علامہ اقبال اور قومی زبان

کل علامہ اقبال کے یاد میں منعقدہ ایک تقریب میں شرکت کا موقعہ ملاتو وہاں بیٹھے میں مسلسل شرمندگی محسوس کرتا رہا کہ میں اقبال کے بارے میں کتنا جانتا ہوں۔ پہلے کبھی اقبال کے یوم ولادت و وفات کی مناسبت سے سرکاری چھٹی ہوتی تھی، تعلیمی اداروں میں تقریبات ہوتیں تھیں۔ سیاسی، سماجی اور علمی مجالس میں بھی تلاوت، نعت کے بعد کلام اقبال پڑھنے کا بھی رواج تھا۔ وفاقی اور صوبائی سطح پر سرکاری طور پر فکر اقبال پہ سیمینار ہوتے رہتے تھے۔ اخبارات خصوصی ایڈیشن کا اہتمام کرتی تھیں۔ کسی نہ کسی بہانے اقبال ہماری زندگی میں زندہ و جاوید محسوس ہوتے تھے۔

جب سے امریکی ایماء پر حکمرانوں نے فکر اقبال کو نصابی کتب سے نکالا ہے تب سے فکر اقبال ہمارے قلب و اذہان سے محو ہوتی چلی گئی ہے۔ آج اقبال ہمارے ہاں ایک مفکر کے بجائے ایک سیاسی شخصیت کے طور پر زندہ ہیں۔ معلومات عامہ کی کتابوں میں ان کی تاریخ پیدائش، وفات اور تحریک آزادی پاکستان کے لیے ان کی کچھ خدمات کا ذکر مل جاتا ہے۔ ہماری نسل میں کچھ لوگ اقبال کو خوب جانتے ہیں جبکہ ہماری اگلی نسل اقبال کو بس ایک بڑے آدمی کے طور پر جانتی ہے۔ اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو چند سال بعد اقبال ہماری قومی زندگی سے غائب ہوجائیں گے۔اقبال نے اسی وجہ سے تو جواہر لعل نہرو کے نام اپنے مکتوب میں قومی زبان کے بارے میں کہا تھا کہ ـ’’اردو زبان کے بارے میں میری لسانی عصبیت کسی طرح بھی دینی عصبیت سے کم نہیں‘‘۔

اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ اقبال فراموشی کی ایک بڑی وجہ قومی زبان سے اعراض بھی ہے۔ اقبال تو اردو اور فارسی میں پایا جاتا ہے۔ فارسی کو ہم کب سے دیس نکالا دے چکے ہیں اور اردو کو بھی پوری قوت سے تعلیمی اداروں اور سرکاری دفاتر سے باہر نکالا جا چکا ہے۔اقبال تو مشرق کی آواز تھی، اسلام کا ترجمان اور قرآن کا مفسر تھا۔ انگریزی کے غلبے نے ہمیں فکری طور پر بانچھ کردیا ہے۔ جس کے نتیجے میں ہمارے اندر سے مشرقی اقدار، اسلام سے محبت اور قرآن سے تعلق اگر مکمل طور پر ختم نہیں ہوا تب بھی بڑی حد تک ہم ان تینوں محوروں سے دور ہوتے چلے جارہے ہیں۔ اقبال نے اسی پیرائے میں کیا خوب کہاتھا:
تعلیم کے تیزاب میں ڈال کر اس کی خودی کو
ہوجائے ملائم تو جدھر چاہے اسے موڑ
ہم تو سمجھے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم
کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا الحاد بھی ساتھ

قومی زبان کسی بھی قوم کی پہچان ہوتی ہے۔ جب قومی زبان ہی قومی زندگی سے نکال دی جائے تو پھر پہچان کیسی؟۔ پہچان ہی درراصل قومی عصبیت، قومی غیرت اور قومی حمیت کو جنم دیتی ہے۔ ان اوصاف کو جنم دینے والے چشمے ہی سوکھ جائیں تو قومی حمیت اور قومی پہچان کی حس بھی ختم ہو جاتی ہے۔ آج کا پاکستان اس کی بدترین مثال ہمارے سامنے ہے۔ پاکستان میں انگریزی طبقے کے سکولوں میں اردو میں بات کرنے پر طلبہ کو بھاری جرمانے کیے جاتے ہوں اور ہماری غیرت نہیں جاگتی۔ اس سے بڑھ کر بے حمیتی اور کیا ہوگی۔ جس ملک میں عوام کو قومی زبان کے بجائے بدیسی زبان میں مخاطب کیا جائے، قانون غیر ملکی زبان میں بنائے جائیں، عدالتیں فیصلے بھی غیر ملکی زبان میں کرتی ہوں اور کار سرکار انگریزی میں انجام دئے جاتے ہوں تو اس سے زیادہ قومی زبان کی توہین اور کیا ہوگی۔ صد افسوس! ملک کے کسی کونے سے قومی زبان کی اس بے توقیری پر آواز بلند نہیں ہوتی۔ عوام اور خواص کے نزدیک قومی زبان کی کوئی اہمیت نہیں۔ یہ سب کچھ انگریزی کے تسلط کی وجہ سے ہے۔ بات قومی زبان تک محدود نہیں، اس کے نتیجے میں قومی حمیت اور غیرت بھی بے معنی لفظ ہو چکے ہیں۔ انہی وجوہات کی بناء پر اقبال، قائداعظم اور ہمارے دیگر زعماء ہمارے حافظے سے محو ہو تے جارہے ہیں۔

اب بھی وقت ہے بلکہ تبدیلی کے بلند آہنگ نعروں کی گونج میں مناسب ترین موقع ہے کہ ہم دستور پاکستان کی دفعہ 251 اور سپریم کورٹ کے فیصلے 8 ستمبر 2015 پر عمل درآمد پر زور دیں اور قومی زبان کوعزت دلوانے کے لیے اپنی آواز بلند کریں۔ قومی زبان کے نفاذ کے بعد ہی قوم اقبال شناسی کی طرف لوٹے گی ورنہ اس کا کوئی اور طریقہ ابھی تک ایجاد نہیں ہوا۔

Atta ur Rahman Chohan
About the Author: Atta ur Rahman Chohan Read More Articles by Atta ur Rahman Chohan: 129 Articles with 117144 views عام شہری ہوں، لکھنے پڑھنے کا شوق ہے۔ روزنامہ جموں کشمیر مظفرآباد۔۔ اسلام آباد میں مستقل کالم لکھتا ہوں۔ مقصد صرف یہی ہے کہ ایک پاکیزہ معاشرے کی تشکیل .. View More