامنا ہو تو گزشتہ حکومتوں کی ناکامیوں اور کار کردگیوں کا رونا دھونا شروع ہو جاتا ہے ۔
جہاں تک بات ہے پنجاب کی تو وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار کے خلاف عوام وخواص میں عدم اعتماد کی فضا ہے ۔رائے عامہ یہی ہے کہ عمران خان نے پنجاب کے ساتھ مذاق کیا ہے کیونکہ ابھی تک وزیراعلیٰ پنجاب کا کوئی ایسا بیان یا اقدام نظر نہیں آیاجو انھیں اہل عہدے دار ثابت کرے اکثر دیکھا گیاہے کہ اگروزیراعلیٰ پنجاب کو میڈیا گھیر لیتا ہے تو ان کے پیچھے کھڑاشخص ان کی راہنمائی کرتا ہے بریں وجہ میڈیا کا رویہ بھی افسوسناک ہے کہ قبل ازیں بھی ایک صحافی نے وزیراعلیٰ پنجاب سے نا پسندیدہ سوال کی جسارت کی اور اب پھر ایک صحافی نے ’’گرین اینڈ کلین پاکستان ‘‘ مہم سے افتتاح کے موقع پر ان سے ’’ڈمی وزیراعلیٰ ‘‘ سے متعلق سوال کر دیا جس پروزیراعلیٰ نے صحافی سے ہی الٹا سوال کر دیا کہ ’’اگر میں بے اختیار وزیراعلیٰ ہوں تو بتا دیں اختیارات کس کے پاس ہیں ‘‘؟ ان تمام حالات اور مسائل پر نو منتخب حکومت کی یہ تقرری اور اس پرجناب وزیراعظم کا جارحانہ ردعمل سوالیہ نشان ہے ۔

بہرحال دنیا کا مختصر ترین خطبہ سوڈان کے شیخ عبدالباقی مکاشفی نے دیا تھا ،وہ منبر پر بیٹھے اور اور فرمایا ’’بھوکے مسکین کے پیٹ میں ایک لقمہ پہنچانا 1000مساجد کی تعمیر سے بہتر ہے ،صفیں درست فرما لیں ‘‘۔ تو بہتر یہی ہے کہ سبھی صفیں درست کریں اور مسکینوں کی آہ وبقاسے بچیں کہ یہ وقت بھی گزر جائے گا مگر آنے والا وقت مشکل سے گزرے گا ۔حکومتی عمائدین کو چاہیے کہ انتہائی سنجیدگی اور خلوص کا اظہار فرمائیں ۔گورنر ہاؤس اور وزیراعظم ہاؤس اپنی جگہ مگر مثبت تبدیلی کے لیے دن رات کام کریں اور ہر طبقہ کے لیے بہترین سوچیں ۔
 

Roqiya Ghazal
About the Author: Roqiya Ghazal Read More Articles by Roqiya Ghazal: 127 Articles with 102940 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.