ماسکو میں افغانستان کے موضوع پر عالمی مذاکرات کی خاص
بات افغان طالبان کو دعوت نامے کے بعد دوحہ قطر سے باہر بین الاقوامی فورم
میں باقاعدہ شرکت ہے ۔ماسکو کانفرنس میں امارت اسلامیہ، سیاسی دفتر کے
نمائندوں کی شرکت کے حوالے سے وضاحتی بیان جاری کرچکے ہیں’’ کہ روس کے
دارالحکومت ماسکو شہر میں 09نومبر 2018 کو منعقدکانفرنس میں شرکت کے لیے
امارت اسلامیہ کے سیاسی دفتر کو موصول دعوت نامہ کو قبول کیا گیا ۔کانفرنس
میں امارت اسلامیہ کے سیاسی دفتر کا اعلی وفد نے شرکت کی،مرکزی ترجمان کے
مطابق ’’مگر ایک بات کی وضاحت ضروری ہے ، وہ یہ کہ مذکورہ کانفرنس کسی جہت
سے مذاکرات کی کانفرنس نہیں ہے، بلکہ کانفرنس میں تحقیقاتی اور ہمہ پہلو
بحث ہوگی،کہ افغان مسئلہ کس طرح پرامن طریقے سے حل اور امریکی و نیٹو افواج
کا انخلا ہوسکے۔اس حوالے سے مختلف پہلو اور اشخاص اور امارت اسلامیہ کے
نمائندے بھی امریکی موجودگی کو ختم کرنے سمیت تنازعہ کے تمام پہلوؤں اور
اسی طرح خطے کو امن و سلامتی لوٹانے کی خاطر اپنا مؤقف شرکاء کو سنائے
گا‘‘۔
گزشتہ دنوں 9برس بعد رہا ہو کر گھر جانے والے ملا عبدالغنی بردار کا سیاسی
کردار ابھی سامنے نہیں آیا ہے۔ تاہم افغان طالبان اپنے سینئر رہنما کی
رہائی پر خوش ہیں ۔بلیک لسٹ کئے گئے دیگر افغان طالبان رہنما ؤں کو سفر کی
اجازت مل جاتی ہے تو افغانستان میں قیام امن کے کسی فارمولے پر بہتر کام
ہوسکتا ہے۔(ا مریکی بلیک لسٹ کی وجہ سنیئر رہنماؤں کو سفر کی آزادانہ اجازت
نہیں ہے)۔ تاہم ماسکو کانفرنس میں دوحہ کے سیاسی دفتر سے اعلیٰ سطح کے وفد
کی آمد اہم اور حوصلہ افزا ہے۔ نیٹو کے سیکریٹری جنرل جینس اسٹول ٹنبرگ
7نومبر کو افغانستان کے اچانک دورے پر پہنچے اور اشرف غنی کے ساتھ مشترکہ
پریس کانفرنس کی۔نیٹو کے سربراہ جینس اسٹول ٹنبرگ نے موجودہ دور کو
افغانستان میں امن کا سنہری موقع قرار دیتے ہوئے طالبان سے جنگ ختم کرنے کا
مطالبہ کیا ۔ ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں امن کے قیام کا جتنا بہتر
موقع آج میسر ہے، اس سے پہلے کبھی نہیں تھا لیکن اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے
اس بات کو بھی تسلیم کیا کہ صورتحال ابھی بھی بہت گمبھیر ہے۔علاوہ ازیں6/7
نومبر کوپاکستان کے دورے پر آئی نائب وزیر خارجہ ایلس ویز نے بھی27/28نومبر
کو جنیوا میں بین الاقوامی حمایت کے حصول کے لئے کانفرنس کرانے کا اعلان
کردیا ہے۔ تاہم خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ اس ماسکو کانفرنس کے انعقاد سے
امریکا اور افغان طالبان کے درمیان براہ راست مذاکراتی عمل کو نقصان پہنچ
سکتا ہے۔دوسری جانب امریکا میں وسط مدتی انتخابات میں صدر ٹرمپ کے لئے
آئندہ صدارتی انتخابات کے لئے بھی مشکلات پیدا کردی ہیں اس لئے صدر ٹرمپ
موجودہ امریکی نتائج کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی بھی
کرسکتے ہیں۔ کیونکہ امریکی عوام مہنگائی اور بے روزگاری کی وجہ افغان جنگ
کو قرار دے رہی ہے اور عوامی مطالبات بھی یہی ہیں کہ امریکا افغان جنگ سے
باہر نکل آئے ۔
افغانستان میں قیام امن کے لئے اس سے قبل بھی روس ثالثی کی پیش کش کرچکا
تھا۔ کابل میں افغان دفتر خارجہ کے ترجمان صبغت اﷲ احمدی نے 4 ستمبر کو
ماسکو میں ہونے والی امن کانفرنس میں حصہ لینے سے انکار کردیا تھا۔ تاہم
روسی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری اعلامیہ کے مطابق 9نومبر کو ہونے والی
ماسکو کانفر نس میں اشرف غنی نے حکومتی وفد بھیجنے کے بجائے آمادگی ظاہر کی
تھی ۔ لیکن غیر حکومتی وفد افغانستان امن کونسل کا چار رکنی وفد آزاد حیثیت
میں شرکت کی۔ افغان طالبان سے سائیدلائن ملاقات نہیں کرے گا۔ روس نے
پاکستان ، کابل کے ساتھ امریکا ، چین ، بھارت،ایران اور وسطی ایشیا کے
5ممالک کازغستان، تاجکستان، کرغستان، ترکمانستان اور ازبکستان کو بھی عالمی
مذاکرات میں شمولیت کی دعوت دی تھی۔ امریکا اس سے قبل روسی پلیٹ فارم سے
مذاکراتی دور میں شرکت سے انکار کرچکا تھا۔ تاہم اب جنیوا کانفرنس کا
انعقاد کے اعلان سے سے قبل ماسکو میں افغانستان میں قیام امن کی کوششوں میں
پہلی بار اہم اسٹیک ہولڈرز کو شمولیت اور با مقصد مذاکرات کی دعوت ایک اہم
پیش رفت قرار دی جا رہی ہے ۔ خاص طور پر افغان طالبان کے اعلیٰ سطحی وفد کی
موجودگی میں ہونے والے ان مذاکرات سے مستقبل کا لائحہ عمل طے کرنے کے لئے
خطے کے اہم ممالک کا کردار بڑا اہم ہوگا ۔ واضح رہے کہ روس ہی نہیں بلکہ
جرمنی بھی افغان طالبان سے خطے میں امن کے لئے قیام کے لئے ابتدائی نوعیت
کی بات چیت افغانستان میں انتخابات سے قبل کرچکا ہے۔ اس بات کی تصدیق برلن
کی جانب سے کی جا چکی ہے۔ طالبان سے ابتدائی مذاکرات افغانستان میں دیرپا
قیام امن کے لیے طالبان کے ساتھ مذاکرات کی کوششوں میں جرمنی اہم کردار ادا
کرنے کو تیار ہے ۔ پاکستان اور افغانستان کے لیے جرمنی کے خصوصی مندوب
مارکوس پوٹسیل نے تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ ، ’’امریکی نمائندوں نے بھی حال
ہی میں قطر میں افغان طالبان کے نمائندوں سے ملاقاتیں کیں۔ ہم (جرمنی) بھی
طالبان کے ساتھ ابتدائی مذاکرات میں مصروف ہیں۔ میری رائے میں برلن اس
مذاکراتی عمل میں اپنا ایک خصوصی کردار بھی ادا کر سکتا ہے۔‘‘مارکوس پوٹسیل
کا مزید کہنا تھا کہ، ’’افغان عوام جرمنی اور جرمنوں پر بہت زیادہ اعتماد
کرتے ہیں۔ افغان حکومت تو خاص طور پر۔ اور ایک خاص حد تک تو افغان طالبان
بھی یہ چاہتے ہیں کہ جرمنی ان کے اور کابل حکومت کے مابین مکالمت میں سہولت
کار کے فرائض انجام دے۔‘‘ تاہم ساتھ ہی اس اعلیٰ جرمن سفارت کار نے یہ بھی
کہا کہ افغانستان کا مسلح تنازعہ بالآخر خود افغانوں کو آپس میں مل کر ہی
طے کرنا ہو گا۔ مارکوس پوٹسیل نے اعتراف کیا کہ قریب 17سال سے افغانستان
میں اپنی عسکری طاقت کے ساتھ موجود بین الاقوامی برادری نے نگرا نی کے کسی
نظام کے بغیر افغانستان کو بہت زیادہ مالی وسائل فراہم کیے، کسی کنٹرول کے
بغیر رقوم پانی کی طرح بہائیں۔ اس سے وہاں بدعنوانی کو مزید ہوا ملی۔‘‘
رواں سال مئی میں اسلام آباد اور کابل نے ’افغانستان پاکستان ایکشن پلان
فار پیس اینڈ سولیڈیرٹی‘ کے فریم ورک کے تحت انسداد دہشت گردی، امن و
مصالحت، پناہ گزینوں کی واپسی اور مشترکہ اقتصادی ترقی اور سرحد کی نگرانی
سے متعلق معاملات کو حل کرنے کے لیے ایک لائحہ عمل وضع کرنے پر اتفاق کیا
تھا۔ اس ایکشن پلان کے تحت قائم ہونے والے ورکنگ گروپ کا پہلا اجلاس کابل
میں اس وقت ہوا جب پاکستان کی سیکرٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ نے ایک اعلیٰ
سطح کے پاکستانی وفد کے ہمراہ کابل کا دورہ کیا تھا۔گزشتہ دنو ں ایک بار
پھر پاک ۔ افغان وفد کے درمیان اسلام آباد میں ایک مذاکراتی دور ہوا
ہے۔ماسکو کانفرنس سے قبل امریکی معاون نائب وزیرِ خارجہ برائے جنوبی و وسطی
ایشیا ایلس ویلز بھی ایک روزہ دورہ پر اسلام آباد پہنچی ۔ایلس ویلز نے ایک
ایسے وقت میں پاکستان کا دورہ کیا جب افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر
لانے کی کوشش میں تیزی دیکھی گئی ہے۔ امریکہ اعلیٰ سفارت کار نے پاکستان کو
آگاہ کیا کہ صدر اشرف غنی نے طالبان کے ساتھ رابطوں کے لیے ایک مشاورتی
کونسل قائم کی ہے۔قبل ازیں، پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان محمد فیصل نے
ٹوئٹر پر کہا تھا کہ اعلیٰ سفارت کار کے دورے کا مقصد پاکستان کے وزیر
خارجہ شاہ محمود قریشی اور ان کے امریکی ہم منصب مائیک پومپیو کے درمیان
ہونے والی بات چیت کو آگے بڑھانا اور باہمی تعلق کو مزید مضبوط بنانا
ہے۔واضح رہے کہ افغانستان کے لیے امریکہ کے نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے
گزشتہ ماہ افغانستان، پاکستان، قطر اور سعودی عرب کا دورہ کیا تھا جس کے
بعد پاکستان نے افغان طالبان کے شریک بانی اور افغانستان میں امریکی حمایت
یافتہ حکومت کے خلاف جنگ کے نائب امیر ملا عبدالغنی اخند برادر کو رہا کر
دیا تھا۔ کابل حکومت میں شامل متعددجنگجو گروپ نہیں چاہتے کہ افغانستان میں
امن کا قیام کسی منطقی انجام تک پہنچے ۔کیونکہ اس طرح ان کے فروعی مقاصد
تکمیل نہیں پاسکتے ۔ہمارے سامنے این ڈی ایس کے صوبائی پولیس چیف جنرل
عبدلرزاق کی مثال سامنے ہے جو ’’ اندرونی‘‘ حملے میں ہلاک ہوا اور کابل
حکومت نے بغیر کسی شواہد کے حسب روایت پاکستان پر الزام تراشی شروع کردی
۔کابل حکومت اس بات کا ابھی تک جواب نہیں دے سکی کہ انتہائی ہائی سیکورٹی
رسک میٹنگ میں افغان طالبان کا مسلح مزاحمت کارتمام حفاظتی دائرے توڑتا ہوا
شامل کیسے ہوا ۔ اور کس طرح امریکی کمانڈر تک پہنچنے کی رسائی مل گئی۔کابل
حکومت میں یہ پہلی بار نہیں ہوا ہے بلکہ ماضی میں افغان سیکورٹی فورسز میں
افغان طالبان کے جنگجو( رابطہ کار) شامل ہو کر غیر ملکی فوجیوں کو نشانہ
بناتے رہے ہیں ۔ جس سے نیٹو فوجیوں میں زبردست خوف و ہراس پھیلا تھا اور وہ
اپنے نزدیک بلیو وردی میں ملبوس افغان سیکورٹی فورسز کو نہیں آنے دیتے
تھے۔گرین اینڈ بلیو کی اس جنگ نے عالمی پیمانے پر بڑی شہرت حاصل کی تھی۔
بعد ازاں اب امریکی افواج ایسے ’’ اندرونی حملہ آور‘‘ قرار دیتی ہیں جبکہ
افغان طالبان ان حملہ آوروں کو ’’ رابطہ کارمجاہدین‘‘ کہتے ہیں۔گزشتہ دنوں
ایک اور واقعے میں افغان سیکورٹی فورسز کے اہلکار نے امریکی فوجی کو ہلاک
اور زخمی کیا جبکہ وہ خود بھی جوابی کاروائی میں جاں بحق ہوا ۔افغان طالبان
کی جانب سے کابل انتظامیہ پر جارحانہ، براہ راست، فدائی اور گوریلا حملوں
کے علاوہ متعدد رابطہ کار افغان طالبان نے بھی حملے کیے ہیں۔ جن میں حملہ
آوروں اور افغان سیکورٹی فورسز کے اعلی حکام اور کمانڈروں کو نشانہ بنایا
گیا ۔ گزشتہ 20دنوں کے دوران کابل انتظامیہ پر ایسے خوف ناک حملے کیے گئے
کہ افغان سیکورٹی فورسز کو فوجی، انٹیلی جنس اور نفسیاتی لحاظ سے بڑا دھچکہ
لگا ۔صوبہ ہلمند کے دارالحکومت لشکرگاہ میں جنگجو کمانڈر عبدالجبار قہرمان
کو اپنے دفتر میں نشانہ بنایا گیا۔ اس کے اگلے روز قندھار میں ایک رابطہ
کار افغان طالبان نے حملہ کیا۔ جس کے نتیجے میں قندھار کے پولیس سربراہ
جنرل عبدالرزاق، خفیہ ادارے کے سربراہ جنرل حسن خیل اور دو امریکی فوجی
ہلاک ہوئے۔ جب کہ امریکی جنرل جیفری سمائیلی اور قندھار کے گورنر زخمی
ہوئے۔اس کے بعد ہرات میں ایک رابطہ کار افغان طالبان نے افغان حکومتی اہل
کاروں پر اندھا دھند فائرنگ کر دی۔ جس کے نتیجے میں تین فوجی ہلاک اور
متعدد اہل کار زخمی ہوئے۔ گزشتہ روز کابل میں ایک حساس افغان اہل کار نے
فوجی تربیت دینے والے امریکی افسروں پر فائرنگ کر دی۔ جس کے نتیجے میں
امریکی فوج کے متعدد افسر ہلاک اور زخمی ہوگئے۔ حالیہ حملوں کے بعد امریکی
افسروں اور کابل انتظامیہ کے درمیان بداعتمادی پیدا ہو گئی ہے۔ حتی کہ
امریکی ٹرینرز نے کابل انتظامیہ کو کہا ہے کہ اب افغان فورسز کو براہ راست
نہیں، بلکہ انٹرنیٹ کے ذریعے انہیں تربیت دیں گے۔
این ڈی ایس کے صوبائی پولیس چیف جنرل عبدلرزاق کی ہلاکت افغان سیکورٹی
فورسز کے لئے ایک بڑا دھچکا ثابت ہوئی کیونکہ بے رحمی اور سفاکیت کے
استعارے کے طور پر ہلاک جنرل عالمی شہرت کا حامل تھا ۔ تاہم یہ بات بھی کسی
سے مخفی نہیں تھی کہ این ڈی ایس کے صوبائی پولیس چیف جنرل عبدلرزاق اور
کابل کے صدر اشرف غنی کے باہمی تعلقات اچھے نہیں رہے تھے۔ اشرف غنی کے
احکامات کو نظر انداز کرنا اور اپنی ذاتی جنگجو ملیشیا بنا کر ریاست میں
اپنی ریاست بنانے والا جنرل عبدالرزاق انتہائی سخت گیر اور جنگی جرائم میں
ملوث افغان اہلکار تھا ۔ افغان طالبان کی جانب سے کئی حملوں میں بچ چکا تھا
۔ امارات اسلامیہ کی اسٹریجی کی وجہ سے کئی افغان طالبان اس وقت حکومتی
انتظامی اہم شعبوں میں موجود ہیں جن کی وجہ سے افغان سیکورٹی فورسز اور
امریکی افواج کی نقل وحرکت کا علم افغان طالبان کو رہتا ہے اور وہ اطلاعات
کی رسائی کے بعد منصوبہ بندی کرکے افغان سیکورٹی فورسز اور امریکی فوجیوں
کو شدید جانی و مالی نقصان پہنچاتے ہیں۔ حال ہی میں افغان طالبان کی ایک
کاروائی میں ہیلی کاپٹر تباہ کیا گیا اور کئی افغان سیکورٹی فورسز کے
اہلکاروں کی لاشوں کو افغان طالبان اپنے ساتھ لے گئے۔امارات اسلامیہ کے
ترجمان نے گزشتہ دنوں اپنے ایک بیان میں کابل حکومت سے اپنے فدائی ذبیح اﷲ
ابودجانہ کی لاش کے بدلے افغان سیکورٹی فورسز کے ہلاک ہونے اہلکاروں کے
تبادلے کی پیش کش کی اور لاشوں کے تبادلے کے لئے ریڈ کراس کو سہولت کار
بنانے کا کہا ہے۔ این ڈی ایس کے صوبائی پولیس چیف جنرل عبدلرزاق سمیت دیگر
حکومتی عہدے داروں کی ہلاکت کابل حکومت کی سیکورٹی پلاننگ پر بہت بڑا
سوالیہ نشان ہے۔ کابل حکومت کمزور سیکورٹی پلاننگ کی ناکامی کا ملبہ
پاکستان پر ڈال کر خود کو بری الزما قرار دے دیتی ہے ۔ کابل حکومت نے امن
کو راستہ دینے کی راہ میں ہمیشہ رکاؤٹ کھڑی کی ہے ۔ گزشتہ دنوں ممتاز عالم
دین و مغرب کی جانب سے بابائے طالبان کا لقب پانے والے مولانا سمیع الحق کے
سفاکانہ قتل کو لے کر سوشل میڈیا میں خوب دھما چوکڑی مچائی گئی۔مولانا سمیع
الحق شہید کے صاحب زادے واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ ان کے والد کو کابل و
بھارت حکومت کی جانب سے خطرات لاحق تھے ۔ کیونکہ امریکا کی جانب سے حقانی
نیٹ ورک کی آڑ میں دارالعلوم جامعہ حقانیہ اور مولانا سمیع الحق پر سخت
تنقید کی جاتی رہی ہے ۔ لیکن اس بات کو بھی تسلیم کیا جاتا ہے کہ مولانا
سمیع الحق شہید کی سیاسی زندگی کا دائرہ محدود ہونے کے باوجود افغان طالبان
میں اتنا اثر رسوخ ضرور تھا کہ مذاکرات کی میز پر لانے کے لئے انہیں ایک پل
کا درجہ قرار دیا جاتا تھا۔
قیاس آرائی یہ بھی ہے کہ افغان طالبان اور ایران کے درمیان تعلقات کی بہتری
کے لئے امارات اسلامیہ کے ڈرون حملے میں جاں بحق ہونے والے ملا منصور نے
مولانا سمیع الحق کا تعاون حاصل کیا تھا ۔ ایران کے ساتھ کئی معاملات میں
افغان طالبان نے مفاہمت کی راہ اپنائی ۔ مولانا سمیع الحق ایران کے قومی دن
کے موقع پر آیت اﷲ خامنہ ای کی دعوت پر تقریب میں بھی شریک ہوئے تھے جیسے
امریکا نے سخت نا پسند کیا تھا۔ افغانستان میں دولت اسلامیہ خراساں شاخ(
داعش) کی سہولت کاری میں امریکا کے مشتبہ کردار کی وجہ سے ایران اور افغان
طالبان کے درمیان دوریاں کم ہوئیں۔داعش کو خطے میں مضبوط کرنے کے لئے
امریکا پر روسی الزامات بذات خود تشویش ناک ہیں۔افغانستان میں متعدد جنگجو
ملیشیاؤں کی تواتر سے ناکامیاں امریکا کے غصے میں اضافے کا موجب
بنا۔پاکستان میں کئی دہائیوں سے فرقہ وارنہ اور لسانی خانہ جنگی کرانے کی
کوشش کی جاتی رہی ہے ۔ اب مسلکی بنیادوں پر بھی امت مسلمہ کے درمیان نفاق
بڑھانے کی سازش تیز کردی گئی ہے۔ مولانا سمیع الحق کی شہادت کا پہلا مقصد
مسلکی خانہ جنگی کو برپا کرنا تھا لیکن جمعیت علما اسلام(س) سمیت تمام
مذہبی جماعتوں نے دور اندیشی اور تحمل و برداشت کا مظاہرہ کرکے ہولناک سازش
کو ناکام بنا دیا ۔ کابل، امریکا اور بھارتی گٹھ جوڑ کی ناکام سازش نے عالم
اسلام کو ایک ممتاز عالم دین سے محروم تو کردیا لیکن مولانا سمیع الحق نے
آخری دم تک امن کے لئے اپنی جان قرباں کردی۔ کابل کی جانب سے بھونڈا سوشے
چھوڑے گئے ۔بیشتر افغان معتصب میڈیا نے مولانا سمیع الحق کے حوالے سے پاک۔
افغان تعلقات میں رخنہ ڈالنے کی پالیسی کو دوبارہ دوہرایا۔ لیکن امارات
اسلامیہ نے جس طرح مولانا سمیع الحق شہید کو خراج عقیدت پیش کیا ۔ اس
اعلامیہ نے بھی امن دشمن عناصر کی کوششوں کو ناکام بنا دیا ۔
ماسکو کانفرنس میں افغانستان میں قیام امن کے لئے لائحہ عمل طے کرنے کے لئے
’’ سیاسی حالات ‘‘ موافق ہوتے جا رہے ہیں۔ امریکا 17 برسوں میں سوائے
ناکامی و مالی بربادی کے کچھ حاصل نہیں کرسکا ہے ۔ امریکا کو اپنے فروعی
مفادات کی تکمیل کے لئے کابل میں ایک ایسی حکومت کی ضرورت ہے جو مالی امداد
کی منتظر رہتی ہو اور کابل پارلیمان کے اراکین تنخواہوں اور مراعات کے لئے
زیادہ دلچسپی رکھتے ہوں۔ حالیہ انتخابات میں یہی رجحان دیکھنے میں آیا ہے
کہ کروڑوں افغانیوں میں صرف چند لاکھ افغان عوام نے اُن علاقوں میں ووٹ
کاسٹ کیا جہاں واجبی طور پر افغان سیکورٹی فورسز کی اجارہ داری تھی ۔ یعنی
صرف30 فیصد حصے پر ، اور وہ بھی غیر محفوظ اور ٹرن آؤٹ نہ ہونے کے برابر
رہا ۔ غیر ملکی مبصرین واضح طور پر کابل انتخابات کو مسترد کرچکے ہیں کہ بد
انتظامی عروج پر تھی ۔رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد خوف کا شکار تھی ۔ صرف54 ہزار
اہلکار پورے افغانستان میں پر امن انتخابات کرانے میں مکمل ناکام رہے۔ کئی
پولنگ اسٹیشنوں میں انتخابی عمل ہی نہیں ہوا اور سب سے بڑھ کر جعلی ووٹر کے
اندارج نے نتائج کو مشکوک اور صدارتی انتخابات کے لئے غیر معتبر قرار دیا
ہے۔ایران ، پاکستان سمیت دنیا بھر میں لاکھوں افغان مہاجرین کے آرا معلوم
نہیں کی گئی اسی وجہ سے افغان مہاجرین میں مایوسی پائی گئی کہ نتائج کے بعد
جو حکومت بھی جس طرح بھی بنے گی وہ ان کے وطن واپسی کے لئے ترجیحات نہیں
رکھے گی کیونکہ ان کے انتخاب میں افغان مہاجرین کا کوئی کردار نہیں
تھا۔پاکستان نے امریکا اور افغان طالبان کے درمیان براہ راست حالیہ دو
مذاکرات میں پیش رفت کو خوش آئند قرار دیا اور اس عندیہ کو دوہرایا ہے کہ
افغانستان کا مسئلہ وہاں کی عوام و اسٹیک ہولڈر ہی بہتر کرسکتے
ہیں۔افغانستان و امریکا کے لئے مقرر سفیر زلمے خلیل زاد کی کاوشوں کو افغان
طالبان نے سراہا ہے اور ان کی تعریف کی ہے۔یہی گمان کیا جاتا ہے کہ 9برس
بعد ملا عبدلغنی بردار اخند کی کی رہائی مستقبل میں اہم مذاکرات کے حوالے
سے حوصلہ افزا اس لئے نہیں ہوگی کیونکہ رہا کئے جانے والے ملا رسول ، ملا
عبدالصمد اورملا بردار ہر وقت حکومت کی نگرانی میں رہیں گے ۔ قیام ا من کے
اس دورانیہ کو بڑھانے کے لئے ضروری ہے کہ افغانستان اُن معاہدوں پر عمل کرے
جو پاکستان کے ساتھ طے پائے تھے جس میں خاص طور پر افغانستان میں ہونے والی
کسی بھی مسلح کاروائی کا الزام بغیر کسی شواہد لگانے پر اتفاق رائے ہوا
تھا۔ تاہم اس کے بعد کابل حکومت نے کئی بار اپنے معاہدے کے پابندی نہیں کی
اور اشتعال انگیزی کو ہوا دی ۔بارڈر منجمنٹ سسٹم کو ناکام بنانے کے لئے بار
بار پاکستانی سیکورٹی فورسز پر فائرنگ کی ۔ پاکستان کے داخلی معاملات میں
بار بار مداخلت کی پالیسی کو اپنائے ہوئے ہے۔ افغان سیکورٹی فورسز اور این
ڈی ایس شمال مغربی صوبوں میں اپنی تخریبی سرگرمیوں سے باز نہیں آرہے ماسکوو
جنیوا میں افغانستان کے موضوع پر عالمی کانفرنس نہایت اہمیت کی حامل ہے۔
افغانستان میں قیام امن کے لئے عالمی قوتوں کا یکجا ہونا اور افغان طالبان
کی شرکت سے امن کی جانب پیش رفت سے خطے میں استحکام کے لئے سنہری موقع ہے ۔
جس سے ہر فریق کو فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔خاص طور پر امریکا جو روز بہ
روز جنگی دلدل میں دھنستا جارہا ہے۔
|