ہمارے تمام ٹی وی چینلز پر
روزانہ ایک خبر باقاعدگی سے چلتی ہے کہ امریکی ڈرون حملے میں افراد ہلاک یہ
مسلسل عمل ہے جو کہ امریکہ کی طرف سے جاری ہے اور اب کل لاہور میں ہونے
والا واقعہ کسی ڈرون حملے سے کم نہ تھا کہ ایک امریکی نے کتنی سفاکی سے
ماؤں کے لخت جگر کو اپنی گولیوں کا نشانہ بنایا۔
ایک امریکی کے اس عمل سے بہت سارے سوالات ہیں جنہوں نے جنم لیا ہے۔ کہ
کیا امریکی کے پاس اسلحہ رکھنے کی اجازت تھی؟
کیا امریکی قونصلیٹ کے اہل کاروں کو اس بات کی اجازت ہے کہ وہ کسی پرائویٹ
کار میں کسی بھی گنجان آبادی کا رخ کر سکیں؟
کیا امریکی قونصلیٹ کے اہلکار وزٹ ویزہ پر پاکستان میں اس طرح دندناتے گھوم
سکتے ہیں؟
اور بہت سارے سوالات ہیں جو عوام کی ذہنوں میں ہونگے۔ لیکن میرا عوام اور
سیاسی پارٹیوں سے سوال ہے کہ ان کو وزیرستان میں ہونے والے ڈرون حملے کیوں
نظر نہیں آتے؟ کیا وہ پاکستانی نہیں ہیں؟
پاکستان میں ہر فرد کی فکر اس کی ذات سے شروع ہو کر اس کی اپنی ذات پر ختم
ہو جاتی ہے، عزیزوں اگر پڑوس میں آگ لگ جائے تو اس کو اپنی فکر کرنے کی
بجائے پڑوس میں لگنے والی آگ کو بجھانے کی کوشش کرنی چاہیے۔
کل شمالی وزیرستان میں ہونے والے حملے اب پاکستان کے بڑے شہروں تک پہنچ چکے
ہیں۔ ہم سب کو مل کر پاکستان کے بارے میں سوچنا پڑے گا۔
لاہور میں ہونے والا واقعہ جس میں ایک امریکی نے جو کہ ایک وزٹ ویزہ پر آیا
ہوا تھا نہ صرف شہریوں کو گولیوں سے نشانہ بنایا بلکہ اپنے اس سفاکانہ عمل
سے پیدا ہونے والی صورتحال پر جائے وقوعہ کی تصاویر بنانے لگا۔ طاقت کے نشہ
میں چور ہی امریکی پاکیستان کو اپنا غلام سمجھتے ہیں۔ امریکہ میں مقیم
پاکستانیوں کو صرت شک کی بنیاد پر سزائیں سنا دی جاتی ہیں اب دیکھنا یہ ہے
کہ امریکہ کے غلام یہ سربراہ اس سفاک امریکی کی سزا دلوانے میں کامیاب ہوتے
ہیں یا ہمیشہ کی طرح غلاموں کی طرح سر جھکاتے ہیں۔
ان ساری سورتحال میں مظلوموں کی جماعت کی قائد خاموش کیوں ہیں؟ |