طلحہ السیف
ایک استاذ نے بلیک بورڈ پر ایک لکیر لگائی اور طلبہ سے کہا:
’’کوئی آکر اس لکیر کو چھوٹا کردے‘‘
کئی طابعلم اٹھے اور آ کر لکیر تھوڑی تھوڑی مٹا دی، ایک ذہین طالبعلم اٹھا
اور آکر استاذ کی لگائی ہوئی لکیر کے ساتھ اس سے بڑی ایک اور لکیر لگا دی
اور بولا۔ ’’سر! بڑی چیز کو چھوٹا کرنے کا صرف یہی طریقہ نہیں کہ اسے مٹانے
کی فکر کی جائے بلکہ صحیح طریقہ یہ ہے کہ اس سے بڑی چیز بنا دی جائے‘‘۔
آپ جانتے ہیں یہ طالبعلم کون تھا؟یقینی طور پر تو میں بھی نہیں جانتا البتہ
قیاس سے ایسا لگتا ہے کہ پرویز مشرف یا یوسف رضا گیلانی ہونگے۔ بلکہ نواز
شریف بھی ہو سکتے ہیں،اور اگر ان میں سے کوئی نہیں تو یہ سب لوگ اس طالبعلم
سے بہر حال متاثر ضرور ہیں۔
مگر وہ کیسے ؟
وہ ایسے کہ جناب ان تمام حکمرانوں نے مہنگائی ، کرپشن، غیر ترقیاتی اخراجات،
کابینہ اور بحران اسی کلیے کے تحت کم کئے۔ ایک حکمران آکر جتنی بڑی کابینہ
بناتا ہے،کرپشن کو جتنا عروج دیتا ہے، بحرانوں کے انبار لگاتا ہے، غیر
ترقیاتی اللّوں تللّوں پر جو اخراجات کرتا ہے اور مہنگائی کی شرح جس
قاتلانہ حد تک لے جاتا ہے دوسرا حکمران آتے ہی اعلان کرتا ہے کہ وہ ان تمام
چیزوں کو نہ صرف کم بلکہ ختم کر دے گا، اور پھر اس سے بڑی لکیر لگانے کی
محنت شروع کردیتا ہے حتیٰ کہ سابقہ حکمران کی کارکردگی صفر نظر آنے لگتی ہے۔
پیپلز پارٹی چونکہ پڑھاکو لوگوں کی پارٹی ہے اس لئے اسکا ٹریک ریکارڈ اس
حوالے سے انتہائی شاندار ہے خصو صاً اس دور حکومت کے ابتدائی سو دنوں میں
جس طرح اس نے مہنگائی کی لکیر لگا کر شوکت عزیز کی لکیر کو نیچا دکھایا اس
تیز رفتاری کی مثال پچھلی تاریخ میں ناپید ہے آگے اللہ خیر کرے۔
استاد شاگرد سے۔
بتاؤ سونا کہاں سے نکلتا ہے؟
جناب! کان سے۔
شاباش۔ اب تم یہ بتاؤ کوئلہ کہاں سے نکلتا ہے؟۔
سر! کان سے۔
مگر ہمارے کانو ں سے صرف میل کیوں نکلتا ہے؟۔
وہ اس لئے سر ! کہ ہم سونا اور کوئلہ نکلنے سے پہلے ہی بیچ دیتے ہیں۔
ریکو ڈک ہو یا تھرکول،سونا اور کو ئلہ باہر والے لے جائیں گے بعد میں ہم ان
کی کھدائی کر کے میل نکال لیں گے۔ ہمیں سونے سے کیا کام؟ ہم زندہ قوم ہیں
پائندہ قوم ہیں۔ مر د لوگ ہیں جن کے لئے سونا ویسے بھی حرام ہے یوں بھی
دنیا میں سارا فساد زن، زر اور زمین کے سبب ہوتا ہے۔ ’’زن‘‘ ہم کھو چکے
ہیں، ’’زر‘‘بیچ دیا ہے اور ’’زمین‘‘ جس دن دل چاہا چھوڑ کر تپسیا کے لئے
سوئزرلینڈ کے ویران پہاڑوں میں بھاگ جائیں گے ہمیں ان میں سے کسی چیز سے
پیا ر نہیں ۔
استاد شاگرد سے...
بتاؤ توانائی کسے کہتے ہیں؟ اور ہاں زمانہ حاضر کے اعتبار سے جواب دینا توے
اور نائی والا جواب بہت پرانا اور فرسودہ ہے۔
سر! کون سی توانائی کا پوچھ رہے ہیں؟ اگر آپکی مراد برقی توانائی ہے تو
اسکا مطلب ہوتا ہے’’ لوڈ شیڈنگ‘‘
اگر گیس پاور کے متعلق پوچھ رہے ہیں تو نئی آکسفورڈ ڈکشنری میں اس کا ترجمہ
لکھا ہے ’’ہلکی ہلکی شوں شوں‘‘۔
اگر آپکا سوال ’’کول پاور‘‘ کے بارے میں ہے تو اسکا معنی ہے وہ چیز جو پیدا
ہونے سے پہلے بیچ دی جائے۔ اور اگر آپ کے ذہن میں ’’ایٹمی توانائی‘‘ کے
متعلق سوال ہے تو اسکا جواب ہے وہ چیز جو آپ کو مل جائے مگر استعمال کرنا
نہ آئے۔ یہ ترجمہ نیا ہے پچھلے دور حکومت میں اسکا معنی تھا وہ چیز جسے
بیچنے کی کوشش ناکام ہو جائے۔
رہی بات آبی توانائی کی تو اسکا معنی ہوتا ہے وہ قیمتی مال جو ضائع ہو جاتا
ہو یا کر دیا جاتا ہو اور شمسی توانائی کا مطلب ہے وہ چیز جس کی طرف توجہ
ہی نہ کی جائے۔
ہمارا ملک پاکستان ایک بہترین تجارتی منڈی ہے۔ ہمارے حکمران سر توڑ کو شش
کر رہے ہیں کہ دنیا بھر کے سرمایہ دار اور سر مایہ کار یہاں تجارت کریں، تو
عزیز طلبہ ! آپ میں سے کو ن اس موضو ع پر تقریر میں پاکستان کی تجارتی
اہمیت پر روشنی ڈالنے کی ہمت کرے گا؟۔
سر! پاکستان صرف اہم نہیں دنیا کی سب سے بڑی تجارتی منڈی ہے۔ یہاں پر وہ سب
کچھ بکتا ہے جو دوسرے ملکوں میں بیچنے کا تصو ر بھی نہیں کیا جا سکتا۔
مثلاً دنیا بھر میں جو تجارتیں معروف ہیں وہ یہ ہیں۔ زمینی پیداوار کی
تجارت، خام مال کی تجارت، مصنوعات کی تجارت، مشینر ی کی تجارت، لیبر کی
تجارت اور عزت کی تجارت۔
پاکستان میں یہ سب کچھ تو بکتا ہی ہے مگر ان کے علاوہ بہت کچھ ایسا بکتا ہے
جو کسی ملک میں نہیں بیچا جاتا، مثلاً منافع بخش سر کاری محکموں کی تجارت،
جیتے جاگتے چلتے پھرتے انسانوں کی بغیر غلام بنائے تجارت، زندہ انسانوں کے
اعضا کی تجارت، لاشوں کی تجارت ،﴿بعض لاشوں پر تو کروڑوں کی قیمت لگتی ہے﴾
کانوں کی تجارت، اپنے ملک میں جن اشیا کی قلت ہو ان کی بیرون ملک تجارت،
وزارتوں اور عہدوں کی تجارت، انتخابی نامزدگیوں کی تجارت، اتحادوں کی
تجارت، خاموشی کی تجارت اور بولنے کی بھی تجارت، جلسوں ،احتجاجوں اور
دھرنوں کی تجارت اور ایک ایسی تجارت جسے سن کر آپ کے رونگھٹے کھڑے ہو جائیں
گے، پہلے کم ہوتی تھی موجودہ حکومت کی مہربانی سے بکثرت ہونے لگی ہے والدین
کی طرف سے اپنے بچوں کی تجارت اور ہاں اہل مغرب کے لئے خوشخبری کہ ان کی من
پسند تجارت آج کل فروغ پذیر ہے جلد سر مایہ کاری کرلیں وہ ہے قلم کی تجارت
اور علم کی تجارت۔ صحافی اور دانشور سر بازار اپنی بولیاں لگا رہے ہیں
’’کوئی ہے جو اچھی بولی دے کر خر ید لے‘‘۔ یورپی دارالعوام نے تو تسلیم کر
لیا کہ اس نے توہین رسالت کے بل پر زبان و قلم چلانے کے لئے کئی لوگوں کو
خرید رکھا ہے یہ سن کر کئی لوگ قلم بکف، رال بمنہ، زبانیں تیز کر کے بازار
میں آن کھڑے ہیں کہ کسی خریدار کی نظر کرم ان پر بھی پڑ جائے۔ اور آخر میں
اس تجارت کا ذکر کر تا چلوں جس کے لئے عام سر مایہ دار تو زحمت نہ کریں صرف
حکومتیں اور اہم طاقتور ایجنسیاں متوجہ ہوں وہ ہے حکمرانوں کی تجارت، جی
ہاں ! ہمارے ہاں یہ جنس گراں انتہائی ارزاں نرخوں پر دستیاب ہے ۔ ہم آپ کو
پاکستان کی مارکیٹ میں خوش آمدید کہتے ہیں جو یقیناً دنیا کی سب سے بڑی
تجارتی منڈی ہے۔
ایک سکھ سے کسی نے پوچھا۔ سردار جی دنیا میں سب سے مشکل کام کونسا ہے؟
سکھ نے کافی سوچ کر کہا... ہیلمٹ پہن کر کسی بچے کو بوسہ دینا۔
سردار جی کی اپنی سوچ تھی مگر مجھ سے اگر کوئی پوچھے کہ بحیثیت قلم کار
پاکستان میں سب سے مشکل بلکہ ناممکن کام کونسا ہے؟ تو میرا جواب ہوگا...
پاکستانی حکمرانوں بلکہ سیاستدانوں کے بارے میں کلمہ خیر کہنا ۔ کسی شاعر
نے شاید پاکستانی سیاستدانوں کے بارے میں ہی کہا ہوگا،
’’وادر یغانیست ممدوحے سزا وار مدح ‘‘
﴿کتنا افسوس ہے کہ کوئی شخص ایسا نہیں جسکی مدح کی جاسکے﴾ لیکن وہ پاکستانی
ہی کیا جو مشکل اور ناممکن کام نہ کر سکے اسلئے کچھ لوگ سیاستدانوں کی مدح
خوانی کر لیتے ہیں۔ آصف زرداری ہوں ، گیلانی ہوں شریف ہوں خان ہوں سب کو
قصیدہ خواں میسر ہیں جو ان بد ترین حالات میں بھی ان کی تعریفیں ڈھونڈ ھ
لاتے ہیں۔ ایسے تمام قلم کا ر ا س عظیم محنت پر تمغۂ حسن کا ر کر دگی کے
مستحق ہیں اور یقیناً حکومت کی اس طرف توجہ بھی ہوگی ہمارا مقصد توجہ دلانا
نہیں ان اہل قلم پر رشک کرنا تھا جو اس ناممکن کو ممکن بنارہے ہیں۔ آخر میں
ایک شعر ایسے تمام قلم کے مزدوروں کی نذر، اگر کسی کی شکل شعر میں مذکور
کسی جانور سے مل جائے تو اسے محض حسنِ اتفاق سمجھا جائے اور کچھ نہیں.
ہم جس مقام پر ہیں وہاں سب مزے میں ہیں
سب کر رہے ہیں آہ و فغاں سب مزے میں ہیں
یہ بوم و چغد، زاغ و زغن، پیشہ ور نقیب
نوبت درِ مزار شہاں سب مزے میں ہیں |