عصرِ حاضر کے روشن خیال دانشوروں کا اسلامی نظام سیاست پر
مقبول ترین اعتراض یہ ہے کہ کس اسلام پر عمل کیا جائے َ شیعی ، سنی ، سلفی
یا صوفی وغیرہ۔ یہی سوال جمہوری نظام کے علمبرداروں سے کبھی نہیں کیا جاتا
کہ کون سا جمہوری نظام نافذ کیا جائے برطانوی یا جاپانی جہاں رانی صاحبہ
اور راجہ صاحب پائے جاتے ہیں یاا مریکی و ہندوستانی طریقہ ٔ کار کہ جہاں
عوامی نمائندوں کی آڑ میں سرمایہ دار حکومت کرتے ہیں۔ یہ عوام کے نمائندوں
والا نظام بھی بھانت بھانت کا ہے۔ ہندوستان کے اندر سارے اختیارات عوامی
نمائندوں کے رہنماوزیراعظم کے ہاتھوں میں ہوتے ہیں مگر امریکہ کا مختارکل
صدر براہ راست عوام کے ذریعہ منتخب کیا جاتا ہے۔ ہندوستان کے اندر صدر
جمہوریہ وزیراعظم کے ہاتھوں کی کٹھ پتلی ہوتا ہے جبکہ امریکہ میں کسی
وزیراعظم کا وجود ہی نہیں ہوتا۔ جمہوریت کے علمبردار اس تفریق و امتیاز کو
کوئی اہمیت نہیں دیتے ۔یہ کہہ دیا جاتا ہے جمہوریت جیسی بھی ہو ہر صورت میں
منظور ہے مگر اسلام کسی بھی صورت قابلِ قبول نہیں ہے ۔ امریکہ کا انتخابی
نظام ہندوستان سے اس قدر مختلف ہے کہ دنیا کی وسیع ترین جمہوریت باشندوں کو
عظیم ترین جمہوریت کے پیچ و خم سمجھ میں نہیں آتے۔
امریکہ کے اندر صدر کا تعاون کرنے کے لیے یا اس پر لگام کسنے کی خاطر ایوان
بالا اور ایوان زیریں کا اہتمام ہے جس کا انتخاب صدرمملکت کے ساتھ نہیں
ہوتا ۔ایوان زیریں کا صدر کی مدت کار کے وسط میں اور ایوان بالا کا قسطوں
ہوتا ہے۔ حال میں ایوان زیریں (کانگریس)کی تمام ۴۳۵سیٹوں، ایوانِ بالا (
سینیٹ) کی ۳۵ اور گورنروں کی ۳۶نشستوں پر انتخابات کا انعقاد ہوا۔ ۲۰۰۷ سے۲۰۱۱
تک ایوانِ نمائندگان (کانگریس)میں ڈیموکریٹک پارٹی کو بالادستی حاصل تھی
لیکن پھر وہ اس سے محروم ہوگئی ۔اس بار صورتحال بدل گئی ہے اور وہ کانگریس
کے اندر اکثریت میں آگئی ہے۔ ایوانِ نمائندگان (کانگریس) کی بنیادی ذمہ
داری حکومت کو رقوم فراہم کرنے کی ہوتی ہے، جس میں محکمہٴ دفاع بھی شامل ہے۔
اس لیے اب ڈیموکریٹس کی اہمیت میں اضافہ ہو گیا ہے۔
صدر ٹرمپ کے لیے استصواب کی حیثیت رکھنے والے اس انتخاب میں ڈیموکریٹس کو
ایوانِ نمائندگان میں برتری کے لیے کم ازکم ۲۳ اضافی نشستوں کی ضرورت تھی
جو اسے مل گئیںاور اس نے ۲۱۷ کے بجائے ۲۱۹ سیٹوں پر کامیابی حاصل کرلی ۔اس
کے برعکس رپبلکن پارٹی کو ۱۹۳ نشستوں پر قناعت کرنا پڑا۔اس بار ۵۰گورنروں
میں سےری پبلکنز کے ۲۳اور ڈیمو کریٹس کے ۱۹ گورنر کامیاب ہوئے اس طرح
ڈیموکریٹس کے ۴گورنرز کا اضافہ ہوا۔ ایوان بالا یعنی سینیٹ کا کنٹرول حاصل
کرنے میں ڈیموکریٹس اس بار پھر ناکام رہے۔ ان کے پاس پہلے سے ۲۳ ارکان تھے
جو بڑھ کر ۴۵ ہو گئے تاہم ری پبلکن پارٹی اپنے ارکان کی تعداد ۴۲ سے ۵۱تک
پہنچا کر اکثریت بنالی ۔
ایوانِ نمائندگان میں ملنے والی اس واضح برتری کے بعد ڈیموکریٹک پارٹی نہ
صرف صدر ٹرمپ کی جانب سے کی گئی قانون سازی میں رکاوٹ ڈال سکتی ہے بلکہ
ایوان کے اہم امور پر کمیٹیوں میں بھی اپنا اثرروسوخ دکھا سکتی ہے۔وہ ۲۰۱۶
کے صدارتی انتخابات میں روس کی مبینہ مداخلت سمیت صدر ٹرمپ کی ٹیکس
ادائیگیوں اور کاروباری معاملات کو جاننے کا مطالبہ کر سکتی ہےنیزامور
خارجہ میں اپنی بات منوا سکتی ہے۔ سفارتی پالیسیوں ، مہاجرین کے کوٹہ، اور
دنیا بھر کے علاقائی امور میں انتظامیہ کی پالیسیوں کا احتساب بھی ممکن
ہوگیا ہے۔ اوباما انتظامیہ کے دورانریپبلکن یہی کردارادا کرتے تھے۔اس رسہ
کشی کے سبب ماضی میں اکثر وبیشتر درونِ خانہ سرد جنگ کے ماحول رہا ہے شاذو
نادر ہی دونوں سیاسی جماعتوں نے مل جل کر کثرت رائے کا انداز میں معاملات
سلجھائے ہیں ۔
امریکہ میں ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ صدر کی پارٹی کو دونوں ایوانوں میں بالا
دستی حاصل ہو جائے۔ اکثر یہی ہوتا ہے کہ صدر کی پارٹی کو عوام ایوان زیریں
میں اکثریت سے محروم کردیتے ہیں کیونکہ ان کے سامنے بہت جلد اپنے صدر کی
حقیقت کھل جاتی ہے۔ وہ اپنے نووارد صدر سے مایوس ہوکر اس کی جماعت سے ایوان
نمائندگان میں اکثریت چھین لیتے ہیں ۔ اس کو جمہوری نظام کی بہت بڑی خوبی
احتساب و توازن (check and balance) کا نام دیا جاتا ہے۔ اس غم وغصے کے
اظہار سے عوام کا نقصان اور صدر کا فائدہ ہوجاتا ہےکیونکہ ایوان زیریں میں
حزب اختلاف کے ارکان صدر کے کام میں روڈے اٹکاتے ہیں۔ صدر مملکت بھی یہی
چاہتا ہے کہ اسے اپنے وعدوں کو نبھانے میں ناکامی کاکوئی جواز مل جائے۔
اس نئی صورتحال میں صدر جمہوریہ اپنے رائے دہندگان سے کہتا میں تمہاری فلاح
و بہبود کے لیے میں تو بہت کام کرنا چاہتاتھا لیکن ایوان زیریں میں حزب
اختلاف کی اکثریت مجھے روک دیاحالانکہ اس کا ایسا کوئی ارادہ ہی نہیں تھا ۔
وہ تو جن سرمایہ داروں کی مدد سے منتخب ہوتا ہے ان کے مفادات کی حفاظت کے
لیے کام کرتا ہے۔ اس بار ڈونالڈ ٹرمپ خود بہت بڑا سرمایہ دار ہے اس لیے وہ
اپنےکاروباری مفادات کے تحفظ میں مصروف عمل ہے۔ بعید نہیں کہ عوام پھر سے
اس جھانسے میں آکر اسے دوبارہ کامیاب کردیں ۔ اس کے بعد اس کی جماعت کو
بھی ایوان زیریں میں اکثریت سے نواز دیں لیکن وہ پھر بھی کچھ نہیں کرے گا
اس لیے کہ تیسری بار انتخاب نہیں لڑ سکتا ۔ ٹرمپ کے بعد اس کی پارٹی کے نئے
امیدوار پر عوام اس کا نزلہ اتار کر اسے ہرا دیں گے اور حزب اختلاف کے
نمائندے کو صدر کو بنادیا جائے گا ۔ اس طرح چوہے بلی کے اس کھیل میں اقتدار
تو مختلف ہاتھوں میں کھیلتا رہے گا لیکن عوام کفِ افسوس ملتے رہیں گے ان کے
ہاتھوں میں کچھ نہیں آئے گا ۔
دنیا کی عظیم ترین جمہوریت امریکہ اور وسیع ترین جمہوریت ہندوستان میں بہت
کچھ مشترک ہے۔ وطن عزیز میں جس طرح سنگھ پریوار کی انتخابی مشکلات کا رام
بان اپائے ( آزمودہ نسخہ کیمیاء) رام مندر ہے اسی طرح امریکہ میں ریپبلکن
پارٹی کے لیے’جب جب چناو آتے ہیں ، ایران کا خوف دلاتے ہیں ‘ والی صورتحال
پیدا ہوجاتی ہے۔ ابھی حال میں امریکی مجلس نمائندگان اور سینیٹ کے وسط مدتی
انتخابات کے موقع پر ڈونالڈ ٹرمپ میں یہی تیر آزمایا ۔ ایران پر معاشی
پابندیوں کا شور اٹھا ۔ دھمکیاں دی گئیں اور پھر ان میں لچک پیدا کی گئی ۔
اس کے باوجود ایوان زیریں میں ٹرمپ منہ کی کھانی پڑی اور ان کی جماعت
اکثریت سے محروم ہوگئی ۔ ایران اور رام مندر کا شور بار بار مچایا تو جاتا
ہے مگراکثر ناکام رہتا ہے ۔
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنی شرمناک شکست کے باوجود انتخابات میں
’’انتہائی بڑی جیت‘‘ کا دعویٰ کیا کیونکہ ریبلکنگ پارٹی نے سینیٹ پر اپنا
قبضہ قائم رکھا، حالانکہ آٹھ سال میں پہلی بار ایوان نمائندگان کا کنٹرول
گنوادیا ۔جس طرح ٹرمپ کو ایران کے خلاف نفرت بچا نہیں سکی اس طرح رام مندر
کا ہنگامہ مودی جی کے کام نہیں آئے گا۔ لوک سبھا کے میں اکثریت
گنوانےکےبعد انہیں بھی ٹرمپ کی طرح کا بیان دینےکی ضرورت پیش آسکتی ہے ۔
اس لیے مودی جی کو چاہیے کہ ان جملوں کی مشق کرلیں تاکہ وقتِ ضرورت کام
آئے۔ ڈونالڈ ٹرمپ کی اس فضیحت میں مودی جی کے لیے سامانِ عبرت ہے۔
مسٹرٹرمپ کی موجودہ اورمودی جی متوقع حالت زار پر عنایت علی خان کے یہ
مزاحیہ اشعار (بعد از ترمیم)صادق آتے ہیں؎
بدلتے وقت لگتی ہے کوئی دیر،فضیحت سے فضیتا ہو گیا نا!
خدارا منہ پھلانا چھوڑ دو تم،کہ چہرہ تھوبڑا سا ہو گیا نا! |