آج اِس میں کوئی دورائے نہیں ہے کہ اِن دِنوں موجودہ
حکومت کئی حوالوں سے کڑے امتحانات سے دوچار ہے، اگرچہ ،حکومت کے ابتدائی
سودنوں کی معیاد ختم ہوگئی ہے، جس میں حکومت کا سینہ ٹھونک کر کے دعوی ٰ
تھا کہ بہت سے مُلکی معاملات میں بے شمار تبدیلیاں نظر آئیں گیں ، مگر ، آہ
، سب کچھ ٹائیں ٹائیں فش ...!! جبکہ اِس عرصے میں حکومت کے دامن میں
اپوزیشن اور قومی لیٹروں کی جانب سے کی جانے والی تنقیدوں اور عوام کے ہاتھ
حکومتی تسلیوں کے کچھ نہیں آیاہے۔البتہ، اتناضرورہواہے کہ اِس دوران
اپوزیشن نے اپنی بے جا تنقیدوں سے نوآزمودہ حکمران جماعت کو حکومتی رنگ
ڈھنڈنگ سیکھنے کا موقع دے دیاہے۔اَب جیسے وقت گزرتاجارہاہے حکومتی ذمہ
داران بشمول وزیراعظم عمران خان کا بھی اپنے قدامات اور اپنے کہے ہوئے پر
بار بار یوٹرن لینے کا رجحان کم ہوتاجارہاہے ۔اُمید ہے کہ ابتدائی سو دِنوں
کے بعد حکمرانوں کو اپوزیشن سے خندہ پیشانی سے نمٹنے کا طریقہ بھی آہی
گیاہوگا۔
تاہم کوئی حکومت کے پہلے سو دنوں کے بارے کچھ بھی کہے مگراِب لگتا ہے کہ
حکمران اپنی حکومت کے ابتدائی تین ماہ میں مُلک سے کرپشن کے ناسُور کو جڑ
سے اُکھاڑ پھینکنے والے عوام سے کئے گئے اپنے وعدوں اور دعووں پر قائم ہیں،
ایسے میں بس ! ضرورت اِس امر کی ہے کہ اَب مُلک سے بلاتفریق کرپٹ عناصر کا
خاتمہ کرنے کے لئے سِول جمہوری حکمرانوں کو مارشل لاء سے بڑھ کر اقدامات کو
یقینی بنانا ہوگا، تو ممکن ہے کہ حوصلہ افزا مثبت پیش رفت سامنے آجائے، اور
سرزمینِ پاکستان سے اگلے پچھلے ہائی پروفائل کرپٹ عناصر کا صفایاہوجائے؛
نہیں تو سب خواب ہی رہے گا۔ ویسے یہ بات تو سب ہی ظاہر و باطن طورپر تسلیم
کررہے ہیں کہ آج یقینی طور پر قوم کو کرپشن کی لال پتی کے پیچھے بھگانے
والے عوام کے صبر کا مزید انتظار ختم کرانے کو ہیں ، شاید ستر سال میں پہلی
مرتبہ مُلک میں کڑے احتساب کی ہنڈی کو دم لگایاگیاہے، اِ س لئے عنقریب کرپٹ
عناصر کی پکی پکائی انجام کو پہنچتی کرپشن کی کھچڑی دنیا کے سا منے آنے کو
ہے۔تب ہی اپنے عبرت ناک انجام سے خوفزدہ کرپٹ عناصر اپنے بچاؤکے لئے ہاتھ
پاؤں ماررہے ہیں۔
مگر اَب اِن کی سعی بے سود ہے، کیوں کہ اِن ہائی پروفائل کرپٹ عناصر کے
سیاہ کرتوتوں کی اتنی لمبی فہرست ہے کہ اگر اَبھی مُلک کو لوٹ کھانے والے
ماضی و حال اور مستقبل کے حکمرانوں ، سیاستدانوں اور اِن کے اِدھر اُدھر کے
چیلے چانٹوں کا کڑااحتساب نہ ہوا اور اِنہیں ہمیشہ کی طرح پھر پھولوں کی
پتیوں اور رگِ گل سے ہلکی پھلکی سزا دے چھوڑ دیاگیا،تو پھر با ئیس کروڑ محب
وطن پاکستانیوں کا تو اﷲ ہی حافظ ہے۔
جیسا کہ اِن دِنوں کہیں کہیں سے اُڑتی ہوئی اطلاعات آرہی ہیں کہ اندرپڑے
ہوئے ہائی پروفائل ماضی کے حکمران اور سیاستدان اور جلد اندر جانے کے
خواہشمند مسٹر ٹین پرسنٹ این آراُو کے لئے بیتاب ہیں۔ مگر ساتھ ہی دبے دبے
الفاظ کے ساتھ انکاری بھی ہیں۔ بالفرض ، این آراُو ہونے کی صورت میں جیساکہ
نظر آرہاہے کہ اَبکی بار اگرہائی پروفائل کرپٹ عناصر بے گناہ ثابت ہوکر
باہر آئے۔ تو یہ ماضی کے حکمران اور سیاستدان مُلک اور قوم کا اِتنا
بُراحشر کریں گے کہ دنیا اپنے کانوں پر ہاتھ لگا کر پاکستا نی قوم کی حالتِ
زار پر تر س کھانا بھی چھوڑ دے گی،اور کہہ اُٹھے گی کہ پاکستانی اداروں اور
قوم کو سترسال بعد اتنااچھاموقعہ ہاتھ آیاتھا کہ یہ ماضی اور حال اور لگے
ہاتھوں مستقبل کے کرپٹ عناصر کو بھی دنیا کے دیگر مہذب ممالک اور معاشروں
کی طرح زمین سے تین فٹ اُونچا اُٹھا کر ہمیشہ کے لئے زمین کے دوہاتھ نیچے
کردے،اور کرپٹ عناصر سے جان چھڑائے ، مگر ہائے رے افسوس کہ پاکستان میں
قانون کا نفاذ کرنے اور احتساب کرنے والے اداروں نے کچھ نہیں کیا ۔
آج جبکہ کئی دہائیوں کے بعد قومی لٹیرے قانون کی گرفت میں پوری طرح سے جکڑے
جاچکے ہیں ،اور احتساب کے کڑے مراحل سے گزر کر اپنے عبرت ناک انجام کو
پہنچنے والے ہیں، لاز م ہے کہ اَب اِنہیں پاکستانی آئین اور قانون کے مطابق
کڑے احتساب کے بعد کڑی سزائیں بھی دی جائیں،تو کچھ بات بنے گی ورنہ ؟ قومی
خزانہ لوٹ کھانے والوں پر ترس کھا کر قانون او ر کڑے احتسابی عمل میں
لچکداری کا مظاہر ہ کرتے ہوئے ہلکا ہاتھ رکھا گیا۔تو پھر قوم کا قانون ،
انصاف اور احتساب کے اداروں پر سے اعتبار ختم ہوجائے گا ۔ مفلوک ا لحال
غریب پاکستا نی قوم چیخ اُٹھے گی کہ اسلام کے نام پر وجود میں آنے والے
پاکستان میں دُہرا قانون ہے۔ جس میں مہنگائی اور بھوک و افلاس کے ہاتھوں بے
کس و مجبور ایک بھوکااپنا پیٹ بھرنے کے لئے کہیں سے ایک روٹی چوری کرلے ،جب
پکڑاجائے تواپنی ساری زندگی جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزاردیتاہے۔ جبکہ اِسی
اسلامی مملکتِ خداداد پاکستان میں اربوں اور کھربوں قومی خزانہ لوٹ کھانے
والے حکمران ، سیاستدان اور اِن کے چیلے چانٹے قانونی گرفت سے آزاد رہتے
ہیں اور سینہ چوڑاکرکے باعزت زندگی گزارتے ہیں۔ نا صرف یہ بلکہ ایوانوں میں
پہنچ کر اپنی بچاؤ کرنے والی قانون سازی کے بھی ٹھیکیدار بن جاتے ہیں، واہ
رے..! سرزمینِ پاکستان تیرایہ کیسا انتظامی امُور ہے؟
بہر حال ، ہرکسی کی کچھ حد ہوتی ہے، یہاں تو جیسے سب ہی کچھ حدود وقیود سے
آزاد ہیں،سرزمین پاکستان میں ستر سال سے یہ عام رہاہے کہ جوبھی عوام کا
مینڈیٹ لے کر تاجِ حکمرانی سر پر سجائے سامنے آیا ، یا اِسے کسی نے کہیں سے
پکڑا کر بنا سجاکر لابیٹھایااور پھر لات مار کراور کان پکڑ کراقتدار کے تخت
سے ہٹاکر خودکوئی مطلق العنان مسند اقتدار پر آن بیٹھا دونوں ہی نے قومی
خزانے کو اپنے اجداد کی جاگیر سمجھ کر بے دردی سے لوٹ کھایا،آج قومی لٹیروں
کی لوٹ مار حد سے تجاوز کرگئی ہے، تو ستر سال بعد قومی لیٹروں کو لگام دینے
کے لئے جیسے تیسے احتساب کا عمل شروع ہوگیاہے جس پر کرپٹ عناصر کا چین اُجڑ
گیاہے۔
یقیناً وزیراعظم عمران خان کی حکومت سے عوام کو بے شمار مثبت تبدیلیوں کے
ساتھ اچھائی کی اُمیدیں وابستہ ہیں، مُلک کے بائیس کروڑ محب وطن پاکستانی
اپنے وزیراعظم عمران خان کی جانب دیکھ رہے ہیں،جنہوں نے مُلک سے کرپشن اور
کرپٹ عناصر کا بلاتفریق خاتمہ کرنے کا عزم کررکھاہے ، اَب تک کرپشن کے
خاتمے کے لئے حکومت کے کئے گئے اقدامات قابلِ تعریف ہیں۔ مگر عوام کی شدت
سے یہ بھی خواہش ہے کہ اِس معاملے میں تیزی لائی جائے،اور ہائی پروفائل
(سِول اور آمر)کرپٹ عناصر کو جلد از جلد انجام کو پہنچایاجائے ، آخر کب تک
حکمران قوم کو کرپشن کی لال بتی کے پیچھے بھگاتے رہیں گے؟ کیا یہی ایک کام
رہ گیاہے؟ ابھی تو حکومت کو اور بھی بہت سے کام کرنے ہیں۔(ختم شُد)
|