استاد وہ چشمۂ صافی ہے جس کے میٹھے پانی سے نہ صرف اس
کے اپنے شاگردسیراب ہوتے ہیں بلکہ ہرانسان واسطہ یابلاواسطہ اس سے نہ صرف
فیض یاب ہو تا ہے بلکہ اسے آبِ حیات سمجھتاہے۔استادکی قدروقیمت صحیح معنوں
میں وہی شخص جان سکتاہے جوظلمت وجہالت کے گھپ اندھیروں میں، استادجیسے
روشنی کے مینارسے روشنی لے کر،علم جیسی روشن قندیل کے ہمراہ ،گھٹاٹوپ
اندھیروں میں بھی نورپاتاہے۔چونکہ بات یہاں ایک استاداورشاگردکی ہے ۔ایک
ایسے قابل شاگردکی بات کہ جس نے اپنے قابل ترین استادکومحبت ومؤدت کانذرانہ
اورخراج تحسین پیش کیاہے۔اگرشاگرد کی بات کی جائے توتعارف کچھ یوں
ہے:درمیانہ قد، گندمی رنگت،تیکھے نقوش، ذہانت وفطانت سے
لبریزآنکھیں،سفیدجالی دارٹوپی سے سرڈھانپے، چہرے پہ سجی خوبصورت سنتِ رسول
ﷺ ، داڑھی میں کچھ کچھ چاندی جیسے جھلکتے سفیدبال، چہرے پہ سنجیدگی اورلبوں
پرتبسم آمیزمسکراہٹ، بولیں توجھڑتے جواہرولعل تاریخ کے ماتھے
کاجھومربنیں،ذہین اس قدرکے مدتوں بیتے واقعات کوجزئیات سے یوں بیان کریں
گویاکہ سامنے ہی رونماہورہے ہوں، متوازن چال، ملنسار، مہمان نواز،ایک کہنہ
مشق صحافی، بحث ومناظرہ میں مخالف کوپختہ دلائل سے چت کرڈالیں،حاضر جواب
ایسے سامنے والے کولاجواب کردیں، قلم اٹھائیں توحرف ولفظ کوجملوں کی لڑی
میں یوں پروئیں گویاکہ آبشارچھن چھن گرے اورجھرنابہہ نکلے، محبت رسول ﷺ اس
قدرکہ احادیث رسولﷺ باوضوپڑھاتے ہوئے شدتِ محبت میں ضبط کے سارے بندٹوٹ
جائیں ،اپنے مسلک پرکوئی سمجھوتہ نہ کرنے والے، یہ میرے عزیزاستاد، بہترین
مُربی، استاذالعلماء ، مصنف کتب کثیرہ اورمیرے رہنما مولانا حافظ فاروق
الرحمن یزدانی حفظہ اﷲ ہیں۔یہ میرے وہ استادہیں کہ جن کے سامنے احادیث رسول
ﷺکے لیے مجھ ناچیز کوکئی سال دامن پھیلائے قیمتی موتی چننے اور زانوائے
تلمذطے کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔مجھے فخرہے کہ میں ایک قابل فخرمشفق
ومہربان استاد کا شاگرد بنا۔
اب بات ان کے اس نذرانۂ محبت اورخراجِ تحسین کی کرتے ہیں جوانہوں نے اپنے
استادمحترم کوکتابی شکل میں بنام’’علمائے کرام کے محسن ومُربی مولاناحکیم
عبدالرزاق سعیدیؒ، حیات، خدمات،آثار‘‘ پیش کیاہے۔یہ سچ ہے کہ مصنف دنیاسے
چلاجاتاہے مگراس کی کتابیں اسے زندہ رکھتی ہیں ، لیکن یہ بھی توسچ ہے کہ
مصنف کی کتابوں میں گزری ہوئی شخصیات پھرسے زندہ ہوجاتی ہیں ، انہی کتابوں
میں سرِ فہرست مذکورہ کتاب بھی ہے، اس حقیقت سے بھی مفرنہیں کہ کئی
شاگردبھی اساتذہ کے چلے جانے کے بعدبھی انہیں زندہ رکھتے ہیں۔یہ کتاب، محض
ایک کتاب نہیں بلکہ محبت کاوہ مظہرہے جس نے کئی انسانوں کواستادکی محبت
وتکریم سے روشناس کرایا، یہ وہ آبِ حیات ہے جس نے ایک مہربان استادکودنیاسے
چلے جانے کے بعدبھی حیات جاودانی بخشی اورانہیں گویاکہ امرکردیا، وہ سوانح
حیات ہے جواس قابل تھی کہ اسے تاریخ کے اوراق کی زینت بنایاجائے۔وہ عقیدت
ہے جواساتذہ سے کی جانی چاہیے، وہ باب ہے جوایسے گلشن کی طرف کھلتاہے جہاں
مہکتے پھولوں کی سونی سونی سی خوشبوانسان کے نتھنوں سے ہوتی ہوئی دل ودماغ
کومعطرکرتی ہے، جہاں شاخ پہ بیٹھی محبت واپنائیت کی قمریاں چہچہاکرآغازِ
سحرکرتی ہیں ، جہاں بادِ نسیم کے لطیف جھونکے بدن کوفرحت بخشتے ہیں ۔
اس کتاب میں ایک ایسے مشفق استادکی داستان رقم کی گئی ہے جواپنے شاگردوں کے
لیے غم وآلام کی تاریک رُتوں میں حوادث سے ٹکراگئے،جنہوں نے بہاربن کرعلم
کے خزاں رسیدہ چمن کے زردپتوں میں گلِ سرسبدکی نموکاازسرِ نوآغازکیا۔اس کے
مطالعہ سے ہمت وجرأت کے روزن واہوکرامیدوں کی کرنیں پھوٹتی ہیں، دلِ ویران
میں ان گنت پھول کھلتے ہیں۔اس کے مطالعہ سے ذہن میں یہ تصوراوردل میں یہ
شدیدخواہش انگڑائی لیتی ہے کہ کاش میں بھی اس دورمیں پیداہوا ہوتاکہ جس
دورمیں ایسے اساتذہ کرام نے ہماری کئی مٹتی تہذیبوں کومٹنے نہ دیا، جن کے
ہاتھوں قابل ترین شاگردپروان چڑھے، جن کی وساطت سے کئی نسلوں کے مستقبل
سنورگئے، جن کادل دوسروں کادردمحسوس کرتا، ان کی سخاوت وفیاضی، غریبوں سے
ہمدردی، دین کے لیے انتھک محنتیں،یہ اوصاف انہیں گویاکہ فرشتوں سے
ممتازکرتے ہیں۔جیسااقبال ؒ نے کہاہے کہ:
فرشتوں سے بہترہے انسان بننا
مگراس میں لگتی ہے محنت زیادہ
اس کتاب میں ایسے مُربی کاذکرہے کہ جس کے رویے میں کوئی ابہام، کوئی
دوغلاپن نہ تھا، ان کے طبعی رجحانات ، مزاج ومذاق اورفکروسوچ میں بڑاتنوع
تھا۔ان کے زیرِ سایہ اس دورکی سسکتی انسانیت سکون پالیتی تھی، بھٹکتی ہوئی
بے چین روحوں کویہاں آکرچین مل جاتا، ان کاعزم جوان تھا، ان کاولولہ تازہ
تھا، ان کاجذبۂ ٔدین لازوال تھا، بلاشک وشبہ وہ عظیم استاداورمُربی تھے۔
میں پھرکہوں گاکہ یہ کتاب ، محض ایک کتاب نہیں یہ ہماراوہ درخشاں ماضی ہے
جسے ہم بھلاچکے ، اس میں اس مشفق استادِمکرم کی داستان رقم ہے جوواقعی اس
قابل تھے کہ جنہیں استادکہاجائے۔اس میں اس مردِ آہن اورخداکے پراسراربندے
کاتذکرہ ہے کہ جن کی ٹھوکرسے صحراو دریااورپہاڑسمٹ کررائی بن جایاکرتے
تھے۔دین کے لیے تکلیفیں برداشت کرنا، اپناتن ،من ،دھن دین کے لیے قربان
کرناانہی اساتذہ کرام کاخاصہ تھا۔یہ کتاب آج کے اساتذہ کے لیے ایک نمونہ
اورشاگردوں کے لیے بہترین رہنمائی ہے۔میں اپنے استادِمحترم مولانافاروق
الرحمن یزدانی حفظہ اﷲ کاسپاس گزارہوں کہ جنہوں نے اس سمندرکوکوزے میں
بندکرکے ہمارے لیے استادسے محبت کامنفرداندازمتعارف کرایا۔کتاب ’’دارالعلوم
رحمانیہ ، اڈالاریاں، فاروق آبادضلع شیخوپورہ ‘‘سے بآسانی حاصل کی جاسکتی
ہے۔میری چاہت ہے کہ اس کتاب کوہرباشعورانسان ضرور پڑھے تاکہ وہ بھی جان لے
کہ استاداورشاگردکارشتہ کس قدرلطیف ، پاکیزہ اورمحبتوں بھراہے۔
|