معروف دانشورایڈون پر سی وپل کاکہناہے کہ ہے’’وقت
کے لامحدود سمندر میں کتابیں روشنی کا مینار ہیں‘‘راقم کے خیال میں یہاں
روشنی سے مرادعلم ہے وقت کے لامحدودسمندرسے مرادماضی سے حال تک کے حالات و
واقعات اورپھرحال سے مستقبل کی پیشنگوائیوں تک کاعلم ایک سے دوسرے
دورکاسفربذریعہ کتاب طے کرتاہے۔کتاب کی جگہ لینے والی جدیدایجادات
کمپیوٹراورموبائل اس قدرقابل بھروسہ نہیں جس قدرکتاب
پراعتمادکیاجاسکتاہے۔کتاب کبھی بھی کمپیوٹراورموبائل کی طرح فائیل
یاونڈوایرریاکرپٹ نہیں کرتی۔کتاب کے اوراق کتنے ہی کمزورکیوں نہ ہوجائیں
قاری کواپنے اندرموجودعلم کے خزانوں سے محروم نہیں کرتی۔کتاب جسم وروح
دونوں کو توانائی اور خلوت کو بالیدگی عطا کرتی ہے۔جارج برنارڈ شا تو کتب
بینی کے حوالے سے یہاں تک کہہ دیتا ہے کہ جو شخص کتابیں پڑھنے کا شوق نہیں
رکھتاوہ معراج انسانیت سے ناواقف ہے۔ بلاشبہ صرف وہی افراد اور اقوام زندگی
کی معراج تک پہنچتے ہیں جن کا تعلق کتاب اور علم سے مضبوط ہو۔کتاب دوست
افراد اوراقوام ہی تاریخ عالم میں مہذب قرارپاتے ہیں۔تہذیبوں کے نشیب و
فراز پر نظر ڈالیں تو عیاں ہوتا ہے کہ کتاب زندگی کے حقائق کو جاننے اور اس
علم کو دوسروں تک پہنچانے کا نام ہے تا کہ علمی معلومات میں مسلسل اضافہ
ہوتا رہے۔ماضی کے جھرونکوں سے جھانک کرکامیاب اورترقی کرنے والی قوموں کے
علم و ہنرپرنظرڈالیں تومعلوم ہوتاہے کہ تہذیبوں کی نشوونمااور قوموں کی
زندگی کا مفیدترین عمل کتاب سے جڑا ہوا ہے۔ کتاب علم کی حفاظت، ترسیل اور
توسیع کا نام ہے۔ کتاب ہی وہ وسیلہ ہے جس کے ذریعے پہلی نسلوں کی محنت و
کاوش،دانش و بینش اور حکمت و بصیرت نئی نسلوں تک منتقل ہوتی ہے اورجن
تہذیبوں،معاشروں اوراقوام میں کتاب کی تخلیق،تحقیق،اشاعت اور مطالعے کا عمل
رک جاتا ہے تو اس کے نتیجے میں درحقیقت وہاں زندگی کا عمل ہی رک
جاتاہے۔پاکستانی معاشرے کوعلمی معیارپر پرکھیں تو واضح ہو گا کہ کتب بینی
کا زوال ہمارا بڑا تہذیبی المیہ ہے، کیونکہ مطالعے کی عادت ہی تہذیب کی
علامت ہے۔جو قوم معیاری اور عمدہ کتابیں لکھنے، شائع کرنے اور ان کا مطالعہ
کرنے سے قاصرہووہ نہ صرف پسماندہ وجاہل بلکہ غیروں کی دست نگر ہو کر رہ
جاتی ہے۔دورجدید میں تحقیق و تحریر کا ذوق رکھنے والی شخصیات حوصلہ افزائی
نہ ہونے کے باعث تقریباًنایاب ہوتی جارہی ہیں۔راقم آج ایسی ہی ایک انمول
شخصیت کاذکرکرنے جارہاہے جس نے نہ صرف کتاب دوستی کوفروغ دیابلکہ اپنی
تحقیق وتحریرکامرکزاپنے آبائی علاقہ کاہنہ کوبنایا۔محمدساجد نے کاہنہ کی
تاریخ کے اوراق الٹ پلٹ کرایسی معلومات تلاشی ہیں جن کے بارے میں ہم
اکثرسوچاکرتے تھے ۔راقم اکثراپنے علاقے کے نام کاہنہ کے بارے سوچاکرتاتھاکہ
کاہنہ کاکیامطلب ہے اوراس علاقے کانام کیوں کاہنہ پڑھ گیا۔آج کے مصروف
اورتیزترین ترین دورمیں ایسے ہی مزید بہت سارے سولات کے جوابات تلاشنے کی
ذمہ داری اُٹھائی محمد ساجد نے۔انتہائی پرجوش،ملنسار،محنتی اورباوقارشخصیت
کے مالک محمدساجدکی کتاب تاریخ کاہنہ کاابتدائیہ کاہنہ کہانی کے نام سے
شائع ہوچکاہے جس کے اندر انہوں نے 1540عہد شیرشاہ سوری میں کاہنہ کے
ابتدائی آثار سے 2017تک تاریخ کوبڑی گہری تحقیق کے بعد تحریرکیاہے۔محمدساجد
کے ساتھ راقم کی پہلی ملاقات وائس چیئرمین کاہنہ ارشدرضاایڈووکیٹ کی دعوت
ناشتہ پرہوئی،اس موقع پرنصیرشرازی ،کونسلرسجادرحمانی،سماجی کارکن
امجدچوہان،محمدتنویر ودیگرسیاسی وعلمی شخصیات بھی موجودتھیں۔محمدساجدکاہنہ
کہانی کے علاوہ لاہورمیں محبت،معرفت،محبت موسم اورجاناں اورشہردل میں
آوارگی جیسی معروف کتابیں بھی لکھ چکے ہیں۔ بہت جلد ان کی تاریخ کاہنہ کے
نام سے کتاب شائع ہوگی جس کے اندرانہوں نے کاہنہ کے تاریخی
مقامات،عمارتوں،شخصیات اوربہت سارے دیگرموضوعات کوبڑی تفصیل کے ساتھ
تحریرکیاہے۔مفکرانہ مزاج کے مالک محمدساجد کے چہرے پرہروقت سنجیدہ مسکراہٹ
سجی رہتی ہے۔محمدساجد کی شاعری،تحقیق اورمزاح کے رنگ میں ان کی حب وطنی ،کتاب
دوستی اورانسان دوستی کے ساتھ زندگی کے حقیقی فلسفے کی جھلک نظرآتی ہے۔آج
کے مصروف ترین دورمیں جب کہ دنیاپیچھے پلٹ کردیکھنابھی نہیں چاہتی،سب کوآگے
اورآگے بڑھنے کی جلدی ہے۔کمپیوٹراورموبائل جیسی جدیدایجادات کتاب کی جگہ لے
چکی ہیں۔آج حالات حاضرہ کی آگاہی کیلئے نیوزچینلزاوراخبارات کافی سمجھے
جاتے ہیں۔ ایسے مصروف اورتیزترین دورکے اندرفرزندکاہنہ نے کاہنہ کہانی جیسی
کتاب تحریرکرکے اہل کاہنہ کوکتاب دوستی کاایساموقع فراہم کیاہے جس کی ماضی
میں مثال نہیں ملتی۔کاہنہ کہانی پڑھنے کے بعد راقم کی طرح کاہنہ میں بسنے
والے تمام اہل ذوق تاریخ کاہنہ کے منتظرہیں
|