نورا کشتی

گزشتہ چند روز سے ایم کیو ایم اور مسلم لیگ (ن) کے مابین الفاظ کی جنگ تیز ہو چکی ہے اور روزانہ دونوں جماعتوں کے قائدین کوئی نہ کوئی نیا شوشہ اور میزائل چھوڑ دیتے ہیں جس سے کسی حد تک عوام کے ذاتی اور گھریلو تناﺅ میں تو کمی آجاتی ہے لیکن سیاسی درجہ حرارت بڑھ جاتا ہے، ذاتی اور گھریلو تناﺅ کی بات میں نے اس لئے کی ہے کہ جس طرح کے شگوفے دونوں جماعتوں کے راہبر ایک دوسرے کے بارے میں چھوڑتے ہیں اس سے اکثر و بیشتر ایک مزاحیہ تاثر پیدا ہوتا ہے اور لوگ اپنے غموں کو بھولنے کے لئے سیاست کی بھول بھلیوں میں گم ہونے کی اپنی سی کوشش ضرور کرتے ہیں۔ حجاموں کے پاس، نجی محافل میں، دوستوں کی گپ شپ میں حتیٰ کہ میاں بیوی اور بھائیوں کی آپس کی گفتگو میں بھی اسی حوالے سے مزاح پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ الطاف حسین کے فوجی وردی والے بیان نے تو سونے پہ سہاگہ کا کام کیا ہے۔ آج میرے دو بھتیجے آپس میں ”بر سر پیکار “تھے اور ایک دوسرے سے مونگ پھلی چھیننے کی کوشش کررہے تھے تو اچانک چھوٹے نے بڑے سے کہا ”اگر تم باز نہ آئے تو میں فوجی وردی پہن لوں گا“ بڑا کہاں چپ رہنے والا تھا، کہنے لگا”انڈیا کی فوج کی یا برطانیہ کی؟“چھوٹا ہنستے ہوئے کہنے لگا ”اور اگر تم نے پھر بھی ”شرافت“ اختیار نہ کی تو میں وردی اتار بھی دوں گا“بڑا کہنے لگا ”شرم کرو، سب کے سامنے اتارنے کی باتیں کر رہے ہو“ تو مونگ پھلی کا آخری دانہ چھیننے کی کوشش کرتے ہوئے چھوٹے صاحب یوں گویا ہوئے ”مشرف کی وردی کے پیچھے تو پوری قوم پڑی ہوئی تھی، میں تو ویسے بھی ابھی بچہ ہوں“، ان کی باتیں سن کر میں زیر لب ہنس بھی رہا تھا، انجوائے بھی کر رہا تھا اور سوچ بھی رہا تھا کہ یہ ہم نے کس طرح کی سیاست شروع کر رکھی ہے، بحیثیت قوم ہم کہاں پہنچ چکے ہیں اور ہمارا مستقبل کیا ہوگا! اسی تناظر میں جب دوستوں کی محفل میں حاجی اشرف سے بات چیت ہوئی تو وہ کہنے لگا کہ ہم بے صبری قوم بن چکے ہیں ، جب سیاسی حکومت ہوتی ہے تو ہمیں فوج اچھی لگتی ہے اور جب فوجی اقتدار میں ہوتے ہیں تو ہم جمہوریت کی یاد میں ”ٹسوے“ بہاتے رہتے ہیں، ہماری قوم کے مزاج میں کوئی تسلسل نہیں، ہم بہت جلد چہروں سے اکتا جاتے ہیں اور تبدیلی چاہنے لگتے ہیں جبکہ دوسری طرف یہ ہمارے سیاسی رہنما ہی ہوتے ہیں جو ہمیں ایسی راہ دکھاتے ہیں، جو ہمیں ایسے نعرے دیتے ہیں کہ مجبوراً ہمیں ان کے پیچھے جانا پڑتا ہے، جب ہم بہت سارا سفر طے کرچکے ہوتے ہیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ منزل تو دور کی بات، ہماری تو سمت ہی ٹھیک نہیں، ہم تو کسی بے آب وگیا صحرا میں آبلہ پا چلتے جارہے ہیں، پیاس بجھانے کے لئے پانی نہیں، دھوپ سے بچنے کو کوئی سائبان نہیں....! اس سے پہلے کہ حاجی صاحب مزید تقریر فرماتے، ایک اور دوست نے انہیں ٹوکا اور کہا کہ حاجی صاحب یہ تو آپ فلسفیانہ گفتگو لے کر بیٹھ گئے، آپ مسلم لیگ اور ایم کیو ایم کی جنگ کے بارے میں کچھ اظہار خیال کریں، حاجی صاحب کہنے لگے، ”چھوڑو یارو! سب نورا کشتی ہے اور ایم کیو ایم کو استعمال کیا جارہا ہے“ حاجی صاحب کے ان لفاظ سے سبھی چونکے اور ذرا سیدھے ہوکر بیٹھ گئے۔

جب حاجی صاحب نے دیکھ لیا کہ ان کی بات کا خاطر خواہ اثر ہوگیا ہے تو وہ تکیے کے ساتھ ٹیک لگا کر، سب کے چہروں کو باری باری دیکھ کر بولے ”میرے پیارو! کیا آپ کے علم میں نہیں کہ ایم کیو ایم اور مسلم لیگ دو مرتبہ اکٹھی اس ملک کے غریب عوام پر حکومت کرچکی ہیں، کیا آپ لوگ نہیں جانتے کہ اس وقت دونوں جماعتیں ایک ایک صوبے میں پیپلز پارٹی کے ساتھ اقتدار میں شریک ہیں، کیا آپ لوگوں کے علم میں نہیں کہ ایم کیو ایم کراچی سے نکل کر اندرون سندھ اور باقی ملک میں جانے کی متمنی ہے اور مسلم لیگ باقی ملک میں پر پھیلانے اور خصوصاً پنجاب میں اکثریت حاصل کرنے کی خواہاں ہے؟ سب دوستوں نے ہاں میں سر ہلادیا، میں نے لقمہ دیا ”لیکن اس میں نورا کشتی والی کیا بات ہے“، حاجی صاحب نے غصے سے مجھے گھورا اور کہنے لگے ”مجھے پتہ تھا، تم ہمیشہ بڑی جلدی میں ہوتے ہو، اس وقت بھی ذہن میں یقیناً اپنے کالم کا پلاٹ بنا رہے ہوگے“ میں نے کہا ”ویسے تو اب پلاٹ بہت مہنگے ہوچکے ہیں، کیا ایک غریب اب کالم کا پلاٹ بھی نہیں بنا سکتا؟“ حاجی صاحب نے شفقت بھری نگاہوں سے مجھے دیکھا اور کہنے لگے، وہ پلاٹ بھی اللہ تعالیٰ دے دے گا، ماشاءاللہ اب تو کافی سارے کالم نویس ”پلاٹ یافتہ“ ہوگئے ہیں، ساتھ ہی پھر مصنوعی غصہ دکھانے لگے کہ اب ذرا غور سے میری بات سن لو، پھر میرے تاش کا وقت ہوجائے گا۔ جب ہم سب دوست ہمہ تن گوش ہو گئے تو حاجی صاحب دوبارہ بولے ”اصل میں میاں صاحب اب بہت سیانے اور عقلمند ہوگئے ہیں، وہ تو جلاوطنی کاٹ کر پوری شان بان سے اور کاروبار کو مزید پھیلا کر واپس آگئے لیکن ”بھائی“ صاحب ابھی باہر ہی ہیں اور انہوں نے انگلینڈ کی شہریت حاصل کرلی ہے، اس بات سے آپ اندازہ لگائیں اور ذرا سوچیں کہ کیا ایک عام اور غریب پاکستانی کی سوچ امریکن، کینیڈین یا انگلینڈ کی شہریت پر آکر رک نہیں جاتی، کیا بہت سارے پاکستانی صرف اس لئے اپنا گھر بار، ماں باپ، بہن بھائی ، کاروبار اور نوکری چھوڑ کر امریکہ، کینیڈا اور برطانیہ نہیں چلے جاتے کہ وہاں وہ اور ان کی آنے والی نسلیں زیادہ محفوظ ہوں گی، کیا وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر صرف گرین کارڈ کو اپنی زندگی کا مقصد نہیں بنا لیتے،پھر کہنے لگے، خیر یہ تو جملہ معترضہ تھا، اصل بات کی طرف آتے ہیں، میرے نزدیک حقیقت یہ ہے کہ اگر میاں صاحب نے حکومت کی اگلی باری لینی ہے تو انہیں پورے ملک کے ساتھ ساتھ پنجاب میں لازمی طور پر واضح اور فیصلہ کن برتری لینا پڑے گی اور وہ دراصل اس کی تیاری میں لگے ہیں، کوئی مانے یا نہ مانے لیکن ایک حقیقت ہے کہ پنجاب میں ایم کیو ایم کے راستے کی ایک بڑی دیوار بارہ مئی کا واقعہ ہے، جس کو ہمیشہ مسلم لیگ نے اٹھانے کی کوشش بھی کی ہے، ایک اور حقیقت یہ ہے کہ کراچی اور پنجاب کے واقعات میں کوئی مماثلت ہرگز نہیں ہے اور یہ ایک ایسی بات ہے جو پاکستان کا بچہ بچہ جانتا ہے، کیا ایسی صورت میں الطاف حسین کا بیان آپ کو ذرا بھی سنجیدہ لگتا ہے، آپ تھوڑا سا ماضی میں چلے جائیں تو ایم کیو ایم کی لیڈرشپ کی جانب سے یہ بیان بھی ریکارڈ پر ہے کہ پنجاب کے ہر گھر میں روزانہ مجرے ہوتے ہیں، ایک اور اہم بات جس کا ادراک آپ لوگ نہیں کررہے کہ سائیکل والی پارٹی جس نے مشرف دور میں ایم کیو ایم کو پنجاب میں نہیں گھسنے دیا تھا، اب کیوں نائن زیرو یاترا کررہے ہیں، الطاف حسین کا یہ بیان کہ اصل اپوزیشن پارٹی مسلم لیگ (ق) ہے اس جانب اشارہ کرتا ہے کہ اب وہ پنجاب میں سائیکل کی بیساکھی استعمال کرنے کے چکروں میں ہیں، لیکن یہاں سب سے اہم بات یہ ہے کہ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ پنجاب میں آئندہ الیکشن میں مسلم لیگ (ق) کا کیا ”سکوپ“ ہے، حاجی صاحب تھوڑی دیر رک کر کہنے لگے، میرے خیال میں آئندہ الیکشن میں مسلم لیگ (ن) ایک طرف ہوگی اور تحریک انصاف اور جماعت اسلامی دوسری طرف، اصلی الیکشن ان تین جماعتوں کے مابین ہوگا وہ بھی اس صورت میں اگر تحریک انصاف اور جماعت اسلامی آپس میں اتحاد یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرلیتے ہیں تو، جبکہ پیپلز پارٹی کسی حد تک ان سب کا مقابلہ کرنے کی کوشش کرے گی، میرا گمان ہے کہ اصحاب قاف کے اکثر ”قائدین“ الیکشن سے پہلے نواز لیگ میں شامل ہوچکے ہوں گے، ایسی صورتحال میں قاف لیگ والے ایم کیو ایم کو کیا فائدہ دے سکتے ہیں؟ ایک فون سننے کے بعد دوبارہ بولے کہ لگتا ہے مسلم لیگ والوں نے اپنے کچھ لوگ الطاف حسین کے پاس ”بھرتی“ کروادئے ہیں اور ایم کیو ایم نے مسلم لیگ کے کچھ لوگ قابو کر رکھے ہیں تاکہ اس طرح کے بیانات سے سندھ اور پنجاب کے عوام میں ایک تناﺅ پیدا کروا کر، نفرت کی بنیاد پر الیکشن میں کامیابی حاصل کی جاسکے، ویسے مجھے ذاتی طور پر یہ محسوس ہوتا ہے کہ میاں نواز شریف اور الطاف حسین کے مابین اندر کھاتے ڈیل ہوچکی ہے تاکہ اس طرح کے بیانات سے ایک دوسرے کو سپورٹ کیا جاسکے اور آپ لوگ دیکھ لینا کہ وہ دن دور نہیں جب یہ دونوں ایک بار پھر باہم مل کر حکومت بنائیں گے اور اس وقت آپ کو سمجھ آئے گی واقعی یہ سب ”نورا کشتی“ تھی اور میں صحیح کہتا تھا، ہمیں حیران چھوڑ کر وہ تاش کی بازی کے لئے اٹھ گئے....!
Mudassar Faizi
About the Author: Mudassar Faizi Read More Articles by Mudassar Faizi: 212 Articles with 222470 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.