نورڈاہری کاتعلق سندھ کے شہرحیدرآبادسے ہے لندن
پولیس سے وابستہ ہے،نورڈاہری نے انگلینڈ کے آکسفورڈ کالج سے کرمنل
سائیکالوجی میں ڈپلومہ کیا اور میری لینڈ یونیورسٹی- امریکا اور آئی سی ٹی-
اسرائیل سے انسداد دہشت گردی کی تعلیم حاصل کی وہ یہودی تنظیم،،زائنسٹ
فیڈریشن ،، کا اعزازی ممبر اوران کی سنٹرل کمیٹی کابھی رکن ہے ،نورڈاہری نے
دوسال قبل اپنے یہودی دوست پال چرنی سے مل کر،، پاکستان اسرائیل الائنس،، (PIA)کے
نام سے تنظیم قائم کی،پال چرنی پاکستان اسرائیل الائنس کاچیئرمین
اورنورڈاہری اس الائنس کابانی صدرہے پال چرنی کے متعلق معلوم ہواہے کہ پال
چرنی میں جنوبی افریقہ میں پیداہواجس نے کئی سال اسرائیل میں گزارے
اوراسرائیلی ڈیفنس فورس میں بطورکمانڈرکام کیا 1996میں اس نے برطانیہ کی
لیڈزیونیورسٹی میں قانون کی ڈگری حاصل کرنے کے لیے داخلہ لیا 2002میں پال
نے کوالیفائی کیا اوروکیل کے طورپرکام شروع کیا 2006ء میں پال نے سنٹرل
لندن میں پراپرٹی کی کمپنی بنائی پال یہودی تنظیم کابھی متحرک ممبرہے اوروہ
2012میں زائنسٹ فیڈریشن یوکے کاچیئرمین منتخب ہوا۔
اس تنظیم کے پیچھے اسرائیل کی خفیہ ایجنسیاں اوریہودی تنظیموں کے تھنک ٹینک
ہیں اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو نے اپنے مشیر مینڈی سفادی کے ذریعے نور
ڈاہری سے رابطہ کیا اور اسرائیل کے حق میں مہم چلانے کے لیے پرائیویٹ سطح
پرتنظیم سازی کی ہدایت دی تھی یہ وہی مینڈی سفادی ہے جس پرچندسال قبل بنگلہ
دیش نیشنلسٹ پارٹی کے رہنماؤں کے ساتھ مل کر بنگلادیش میں بم دھماکے کرائے،۔
اس سے قبل نورڈاہری اسرائیل میں دوران تعلیم اوربعدمیں
موساداوردیگراسرائیلی حکام سے مل کراپنی خدمات پیش کرچکاتھا نورڈاہری نے
اسرائیل ملٹری انٹیلی جنس کے چیف جنرل یوسف کوپریوسرسے بھی کئی ملاقاتیں
کیں یہ جنرل اس وقت ریٹائرڈ ہوکراسرائیلی تھنک ٹینک میں کام کررہاہے۔
اس تنظیم کامقصد پاکستانی اور اسرائیلیوں کو آپس میں قریب لانا اورپاکستان
سے اسرائیل سے تعلقات قائم کرواناہیں یہ الائنس ابتدائی مرحلے میں میں سوشل
میڈیا، پرنٹ میڈیا پراپناکام کررہاہے۔ اس حوالے سے پاکستان اوردیگرممالک
میں مقیم پاکستانیوں سے رابطے کرکے انہیں اس بات پرقائل کررہاہے کہ وہ
اسرائیل سے تعلقات کی حمایت کریں۔
پی آئی اے نے اسرائیل کے حق میں پروپیگنڈہ مہم تیزکرنے کے لیے اردو،انگلش
اوراسرائیلی زبانوں میں ویب سائٹ بھی لانچ کی ،اورپاکستان میں ممبرشپ کے
لیے سوشل میڈیاکے ذریعے باقاعدہ ایک فار م بھی تقسیم کیاگیاجس پرمختلف
افرادنے اپلائی کیااوراس میں سے چھانٹ کرصرف 36ایجنٹ چنے گئے جواس وقت
پاکستان کے مختلف شہروں میں کام کررہے ہیں زیادہ ترممبران کاتعلق شعبہ ادب
اورلکھنے لکھانے کے پیشے سے ہے اسی طرح اسرائیل سے بھی 36لوگ ممبربنائے گئے
،
پاکستان اسرائیل الائنس کے نام سے پہلی مرتبہ تنظیم قائم کی گئی ہے
جواعلانیہ طورپراس مقصدکے لیے کام کررہی ہے۔ نورڈاہری کاکہناہے کہ برطانیہ
ہی وہ واحد مملکت ہے جس کی کوکھ سے دنیا میں دو ممالک ظہور پزیر ہوئے ایک
پاکستان اور دوسرا اسرائیل ۔ اب وقت آگیا ہے کہ دونوں بھائی ممالک کو ایک
ساتھ ملانے کے لیے سرزمین برطانیہ میں اس طرح کی تنظیم کو وجود میں لایا
جائے۔
پاکستان اسرائیل تعلقات کے قائم کرنے کے لیے کئی رہنماء کوششیں کرچکے ہیں
2005 میں وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری اور اسرائیلی ہم منصب سلون شلوم کے
درمیان اسرائیل کی خواہش پر ملاقات ہوئی۔ جنرل مشرف پہلے پاکستانی تھے جن
کا اسرائیلی اخبار نے لندن میں انٹرویو کیا تھا۔ اور وہ پہلے مسلمان لیڈر
تھے جنہوں نے امریکہ میں ورلڈ جیوش کانگریس میں تقریر کی جہاں مشرف نے
اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کی اہمیت پر زور دیا۔
اس تنظیم کاخیال ہے کہ پاکستان کی طر ف سے اسرائیل کو تسلیم کرنے میں تین
بڑی رکاوٹیں ہیں پہلی یہ کہ مسلمان ممالک خاص کر عرب ممالک کے ساتھ یک جہتی
کیونکہ مذہبی آئیڈیالوجی کا پرچار کرنے والا ملک مجبور ہے کہ وہ اپنی خارجہ
پالیسی کو اس کے مطابق رکھے دوسرے یہ کہ اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم
کرنے سے عرب ممالک اس کے خلاف ہو جائیں گے اور تیسرے یہ کہ پاکستان میں
انتہا پسند مذہبی قوتیں بہت طاقتور ہیں جو اسرائیل سے کسی بھی تعلق پر ایک
بڑے ردعمل کا موجب بن سکتی ہیں۔ ہاں اگر امریکہ پر جیو ش آرگنائزیشن اور
مغربی ممالک زور ڈالیں تو وقت کے ساتھ ساتھ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات
میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
اسرائیل کے اسلامی دنیا کے ساتھ تعلقات کامختصرا جائزہ لیا جائے تو اب تک
مجموعی طورپر اقوام متحدہ کے 32رکن ممالک نے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا۔جن
میں 19ممالک عرب لیگ کے،گیارہ ممالک اوآئی سی کے رکن ہیں،جب کہ تین دیگر
ہیں۔ان ممالک میں سعودی عرب، پاکستان، قطر، کویت، عراق، الجزائر، لیبیا،
عمان، سوڈان، شام،تیونس،عرب امارات،یمن،افغانستان،بنگلہ دیش،ملائیشا وغیرہ
شامل ہیں۔یعنی مجموعی طوراکثر اسلامی ممالک نے اسرائیل کو آج تک تسلیم نہیں
کیا،لیکن ان ممالک میں سے بہت سے ایسے ملک ہیں جن کے اسرائیل کے ساتھ خفیہ
تعلقات قائم ہیں۔ ۔قطر نے اگرچہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات ختم کررکھے
ہیں،لیکن 2022میں منعقد ہونے والے فیفا ورلڈ کپ میں شرکت کے لیے قطر نے
اسرائیلیوں کو قطر آنے کی اجازت دے رکھی ہے۔جب کہ ایران ترکی کے بعددوسرا
اسلامی ملک ہے جس نے اسرائیل کو تسلیم کیا اور کافی عرصے تک اسرائیل کے
ساتھ تعلقات قائم رکھے۔
نورڈاہری کی تنظیم اوراس جیسی تنظیموں کاکمال ہے کہ یہودیوں کے ساتھ تعلقات
اوراسرائیلی طیاروں کی بازگشت اسلام آبادمیں سنی جارہی ہے گزشتہ چندسالوں
میں سوشل میڈیاپرپاک اسرائیل تعلقات کے حوالے سے جس باریک بینی سے کام
کیاگیاہے اس کانتیجہ قوم کے سامنے آرہاہے موجودہ حکومت کے قیام کے
بعدقادیانی اوریہودی لابی کی سرگرمیاں بڑھ گئی ہیں، پہلے مرحلے میں ایسی
خبریں سامنے لائی جارہی ہیں جواسرائیل سے تعلقات کی راہ ہموارکرنے کااشارہ
دے رہی ہیں دوسرے مرحلے میں اسرائیل کوتسلیم کرنے کامطالبہ یھی سامنے آئے
گا۔22اکتوبر کو راول پنڈی میں نور خان ائیر بیس پر اسرائیل کے طیارے کی
مبینہ آمد کا معاملہ اسی طرح پر اسرار بن چکا ہے اور جوابات کا متقاضی ہے
اگرچہ حکومت ایسے طیارے کی آمدکی تردیدکرچکی ہے
تحریک انصاف کی رکن قومی اسمبلی اسما حدید نے قومی اسمبلی میں اپنی متنازع
تقریر میں کہا کہ نبی پاک ﷺ نے مسلمانوں کو نماز کعبہ کی طرف منہ کرکے
پڑھنے کا حکم دیا لیکن جب یہودیوں کے اعتراض پرآپ ؐ نے یروشلم کی طرف نماز
پڑھنے کا حکم دے دیا۔پھر اﷲ کی طرف سے جب حکم آگیا کہ جس میں اﷲ نے فیصلہ
کردیا۔کہ یہودیوں کا کعبہ یروشلم مسجد اقصی ہوگا۔ جبکہ مسلمانوں کا کعبہ
ہوگا جوعرب میں ہے۔اس لیے اب مسلمانوں اور یہودیوں کی لڑائی اس معاملے پر
توختم ہوجانی چاہیے۔ نبی پاکؐ اور حضرت علی نے فرمایا کہ اپنے دشمن کو دوست
بنا لو۔نبی پاک ؐ نے یہودیوں کے ساتھ کام کرکے ایک مثال قائم کردی ہے۔انہوں
نے کہا کہ میں کہنا چاہتی ہوں کہ ہم یہودیوں سے متعلق بات کرتے ہوئے ان کو
برا بھلا کہتے ہیں لیکن جب ہم نماز پڑھتے ہیں توہم درود شریف پڑھتے ہیں جس
میں ہم پوری آل کو دعا دیتے ہیں۔اسما حدید نے کہا کہ نبی پاک ؐ نے ہمیں
جوسکھایا تھا ہم اس کو غلط انداز میں پیش کرتے ہیں۔جس طرح ہمارے مولانا
کہتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ نبی پاک ؐ بھی بنی اسرائیل سے تھے۔کیا ہم مسلمان
کچھ ایسا نہیں کرسکتے کہ دنیا میں جومسلمان مر رہے ہیں۔علما کرام کو قرآن
پاک سے ایسی راہ نکالنی چاہیے کہ ہم سب اس قتل غارت سے بچ جائیں۔
پی ٹی آئی رکن اسمبلی کی یہ تقریراس بات کی طرف اشارہ کررہی ہے کہ کس طرح
یہودیوں کے ساتھ تعلقات کی راہ ہموارکی جارہی ہے اورپہلی مرتبہ قومی اسمبلی
کے فورم سے یہ آوازاٹھی ہے جس سے ظاہرہوتاہے کہ یہودی لابی پاکستان میں
کتنی متحرک ہے اورکس اندازمیں وہ کام کررہی ہے ۔وزیراعظم عمران خان کے
متعلق ماضی میں حکیم سعیداورموجودہ زمانے میں مولانافضل الرحمن جوبات کہہ
رہے ہیں وہ کہیں درست ثابت نہ ہو۔ ؟
|