ڈی جی نیب کی میڈیا ٹاک اور ارکانِ اسمبلی کا استحقاق

لفظ ’’استحقاق‘‘ معنی و مفہوم میں تو بہت وزن رکھتا ہے۔ بات قانون کی ہو یا اخلا قیا ت کی ۔۔۔یہ لفظ بہت اہمیت کا حا مل دکھا ئی دیتا ہے۔آئینِ پا کستان کے تحت ہر پا کستا نی کو اس کی حیثیت کے مطابق استحقاق حا صل ہے مگر جب یہ لفظ پا کستا ن میں موجود ایک خاص ’’مخلوق ‘‘ جسے سیا ستدان کہا جاتا ہے کے ہتھے چڑھ جا ئے تو یہ مذاق بن جاتا ہے کیو نکہ ان اشر افیہ کی طبع ِنا زک قدم قدم پر مجروح ہو جا تی ہے ۔ارکا ن ِاسمبلی کا استحقاق تو کا نچ کے شیشے سے بھی زیادہ نازک ہے کو ئی ٹر یفک سا ر جنٹ گاڑی روک لے یا کوئی افسر ان کے’’ حکم نادر شاہی‘‘ کے باوجودکسی ما تحت ملازم کا ٹر انسفر نہ کرے تو ان کا استحقاق مجروح ہو جاتا ہے ۔ان کی کر پشن بے نقاب ہونے لگے یا ان کے سیاہ کا رناموں سے پردہ اٹھنے لگے تو ان کا استحقاق مجروح ہونے لگتا ہے۔سوال یہ ہے کہ استحقاق صرف اور صرف ارکا نِ اسمبلی کو ہی حا صل ہے؟؟؟ویسے بھی ان معزز ارکانِ اسمبلی کا استحقاق اتنا نازک ہے کہ بات بات پہ ٹوٹ جاتا ہے ۔یہ استحقاق ہے کہ موم کی نا ک؟؟؟ان ارکان ِاسمبلی کا استحقاق اس وقت کیوں مجروح نہیں ہوتا جب اپنے کارناموں کی وجہ سے اسمبلی اپنی افا دیت کھو دیتی ہے اور ربڑ سٹمپ بن کر رہ جاتی ہے؟؟؟ان کا استحقاق اس وقت کیوں مجروح نہیں ہوتا جب انہیں اسمبلیوں میں بھیجنے والی عوام مہنگا ئی اور بے روزگاری کی وجہ سے فاقے اور خودکشیاں کرنے پر مجبور ہو جاتی ہے ؟؟؟ان کا استحقاق اس وقت کیوں مجروح نہیں ہوتا جب پاکستان کے دل کرا چی کی عوام کو گاجر مولی کی طرح کاٹ دیا جاتا ہے؟؟؟ان ارکانِ اسمبلی کا استحقاق اس وقت کیوں مجروح نہیں ہوتا جب ہمارا ازلی دشمن بھا رت ہماری سر حدی حدود کی خلا ف ورزی کر تے ہو ئے ہمارے شہریوں پرشب خون مارتے ہوئے انھیں ابدی نیند سلا دیتا ہے ؟؟؟ان کا استحقاق اس وقت کیوں مجروح نہیں ہو تا جب یہ لوگ عوا م کے دئیے ہو ئے مینڈ یٹ کا سودا کر کے اپنی وفا داریاں تبدیل کر لیتے ہیں ؟؟؟ان کا استحقاق اس وقت کیوں مجروح نہیں ہو تا جب یہ اپنے ذ اتی مفا دات کی خاطر وسیع تر قومی مفاد کا لیبل لگا کر اپنا ضمیر تک بیچ دیتے ہیں ؟؟؟ان کا استحقاق اس وقت کہاں چلا جا تا ہے جب ان کے اپنے ہی حلقہ انتخا ب میں شر یف شہری پو لیس گر دی کا شکا ر ہو جا تے ہیں ؟؟؟ان کا استحقاق اس وقت مجروح کیوں نہیں ہو تا جب عو ام کر پشن اور لا قا نونیت کی وجہ سے انصاف کے حصو ل کے لیے دردر کی ٹھوکریں کھا نے پر مجبور ہو جا تے ہیں؟؟؟ان کا استحقاق اس وقت مجروح کیوں نہیں ہو تا جب بیرو نی دہشت گر دی کے نتیجے میں معصوم اور بے گنا ہ شہری انتہا ئی سفا کی سے ما ر دئیے جا تے ہیں ؟؟؟ ان کا استحقاق اس وقت مجروح کیوں نہیں ہو تاجب وطن عزیز کی سر حدوں کا تقدس پا ما ل کر دیا جا تا ہے ؟؟؟کو ئی رکن اسمبلی ان سو الا ت کا جو اب دینا پسند فر ما ئے گا ؟؟؟ نہایت ادب سے گزارش ہے کہ کیا یہ استحقاق ہے یا غنڈہ گردی و بدمعاشی کا لا ئسنس ؟؟؟ یہ کیسااستحقاق ہے جو صرف اس وقت یاد آتا ہے جب ان ارکان اسمبلی کے جائز و ناجائزمفادات پر چوٹ لگتی ہے ؟؟؟ ایک طرف تو قومی اسمبلی کے ایوان کو مقدس ایوان قرار دیاجاتا ہے مگر دوسری طرف وہاں جو زبان استعمال کی جاتی ہے وہ بڑے بڑے جہلا کو بھی مات دے دیتی ہے ۔ڈی جی نیب لاہور سلیم شہزاد کی میڈیا ٹاک شوز میں شرکت اور بات چیت کرنے کے بعد ارکان اسمبلی کا استحقاق تو اس طرح چکنا چورہوا جیسے کانچ کی چوڑیاں ٹوٹ کر بکھرتی ہیں ۔ ایک مخصوص جماعت کے راہنما کسی مستند ڈاکٹر کے تجویز کردہ نسخے کی طرح صبح ، دوپہر شام نیب کے ادارے پر تنقید کرنا، اسے ملعون قرار دینا اور اسے کالا قانون کہنا اپنا فریضہ سمجھتے ہیں ۔ چوبیس گھنٹے نیب کے خلاف اس طرح ہرزہ سرائی کی جاتی جیسے یہ کسی دشمن ملک کی اینویسٹی گیشن ایجنسی ہے ۔سوال یہ ہے ان ارکان اسمبلی کو ایک اہم ترین حکومتی ادارے کے خلاف زبان درازی کا اختیار کس قانون کے تحت ہے ؟؟ آخر یہ ارکان اسملی اپنے آپ کو کیا سمجھتے ہیں ؟؟؟ کوئی آسمانی مخلوق؟؟؟ اور کیاسرکاری ملازمین ان کے سامنے کیڑوں مکوڑوں کی حیثیت رکھتے ہیں ؟؟؟ کیا سرکاری ملازمین کی کوئی عزت ِ نفس نہیں ؟؟؟ کیا ان کا کوئی استحقاق نہیں ؟؟؟ کیا وہ گونگے بہرے و بے حس بن کر ان ارکان اسمبلی کی لا یعنی گفتگو سنتے رہیں ؟؟؟ ان کے الزمات برداشت کرتے رہیں؟؟؟ اپنے فرائض منصبی کی ادئیگی اس لیے روک لیں کہ یہ لوگ اسمبلی کے رکن منتخب ہو گئے ہیں ؟؟؟ ان ارکان اسمبلی کو قانون شکنی کی کھلی چھُٹی دے دی جائے ؟؟ ان کے جرائم سے پردہ پوشی اختیار کر لی جائے ؟؟؟ ان کے کالے کرتوت دیکھ کر بھی کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لی جائیں ؟؟؟ ان کی بدعنوانیوں کی داستانیں سن کر بھی منہ دوسری طرف پھیر لیا جائے ؟؟؟ مگر کیوں ؟؟؟ کس لیے ایسا کیا جائے ؟؟؟ کیا ان پر پاکستانی قانون لاگو نہیں ہوتا ؟؟؟ ان کے لیے شتر بے مہار کی آزادی کیوں ؟؟؟ ان پر بھی قانون کا اطلاق ویسے ہی ہونا چاہیے جس طرح عام شہری پر ہوتا ہے کیونکہ قانون سب کے لیے ایک جیسا ہوتا ہے ۔ ان ارکان اسمبلی سے درد مندانہ گزارش ہے کہ وطن عزیز کی حالت پہ رحم فرمائیں کیونکہ یہ ملک اب آپ کی مذید’’ نا ز برداریاں ‘‘ برداشت کرنے سے قاصر ہے ۔ پاکستان پہلے ہی دہشت گردی و معاشی بدحالی سمیت بہت سے مسائل سے دو چار ہے ۔ اس لیے آپ کی باغیانہ سوچ کا متحمل نہیں ہو سکتا ۔اپنے ’’کالے کرتوتوں ‘‘ سے بچنے کے لیے رکن اسمبلی کے ا ستحقاق کے پیچھے نہ چھپیں بلکہ قانون کا سامنا خندہ پیشانی سے کریں اور اگر آپ کے ہاتھ صاف ہیں تو پھر قانون کے’’ چھاننے‘‘ سے سرخرو ہو کر نکلیں اور اپنی مہک سے پاکستان کو معطر کریں ورنہ قانون کا سامنا کرتے ہوئے اپنے ’’اعمال بد‘‘ کا حساب دیں یہی بات آپ کے لیے اور پاکستان کے لیے بہتر ہے
 

Rasheed Ahmed Naeem
About the Author: Rasheed Ahmed Naeem Read More Articles by Rasheed Ahmed Naeem: 126 Articles with 122372 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.