قربان جاؤں

کسی ننھے سے بچے کسی بڑے بوڑھے کی سادگی اور کسی محبوب کی ادا پہ اکثر اوقات قربان جانے کو دل کرتا ہے لیکن کبھی کھبار ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی راہ نما کی کسی ادا پر یا اپنی قوم ہی کی جہالت پر بھی دل قربان جانے کو کرتا ہے جیسے ایک زمانے سے پاکستان کی جو بھی حکومت بنتی ہے تو ان کا سب سے بڑا کارنامہ کیا ہوتا ہے جی وزیر خزانہ کامیاب دورے کے بعد وطن واپس لوٹ آئے جی ہمیں بھی تو معلوم ہو کہ کیا کارنامہ موصوف انجام دے چکے ہیں تو معلوم کرنے پہ پتہ چلتا ہے کہ آئی ایم ایف سے مذاکرات کامیاب ہو گئے ہیں آئی ایم ایف نے قرضہ کی ری شیڈول کر دیا ہے اب یہ اقساط دس کی بجائے پندرہ سال میں دینی ہونگی وہ بھی صرف سات فیصد اضافی سود کے ساتھ ۔ یہ خبر سن کر بے اختیار ہنسنے کو جی چاہتا ہے لیکن پھر یہ سوچ کر خاموش ہو جاتے ہیں کہ یار یہ لوگ کیا کہیں گے کہ اچھا خاصہ سنجیدہ شخص بیہودہ انداز میں قہقہے کیوں لگا رہا ہے ۔ بہت پرانی بات نہیں ابھی ابھی ہمارے ملنگ طبیعت والے وزیراعظم جناب عمران خان بھیک مانگنے سعودی عرب گئے تو واپسی پر پھولے نہیں سما رہے تھے اور ساتھ میں مسکراہٹ کو ضبط کر کے یہ بھی بتا رہے تھے کہ ابھی چائنہ سے چند ارب ڈالرز ملنے ہیں جبکہ دیگر دو تین دوست ممالک تو ابھی باقی ہیں۔ اسی خوشی اور زعم میں آسیہ بی بی کا واقعہ رونما ہوا تو خان صاحب نے وہی کرکٹ فیلڈ والی حرکت کر دی اور دینی جماعتوں ک ودھمکایا پھر کیا تھا وہ چین بھیک مانگنے نکلے پیچھے سے چند شر پسندوں نے ملک کا ایسا حشر نشر کر دیا کہ ایک غریب بچے کی ریڑھی کے پچاس ساٹھ درجن کیلوں کو بھی نہیں بخشا۔

اب کوئی ہمیں بتائے کہ ہم وزیراعظم کی بھیک مانگنے والی حرکتوں پہ قربان نہ جائیں تو کیا ان خاک استر ہونے والی گاڑیوں موٹر سائیکلوں پہ جائیں جن کو بلا وجہ آگ کی نظر کردیا گیا ۔ یا بندہ قربان جائے اس ملک کے انصاف یا کورٹ کچہری کے جنہوں نے تقریباً نو برس تک اس کیس کو لٹکائے رکھا۔ یا پھر بندہ قربان جائے جناب زرداری صاحب کے مشوروں کے جو انہوں نے اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے حکومت کو دیئے ۔ یا بندہ قربان جائے اس ملک کے جس کے پاس ایٹم بم ہے اور کھانے کے کچھ بھی نہیں ۔ جس کے پاس دنیاء کا بہترین نہری نظام ہے اور پانی نہیں۔ جو مشہور ہے زرعی ملک کے نام سے اور گندم باہر سے درآمد کرتا ہے جس کے پاس تیل، گیس، سونے ، چاندی، قیمتی پتھروں ، دھاتوں کی بھرمار ہے لیکن اس کی کانوں کو دوسرے ممالک کے ہاتھوں اونے پونے داموں بیچ کر اپنا مفاد پورا کیا جاتا ہے ۔

بندہ حیرت بھی محسوس کرتا ہے لیکن یہاں کی میڈیا پہ بھی قربان جانے کو دل کرتا ہے ۔ نیوز چینلز پہ ماسوائے سنسنی اور پگڑھیاں اچھالنے کے کچھ بھی نہیں ۔ انٹر ٹینمنٹ چینلز پہ لمبی لمبی سیریلز اور جس بھی بغیر طلاق شادی، گھریلو نا چاقی اور بد تہذیبی کے سوا کچھ بھی نہیں دکھایا جاتا۔ کھیلوں میں صرف ایک کرکٹ ہی ہے جس کو عوام کے دیکھنے کیلئے اتنی بار چلایا جاتا ہے کہ بندہ تنگ آجاتا ہے ارے اللہ کے بندو دنیاء میں ایسے کھیل بھی ہیں جس کا فیصلہ چند منٹس یا گھنٹہ ڈیڑھ میں ہو جاتا ہے میزوک کا حشر تو کوک سٹوڈیو وگیرہ نے ایسا کر دیا ہے کہ اب میوزک سے جان جاتی ہے نیاء کام جدت کہیں دور دور تک نظر نہیں آتی ۔ اب اگر ان سے ذرا دیہان ملکی اداروں پہ آجائے تو ان پہ بھی قربان جانے کو جی چاہتا ہے جیسے پی آئی اے ، سٹیل ملز FBR، پمرا ، نیپرا، کسٹم، ایکسائز اینڈ تیکنیشن وغیرہ وغیرہ پاکستان کے تقریباً تمام ادارے صرف نام کے ادارے ہیں یہاں کام کرنے والے افراد دفتر آنے کی تنخواہ اور دیگر مراعات لیتے ہیں جبکہ کام کرنے کے بدلے رشوت لیتے ہیں یہ پاکستانی دفاتر میں کام کرنے والوں کا طرہ امتیاز ہے کہ ان کی عادتیں شاہانہ ہونگی۔ وہ عوام کو بندے کا پتر نہیں سمجھیں گے اور ہر کام جو اسکی ذمہ داری ہے احسان چٹا کر ینگے یہی حال عام عوام کا ہے کہ پاکستان میں اب آپ کو ایسے عزیز اقارب کم ہی دیکھنے ک ملیں گے جو کسی عزیز کے کام آئے ایسے لوگ گم ہی راہ چلتے ملیں گے جو کسی کی مدد کیلئے دو منٹ نکال لیں۔ ایسی قوم کی اس ادا پر قربان جانے کو جی کرتا ہے کہ بڑی بڑی دوکانیں سجا کر چائنہ اور دوسرے ممالک کا مال بیچتے نظر آتے ہیں ملک مقروض خود مقروض لیکن قیمتی موبائل، گھر پہ 40اور 50انچ کی ایل ای ڈی سکریں ، کیبل،Wifi اور اچھی سے بائیکل یا گاڑی اسی کا شوق ضرور کریں گے جبکہ بلڈ پریشر آسمان سے باتیں کرتا ہو گا ۔ شوگر انتہاء کو چو رہی ہو گی کولیسٹرول لیول زائد ہو گا یوک ایسڈ تمام حدیں پار کر چکا ہو گا لیکن یہ مزے لے لے کر چرسی کے تکے اور طرح طرح کی مشروبات پیتا ہو گا جبکہ ساتھ میں یہ بھی کہتا ہو گا اللہ شفا دینے والا ہے اب قارئیں ہی بتائے کیا ایسا ملک اور ایسے لوگ کہیں اور مل سکتے ہیں۔

Muhammad Sohail Monis
About the Author: Muhammad Sohail Monis Read More Articles by Muhammad Sohail Monis: 2 Articles with 1230 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.